1
Monday 1 Jul 2019 23:47

اسرائیل سے دوستی میں بحرین کی یکہ تازیاں

اسرائیل سے دوستی میں بحرین کی یکہ تازیاں
تحریر: فاطمہ صالحی

حال ہی میں بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی انتہائی حیرت انگیز بیانات دیے ہیں۔ وہ اسرائیل کے ٹی وی چینل نمبر 10 سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: "ہمارا عقیدہ ہے کہ اسرائیل باقی رہے گا اور ہم اس سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔" بحرین کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرب حکمران کا اسرائیلی ٹی وی چینل سے انٹرویو کوئی معمولی بات نہیں، کہا: "یہ کام بہت عرصہ پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے بات چیت ہمیشہ تناو میں کمی کا باعث بنتی ہے۔" خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ کے اس انٹرویو کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے بحرینی وزیر خارجہ کے اس بیان کو فلسطین کاز کے خلاف منحوس ارادے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حماس اپنی طاقت اور مضبوط ارادے کے ذریعے فلسطین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔
 
ایک عرصے سے بحرینی حکومت اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہو رہے ہیں جبکہ بحرین کے انقلابی حلقوں میں اس کے خلاف شدید اعتراض پایا جاتا ہے۔ جمعیت الوفاق بحرین نے وزیر خارجہ کے حالیہ موقف کے خلاف بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام بحرینی شہری اسرائیل کی صہیونی رژیم کو غاصب تصور کرتے ہیں۔ بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ کے اظہار خیال کا بحرینی عوام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ شیخ خالد بن حمد آل خلیفہ نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں منامہ میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس کا مقصد اسرائیل سے تعلقات کو فروغ دینا نہیں تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ منامہ کانفرنس کا مقصد اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کا دفاع اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کی پامالی تھا۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے سینچری ڈیل کے اقتصادی شعبے سے مربوط کانفرنس کے انعقاد کیلئے منامہ کا انتخاب اس لئے کیا تاکہ ایک طرف تو عرب حکام اور اسرائیلی حکام میں قربت پیدا کر سکے اور دوسری طرف اسرائیل اور عرب حکومتوں کے تعلقات منظرعام پر لے آئے۔
 
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین اسلامی دنیا میں یہ پرچار کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک کا حقیقی دشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔ انہیں یہ مشن درحقیقت امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے سونپا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد اسلامی دنیا کی رائے عامہ کی توجہ مسئلہ فلسطین سے ہٹانا ہے۔ یاد رہے گذشتہ چند سالوں سے بحرین میں انقلابی تحریک چل رہی ہے جس میں شامل بحرینی شہری آمرانہ طرز حکومت ختم کر کے جمہوری طرز حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت بحرین میں شدید آمرانہ حکومت برسراقتدار ہے اور اس ملک میں شہری بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ بحرینی رژیم نے عوام کو ووٹ جیسے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا ہوا ہے جبکہ آزادی اظہار پر بھی شدید پابندی ہے۔ بحرینی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کی شہریت منسوخ کر کے انہیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہی ہے۔ انہی اقدامات کے باعث بحرینی رژیم گوشہ گیری کا شکار ہے اور سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے میں امریکہ کا ساتھ دینے میں بھی اس کا اہم ترین مقصد اس گوشہ گیری سے باہر نکلنا ہے۔
 
آل خلیفہ رژیم ایک طرف تو امن اور صلح کی باتیں کرتی ہے جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے اپنی ہی عوام کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ بحرین میں انقلابی تحریک کے آغاز کے بعد جزیرہ شیلڈ فورس کی آڑ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فورسز بحرین میں داخل ہو گئیں اور وسیع پیمانے پر عام شہریوں کو قتل کرنے اور انہیں گرفتار کر کے ٹارچر کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ بحرینی حکومت نے امریکی اور اسرائیلی حکام کو خوش کرنے کیلئے تمام حدیں پار کر دی ہیں اور حتی فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا ہے۔ اگرچہ منامہ میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے لیکن خلیج کی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام کا زمینہ فراہم کرنے میں موثر واقع ہوئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بحرینی وزیر خارجہ کا اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دینا اسرائیل سے اپنے تعلقات اعلانیہ کرنے کی مقدمہ سازی ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 802581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش