0
Monday 1 Jul 2019 07:38

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں۔۔۔۔۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں۔۔۔۔۔
اداریہ
برصغیر پاک و ہند میں اسلام صوفیاء کے ذریعے پہنچا، البتہ بعض ایرانی تاجر بھی دعوے دار ہیں کہ انہوں نے برصغیر کے ہندو سکھ معاشرے میں اسلامی تعلیمات پہنچائیں۔ صوفیاء ہوں یا تاجر یا کوئی اور طبقہ، حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں دین اسلام کے ماننے والے جذباتی ضرور ہیں، لیکن دین کے بارے ان کی معلومات اور فلسفہ دین سے آگاہی بہت سطحی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے بقول شب بھر میں مسجدیں تو بنا دیتے ہیں، لیکن عمر بھر نمازی نہین بنتے۔ برصغیر کی وسعت اور اس پر مسلمان حکمرانوں کا طویل دور حکومت بھی اس بات کا باعث بنا کہ سامراجی طاقتوں نے دین اسلام کو اپنے سامراجی اہداف کے راستے میں رکاوٹ جانا۔ اسلام جب تک روایتی اور طاغوت کے سامنے سربسجود رہا، طاغوتی اور سامراجی طاقتوں نے بھی اسے نہیں چھیڑا، لیکن برطانوی سامراج نے جس وقت دین اسلام اور مسلمانوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھا تو انہوں نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے سامراجی فارمولے کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اسلام کو کئی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا۔

برصغیر میں قیام پاکستان سے پہلے بالخصوص 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں۔ اہلسنت کے اندر بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث اور اس جیسے کئی فرقے بنا دیئے گئے۔ تشیع کو بھی معاف نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ لوگ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کے برہ راست دشمن نہ تھے، لیکن پھر بھی برطانوی سامراج کے حملوں سے محفوظ نہ رہ سکے، شیخیت، دو رکعتی، جمن شاہی، ملنگ اور اس طرح کے کئی فرقے تشیع کے اندر نمودار ہوئے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پاکستان میں اس کی وسیع پذیرائی کے بعد جہاں اہلسنت کے اندر بعض انتہاء پسندون کو تشیع کے خلاف اٹھایا گیا، وہاں شیعت کے اندر بھی انقلاب دشمن نرسری کو کاشت کیا گیا۔ تشیع کے انقلابی اور مرجعیت پسند حلقوں کو مرکزیت سے جدا کرنے کے لیے پاکستان میں نئی نئی فقہی اور کلامی بحثیں شروع کی گئیں اور انقلابی و مرجعیت پسند تشیع کو مقصر اور اہلیب علیھم السلام کی ولایت کا مخالفت بنا کر پیش کیا گیا۔

انقلابی تشیع چونکہ عالمی اور مقامی سطح پر صاحبان اقتدار کو چیلنج کرتی تھی، لہذا حکمرانوں اور ان کی ایجنسیوں نے بھی انہیں تقسیم کرنے میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ آج جبکہ عالم اسلام کو ڈونالڈ ٹرامپ اور نیتن یاہو جیسے اسلام دشمن طاغوتوں سے مقابلہ ہے، عالم اسلام کو مجموعی طور پر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی انقلابی اور میدان جہاد میں موجود تشیع کو بھی کمزور کیا جا رہا ہے۔ ایران کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان سمیت دوسرے ممالک میں تشیع کو کمزور کیا جائے گا، اب اسے ایم آئی سکس کی کارستانی قرار دیں یا سی آئی اے کی سازش یا کسی مقامی خفیہ تنظیم کی کارستانی۔ بہرحال دنیا بھر بالخصوص پاکستان کی تشیع کو غالی و مقصر کے جھگڑوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے قم و نجف کی مرجعیت کی طرف دیکھنا ہوگا، وگرنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
خبر کا کوڈ : 802468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش