0
Monday 1 Jul 2019 17:30

ہم آہنگی بین المذاہب، ضرورت اور تقاضے

ہم آہنگی بین المذاہب، ضرورت اور تقاضے
تحریر: علامہ اصغر عسکری

بلاشبہ تمام آسمانی ادیان نے انسانی معاشرے سے انتہاد پرستی، شدت پسندی اور تعصبات کے خاتمے کا درس دیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم المرسلین تک اور ان کے بعد آئمہؑ اور صحابہ کرام نے ہمیشہ انسانوں کو آپس میں پیار و محبت، روا داری قائم کرنے، نفرتوں اور تعصبات کو مٹانے کا پیغام دیا ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا بنیادی ہدف اور مقصد ہی انسانیت کی وحدت ہے۔ مسلم، یہودی، مسیحی، ہندو، سکھ، بدھ مت اور پارسی تمام ادیان و مذاہب کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اہم اصول رواداری، پیار و محبت، انسانی ہمدردی کا فروغ اور تعصبات کا خاتمہ ہے۔ البتہ تعبیرات اور الفاظ میں فرق ہوسکتا ہے۔ کسی نے انسانیت کی وحدت کی بات کی ہے کہ تمام انسان انسان ہونے کے لحاظ سے مساوی ہیں اور اسی بنیاد پر وحدت قائم کرنی چاہیئے۔ کسی نے دین کی وحدت کی بات کی ہے کہ تمام ادیان حقیقت میں ایک ہی دین کا تسلسل ہیں، شرعی احکام اور قوانین وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلتے رہے ہیں، مگر روح دین ایک ہے۔

تمام آسمانی ادیان نے خدا کی پرستش کی بات کی ہے۔ تمام ادیان نے سچائی، فدا کاری، خدمت، وفا، ایثار، عاجزی، انکساری، انسان دوستی غرض تمام انسانی اقدار کو زندہ کرنے کا درس دیا ہے اور جھوٹ، مکر و فریب، ظلم و نا انصافی، تعصب، حسد و  کنیہ اور جہالت جیسی صفات رذیلہ اور خواہشات نفسانی کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔ کسی نے امت واحدہ کی بات کی ہے۔ جب تمام ادیان کے درمیان اس حد تک مشترکات پائے جاتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج انسانی معاشرے میں تعصب، تنگ نظری، ظلم، فقط خود کو حق اور باقی سب کو باطل جاننا، تکفیریت کے فتوے لگا کر واجب القتل قرار دینا۔ شدّت پسندی اور انتہاء پسندی جیسی بیماریاں کیوں مسلط ہیں اور انسانی معاشرہ آج ظلم و بربریت، درندگی، قتل و غارت کی جو بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اس کا یقیناً کسی دین و مذہب سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔

دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ کسی مذہب کا پیروکار محفوظ نہیں ہے، کوئی عبادت گاہ محفوظ نہیں ہے۔ انسان انسان کے گلے کاٹ رہا ہے اور ہر شخص دوسروں کو کاٹنے اور نیچا دکھانے میں صلاحیتیں ضائع کر رہا ہے۔ جن خدا داد صلاحیتوں کو انسانی معاشرے کی مثبت تعمیر و ترقی میں خرچ ہونا تھا۔ آج وہ صلاحیتیں، نفرتوں اور تعصبات کے فروغ میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اتحاد و وحدت ملّی قرآن حکیم نے بیان کیا ہے، اتنی اہم ہے کہ حضرت ہارونؑ نے بنی اسرائیل کی مشرکانہ روش کو حضرت موسیٰ ؑ کی واپسی تک برداشت کیا اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے اور اپنی قوم کے انحراف کا مشاہدہ کیا تو نہایت ناراحت ہوئے، اپنے بھائی ہارون سے پوچھا۔: جب آپ نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تو کون سا امر مانع ہوا کہ آپ انہیں روکتے؟ (طہٰ:۹۲) یعنی تفرقہ سے بچنا اتنا اہم ہے کہ حضرت ہارون کئی دنوں تک قوم کے انحراف، گمراہی اور بت پرستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، مگر قوم کو کچھ نہ کہا کیوں۔؟ اس لئے کہ کہیں قوم میں انتشار و تفرقہ پیدا نہ ہو جائے۔ یعنی قوم کی یکجہتی کی خاطر بڑے بڑے انحراف کو بھی وقتی طور پر نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔

اسلام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ مذہب اور اعتقاد کا معاملہ ہر انسان کے اپنے ذاتی فیصلے اور اختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں زور زبردستی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ دنیا خدا نے انسانوں کے علم و عقل اور عمل کی آزمائش کے لئے بنائی ہے، جس کے لئے انسانوں کو عقیدہ و عمل کی آزادی کا حاصل ہونا لازم ہے۔ لہٰذا دنیا میں ہمیشہ مذہبی اختلافات رہے ہیں اور رہیں گے اور اس جواب میں حضرت ہارونؑ نے کہا مجھے ڈر ہوا کہ آپ کہیں گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا خیال نہ کیا۔ (طہٰ:۹۴) قرآن حکیم نے امت کے لئے نہ صرف ایسی مثالیں بیان کی ہیں بلکہ صراحت سے اتحاد و وحدت کا دامن تھامے رکھنے کا حکم دیا ہے، انتشار کے خطرناک عواقب اور نتائج سے خبردار کیا ہے۔ میثاق مدینہ جیسی روشن مثال ہمارے سامنے ہے، جب حضورﷺ مدینے تشریف لائے اور ریاست مدینہ قائم فرمائی تو سب سے پہلے مختلف ادیان و مذاہب کے قبائل جن میں مسلم، یہودی اور مسیحی شامل تھے، ان کے درمیان ایک امن معاہدہ قائم کیا۔

وطن عزیز میں شدّت پسندی جیسی تلخ حقیقیت کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے خیال میں اس بحث میں الجھنا کہ اس کا ذمہ دار کون سا طبقہ یا مذہب ہے؟ کسی ایک گروہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ اس منتشر اور بکھرے ہوئے انسانی معاشرے کو کیسے آپس میں جوڑا جائے؟ ریاست کو اس حوالے سے کیا کردار ادا کرنا چاہیئے اور مذہبی طبقہ بالخصوص علماء کرام کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ ہم آہنگی بین المذاہب اور اتحاد و رواداری کا فروغ اگرچہ بنیادی ذمہ داری ریاست اور بالخصوص وزارت مذہبی امور کی ہے اور اسی وزارت کا دائرہ کار بنتا ہے، گذشتہ حکومتوں کے دور اقتدار میں اس وزارت نے اس حوالے سے نہ صرف تسلی بخش کام نہیں کیا بلکہ اگر کہا جائے کہ کوئی کام نہیں کیا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔

یہ بات میں پورے وثوق سے اس لئے کر رہا ہوں، چونکہ میں قومی کمیشن برائے بین المذاہب ہم آہنگی کا ممبر رہا ہوں اور اس حوالے سے پوری کارکردگی میرے سامنے ہے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور بالخصوص وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نورالحق قادری صاحب جن کی شخصیت میں عاجزی و انکساری، ملنسار ہونا اور ہر مسلک کے افراد سے اچھا رابطہ ہے۔ اس مقصد کے حصول میں یقیناً مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ اب تک اس حوالے سے جتنے پروگرامز ہوئے، میں ان کا حصہ رہا اور اقلیتوں کے جتنے تہوار وزارت کی طرف سے منعقد کیے گئے، بھرپور تھے اور امید پیدا ہوئی ہے کہ پیار و محبت کا یہ کاروان آگے بڑھے گا۔ اب وقت ہے کہ مذہبی طبقہ بالخصوص علماء کرام وزارت مذہبی امور سے تعاون کریں، تاکہ وطن عزیز سے نفرتوں کو مٹایا جائے اور محبتوں کو عام کیا جائے۔ ہم آہنگی بین المذاہب کے حوالے سے معروف ادارہ امن و تعلیم فاؤنڈیشن کا اگر تذکرہ نہ ہوا تو یقیناً ناانصافی ہوگی۔ گذشتہ چند سالوں سے مجھے اس ادارے کی طرف سے منعقد کئے گئے پروگرامز، کانفرنسز اور ورکشاپس میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ بلاشہ اگر پاکستان میں کسی ادارے نے اس میدان میں بھرپور کام کیا ہے تو وہ یہی ادارہ ہے۔

بالخصوص مذہبی طبقے اور علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں امن و تعلیم کی ٹیم کی بھرپور کاوش قابل تحسین ہے، بلاشبہ ہم آہنگی بین المذاہب وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور عبادت بھی۔ بانی پاکستان نے ہمیں مسلکی پاکستان نہیں دیا تھا بلکہ ایک ایسا پاکستان جس میں تمام ادیان و مذاہب کے پیروکار آزادی سے اپنے اپنے انداز سے عبادت کریں۔ آج بانی پاکستان کے اس کھوئے ہوئے پاکستان کو دوبارہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔ آیئے صرف بند کمروں اور ہوٹلوں میں اتحاد و وحدت کی گفتگو سے نکل کر نچلی سطح تک اس پیغام کو عام کریں۔ گلی گلی اور ہر محلے میں جاکر امن کے پیغام کو پھیلائیں۔ سیاسی، مذہبی جماعتیں، حکومتی ادارے، سول سوسائٹی، علماء کرام اور بالخصوص الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا بڑا اہم رول ہے۔ ریاست کی طرف سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شدّت پسندی کے خاتمے میں یقیناً اہم کردار ادا کرے گا اور ہم حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہیں۔

لہٰذا ہمارا موقف بڑا صاف اور واضح ہے کہ بانی پاکستان نے بھی اور وطن عزیز کا آئین بھی پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں تمام ادیان و مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی رسومات میں آزاد ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلک کے عقائد و نظریات کی نفی کرے یا کفر کے فتوے لگائے۔ آیئے جہاں ہمیں تمام ادیان و مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنی ہے، وہاں ان شرپسند عناصر جو ملک و قوم کے دشمن ہیں اور بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، ان کی نشاندہی بھی کرنی ہے اور ملک و قوم کو ان کے مذموم عزائم سے محفوظ بھی رکھنا ہے۔ کسی گروہ کو دوسرے گروہ پر مذہبی جبر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے، ہدایت کی راہ گمراہی سے بالکل واضح ہوچکی ہے، پس جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان رکھا، اس نے ایک مضبوط سہارے کو تھا م لیا، جو کبھی ٹوٹے گا نہیں اور خدا سننے والا جاننے والا ہے۔(بقرہ:652) ایک اور جگہ پر خدا متعال نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک گروہ بنا دیتا، لیکن یہ ہمیشہ باہم اختلاف کرتے رہیں گے۔(ہود:811)

پس معلوم ہوا کہ مذاہب اور عقائد کا اختلاف اس کائنات کے حسن کو ظاہر کرتا ہے اور اسی تنوع میں حسن ہے، مذہبی اختلافات کے حوالے سے قرآن کی یہ تعلیم انسانی معاشروں میں جبر کی فکری بنیادوں کو منہدم کر دیتی ہے، کیونکہ انسان جب مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کے ساتھ زور اور زبردستی کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اسے ایک کارِ ثواب اور خدا کی منشاء سمجھ کر کرتا ہے جبکہ قرآن کی تعلیم دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیتی ہے کہ خدا کی مشیت اس دنیا میں مذہبی اختلافات کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کو برقرار رکھنا ہے اور یہ کہ ان اختلافات کے فیصلے کی جگہ یہ دنیا اور انسانی عدالتیں نہیں بلکہ اس کا فیصلہ روز قیامت خود خالق کائنات کو کرنا ہے۔ آیئے سب عہد کریں کہ ہم آہنگی بین المذاہب کو فروغ دے کر وطن عزیز میں بسنے والے ہر پاکستانی کو یہ پیغام دیں کہ وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ آیئے اپنے اپنے رنگ و روپ سے نکلیں اور ایک ہی رنگ اپنائیں اور وہ محبت و امن کا رنگ ہے۔
کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خوشبو سے
گلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے
خبر کا کوڈ : 802530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش