QR CodeQR Code

یمن، ماضی اور حال کے تناظر میں(2)

2 Jul 2019 14:02

اسلام ٹائمز: اس دنیا میں بالخصوص مسلم ممالک میں حق بات کہنے کا الزام ہمیشہ ایران پر لگایا جاتا ہے، حماس اسرائیل کے مقابلے میں مقاومت کا مظاہرہ کرے تو ایران مجرم، حزب اللہ اسرائیل کے مقابلے میں عزم و ہمت کا مظاہرہ کرے تو ایران مجرم، اسی طرح انصار اللہ اگر سعودی جارحیت کے مقابلے میں کھڑی رہے تو ایران مجرم، حالانکہ حقیقت یہ ہے یمن کا زمینی، فضائی اور سمندری راستوں سے محاصرہ کیا گیا اور اس تک ایران کی خواہش کے باوجود بھی کوئی مدد نہ پہنچنے دی گئی۔ تاہم اس پراپیگنڈہ کا ایک فائدہ ضرور ہوا، وہ یہ تھا کہ مسلم امہ میں جس طرح سے یمنیوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہونے چاہیئے تھے، وہ نہ ہوئے اور انکی اس آزادی، عزت و وقار کی خاطر جاری تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔


تحریر: سید اسد عباس
 
گذشتہ سے پیوستہ
حسین بدر الدین کے علی عبد اللہ صالح سے اختلافات
یمن کا سابقہ صدر علی عبد اللہ صالح جس نے تقریباً 33 سال یمن پر حکومت کی، زیدی مسلک سے ہی تھا۔ یمنی افواج اور حکومتی اداروں میں زیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک ہی مسلک سے تعلق کے سبب ابتدا میں حکومت اور اس تحریک کے تعلقات دوستانہ تھے۔ حزب حق کے پلیٹ فارم سے بہت سے زیدی ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے، سید حسین بدر الدین الحوثی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ معاملات اس وقت دگر گوں ہوئے، جب علی عبداللہ صالح نے عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اتحادی افواج کا ساتھ دیا۔ سیاسی طور پر سید حسین بدر الدین الحوثی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے رہے۔ سید حسین نے حزب حق کو شباب المومن کا نام دیا اور اس تحریک کو ایک شعار بھی دیا۔ اس شعار کو عربی زبان میں "الصرخہ فی وجہ المستکبرین" بھی کہتے ہیں۔ سید حسین بدر الدین الحوثی ایک بلیغ خطیب تھے، دھیمے لہجے میں بات کرتے ہوئے آپ اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے تھے۔
 
سید حسین بدر الدین الحوثی عالم اسلام کی تاریخ اور اس کے مسائل کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے، وہ عالم اسلام کے مسائل اور یمن کے داخلی مسائل سب سے واقف تھے۔ ان کا خطاب قرآن کی آیات پر مشتمل ہوتا تھا۔ وہ آیات قرآنی کو عالم اسلام کے موجودہ حالات سے مطابقت دیتے اور فرماتے تھے کہ ہمارے مسائل کا حل قرآن پڑھنے میں نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے میں ہے۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کہنا تھا کہ اگر یہ قرآن چودہ سو سال پہلے کے عرب معاشرے کے اندر حرکت پیدا کرسکتا ہے تو ہمارے اندر یہ حرکت کیوں پیدا نہیں کرتا۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے دشمن کا درست اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خطابات میں صہیونی ریاست اور اس کے منصوبوں کی جانب بار بار اشارہ کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ قرآن کریم ہمیں یہود سے کیسا رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ عرب حکمرانوں کو بھی کہتے تھے کہ قرآن تمہیں جس چیز سے منع کرتا ہے، تم عملی طور پر وہی کام کر رہے ہو۔
 
سید حسین بدر الدین نے یمن میں ایک قرآنی ثقافت کی بنیاد رکھی۔ آپ نے نوجوانوں کو تلقین کی کہ قرآن کو پڑھیں مت اس کے احکامات پر عمل کریں، تاکہ آپ کی زندگیوں میں قرآنی اخلاق، قرآنی ثقافت اور قرآنی بصیرت کو فروغ ملے۔ وہ امت کے افتراق کو سب سے بڑی مصیبت کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن ہمیں امت واحدہ کہتا ہے اور ہم نے اپنے آپ کو طائفوں، مسالک اور مکاتب میں تقسیم کر لیا ہے۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کلام نوجوانوں کے دل و دماغ میں یوں اثر کرتا کہ ان کی زندگیاں بدل جاتیں۔ آپ نوجوانوں کو دیئے گئے شعار پر بہت زور دیتے اور کہتے کہ حکم قرآن ہے کہ ہم استکبار کے خلاف آواز بلند کریں اور حالات سے اس شعار کو یوں تطبیق دیتے کہ اگر آپ نے اس شعار کو بلند کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ نہ کیا تو سمندر کی جانب دیکھو۔

آپ تھوڑی دیر ہی سمندر پر غور کریں گے تو آپ وہاں امریکیوں، فرانسیوں، برطانویوں اور جرمنوں کو دیکھیں گے، جو آپ کے ملکی یعنی دیار عرب میں گھسنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ تم مردہ باد ہو، وہ تمہیں حقیقت میں مار دیں گے۔ وہ تمہارے شرف، کرامت، عزت، دین اور روح کو فنا کر دیں گے۔ وہ تمہارے بیٹوں اور بیٹیوں کے کردار کو برباد کر دیں گے اور تم اپنے آپ کو ذلت کی گہرائیوں میں پاؤ گے۔ 2004ء میں حسین بدرالدین اور علی عبد اللہ صالح کی حکومت کے اختلافات شدت اختیار کرگئے، علی عبد اللہ نے اس تحریک پر کئی ایک جھوٹے مقدمات قائم کیے اور اس قبیلے کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا، جس میں سید حسین بدر الدین الحوثی اور ان کے چند رفقاء شہید ہوگئے۔
 
عبد الملک الحوثی سربراہ انصار اللہ
حسین بدر الدین الحوثی کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سید عبدالمالک ابن بدرالدین کو تحریک کا قائد چنا گیا۔ علی عبد اللہ صالح نے حسین بدر الدین الحوثی کی شہادت کے بعد بھی صعدہ پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا، حکومت اور حوثیوں کے مابین ایک لمبے عرصے تک جنگ بندی اور جنگ کا سلسلہ جاری رہا اور حوثی نہایت جوانمردی اور حوصلے کے ساتھ حکومتی حملوں کا جواب دیتے رہے۔ حوثیوں کے مطالبات ملک کے آئین و قانون کے تحت اپنے مذہبی اور علاقائی روایات کے مطابق آزادی اور عزت سے جینے کا حق، بنیادی انسانی حقوق کا حصول تھے، جبکہ حکومت یمن حوثی تحریک شباب المومن اور اس کی قیادت کو صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ تحریک کسی بھی وقت پورے یمن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
 
علی عبداللہ صالح سے ہادی کے فرار تک
یمن جزیرۃ العرب کا ایک نہایت پسماندہ ملک ہے، جہاں کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، بنیادی صحت، تعلیم، ذرائع رسل و رسائل اور توانائی کے وسائل ناپید ہیں۔ علی عبداللہ صالح کے چالیس سالہ دور اقتدار میں یمن کرپشن اور بدامنی کا گڑھ رہا۔ عرب دنیا میں آنے والے انقلابات کے سبب یمن کے عوام بھی اپنی حکومت کے خلاف میدان عمل میں اترے۔ علی عبد اللہ صالح نے یمنی عوام کی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی، تاہم یہ تحریک روز بروز طاقت پکڑتی گئی۔ علی عبد اللہ صالح ایک معاہدے کے تحت ملک سے فرار کر گیا اور حکومت اس کے وزیراعظم عبد المنصور الہادی کو ملی۔ عبدالمنصور الہادی کی حکومت ایک عبوری حکومت تھی، جس کے ذمہ آئین میں بنیادی تبدیلیاں اور نیا پارلیمانی الیکشن تھا۔ 2014ء تک عبد المنصور الہادی نے تفویض کردہ دونوں کام نہ کئے، اس پر مستزاد یہ کہ عوام پر پیٹرول بمب برسایا گیا۔

عوام کو حاصل آئل سبسڈی کا خاتمہ کر دیا گیا، جس کے سبب اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ پہلے ہی پسماندہ اور محروم عوام اس سبسڈی کے خاتمے کے سبب مزید دباؤ میں آکر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ بھی میدان میں آئی اور فریقین کے مابین گفت و شنید کے مختلف ادوار ہوئے۔ عبد المنصور الہادی نے بھی عوام کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی، جس کے جواب میں یمن کا مضبوط ترین گروہ انصار اللہ عبد المالک الحوثی کی قیادت میں میدان عمل میں اترا۔ عبد المنصور الہادی ملک سے فرار کر گیا اور اس کے کئی ایک وزراء نے استعفٰی دے دیا، تاہم کچھ دنوں بعد عبد المنصور الہادی خلیجی ریاستوں کی آشیر باد سے ملک میں واپس آگیا اور ملک میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔
 
خلیجی ریاستوں کی یمن میں مداخلت
 خلیجی ممالک منجملہ سعودی عرب، عرب امارات اور قطر نے حوثیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے یمن میں جمہوریت کے تحفظ کے نام پر مداخلت شروع کی۔ خلیجی افواج نے یمن پر فضائی حملون کا آغاز مارچ 2015ء میں کیا، جو تاحال جاری ہیں۔ خلیجی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ یمنی شہید اور زخمی ہوئے، لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے، املاک، انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔
 
خلیجی ممالک نیز ان کے اتحادیوں کی یمن میں دلچسپی کی وجوہات باب المندب
باب المندب بحیرہ احمر کی ایک سمندری گزرگاہ ہے، جو بحیرہ احمر کو بحر ہند سے جوڑتی ہے۔ یہ بحری گزرگاہ یمن، اریٹیریا اور جیبوتی کے سمندروں میں موجود ہے۔ جزیرہ پرم کے مقام پر یہ گزرگاہ دو چینلز میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس بحری گزرگاہ کی کل چوڑائی چالیس کلومیٹر کے قریب ہے۔ یہ گزرگاہ خطے میں ہونے والی بحری نقل و حمل کے لیے نہایت اہم ہے۔ یورپی یونین، چین، جاپان، ہندوستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک کے تجارتی سامان کا بڑا حصہ، دنیا کا تیس فیصد تیل، خلیج فارس سے برآمد ہونے والا قریباً مکمل تیل اور قدرتی گیس اسی آبناء کے ذریعے سے دنیا تک پہنچتے ہیں۔ باب المندب کا مغربی حصہ قریباً پچیس کلومیٹر چوڑا ہے۔ اس آبناء کے ذریعے تجارتی جہاز خلیجِ عدن سے بحر احمر جاتے ہیں اور پھر نہر سوئس اور بحر روم منتقل ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ تقریباً 60 سے زیادہ تجارتی جہاز اس آبی گذرگاہ کو عبور کرتے ہیں، جبکہ اس کے راستے سے یومیہ 33 لاکھ بیرل خام تیل منتقل ہوتا ہے۔ اگر یہ گزرگاہ کسی بھی وجہ سے بند ہو جائے یا ناامنی کا شکار ہو جائے تو دنیا بھر کی معیشت کے متاثر ہونے اور تیل و گیس کی قیمتوں کے بڑھ جانے کے خطرات موجود ہیں۔
 
حضر موت اور المکلا بندرگاہ
سعودیہ کے نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے 2015ء میں اعلان کیا تھا کہ ہم یمن پر حملے فقط اس صورت میں بند کرسکتے ہیں کہ اگر یمنی ہمیں حضر موت دے دیں۔ بیان تو کسی شہزادے کی احمقانہ بڑ لگتی ہے، تاہم بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ حضر موت یمن کا مشرقی صوبہ یا علاقہ ہے، جس میں یمن کے بہت سے اہم شہر واقع ہیں۔ اگرچہ اس خطے کا زیادہ علاقہ بے آب و گیاہ ہے، تاہم یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ تیل، گیس، معدنیات جس میں سونے کے ذخائر بھی شامل ہیں، حضر موت میں پائے جاتے ہیں۔ تیل کی دریافت پر تحقیق کرنے والے عالمی جریدے OGJ Journal کے مطابق حضر موت میں تیل اور گیس کے ریزروز اس وقت دریافت کئے جانے والے ریزورز سے بہت زیادہ ہیں۔ حضر موت کی ایک اور اہم خصوصیت اس علاقے کی اپنی بندرگاہ یعنی المکلا ہے۔ حضر موت کا کل رقبہ تقریباً 74 ہزار مربع میل ہے۔ اس کی شمالی سرحد پر سعودیہ اور جنوبی سرحد پر بحیرہ عرب ہے۔ اگر حضر موت نیز المکلا سعودیہ کو مل جائے تو اس کا بحر ہند نیز مشرقی ممالک تک کا سمندری فاصلہ کافی حد تک کم ہوسکتا ہے۔
 
عوامی انقلابی حکومت 
سعودیہ، عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستیں جہاں بادشاہت و آمریتوں کا دور دورہ ہے، کسی صورت برداشت نہیں کرسکتیں کہ ان کے ہمسائے میں ایک جمہوری اور عوامی ریاست قائم ہو، جو ان کی پالیسیوں سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ عرب دنیا میں عوامی حکومت کی یہ مثال باقی عرب ریاستوں کے عوام کے لیے بھی ایک مثال بن سکتی تھی، جسے روکنا خلیجی ریاستوں کے لیے از حد ضروری تھا، لہذا خلیجی ریاستوں نے ضروری سمجھا کہ یمن کے معاملات میں براہ راست مداخلت کی جائے اور وہاں قائم انقلابی کونسل کا خاتمہ کرکے اپنے کسی کٹھ پتلی اور کاسہ لیس کی حکومت کو قائم کیا جائے۔
 
اسلحہ کی فروخت
مغربی ممالک کی یمن کے قضیے میں دلچسپی اپنے ممالک تک بلا تعطل تیل کی رسائی، جزیرۃ العرب میں کسی عوامی انقلابی حکومت کے قیام کو روکنا نیز خلیجی ممالک کو اسلحہ کی فروخت تھا۔ اسی وجہ سے خلیجی ممالک کی مسلسل جارحیت، اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی چیخ و پکار کے باوجود مغربی دنیا نے اس معاملے پر چپ سادھے رکھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حوثی تحریک کی بنیاد ہی امت مسلمہ کو خارجی تسلط سے آزاد کروانے، اسرائیل کی نابودی، امریکہ کی عرب ممالک سے بے دخلی پر قائم تھی، لہذا مغربی ممالک اس تحریک کو کسی صورت بھی کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لہذا انسانی حقوق کے یہ چیمپین اس ملک پر ہونے والی مسلسل جارحیت پر خاموش رہے۔
 
ایران پر حوثیوں کی مدد کا الزام
اس دنیا میں بالخصوص مسلم ممالک میں حق بات کہنے کا الزام ہمیشہ ایران پر لگایا جاتا ہے، حماس اسرائیل کے مقابلے میں مقاومت کا مظاہرہ کرے تو ایران مجرم، حزب اللہ اسرائیل کے مقابلے میں عزم و ہمت کا مظاہرہ کرے تو ایران مجرم ، اسی طرح انصار اللہ اگر سعودی جارحیت کے مقابلے میں کھڑی رہے تو ایران مجرم، حالانکہ حقیقت یہ ہے یمن کا زمینی، فضائی اور سمندری راستوں سے محاصرہ کیا گیا اور اس تک ایران کی خواہش کے باوجود بھی کوئی مدد نہ پہنچنے دی گئی۔ تاہم اس پراپیگنڈہ کا ایک فائدہ ضرور ہوا، وہ یہ تھا کہ مسلم امہ میں جس طرح سے یمنیوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہونے چاہیئے تھے، وہ نہ ہوئے اور ان کی اس آزادی، عزت و وقار کی خاطر جاری تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ حرمین شریفین پر حملے کے بے بنیاد دعووں کو بھی یمنی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور ان کو اس ناکردہ گناہ کی سزا پوری امت مسلمہ کی جانب سے دی گئی۔
 
فرقہ وارانہ اور جھوٹے پراپیگنڈہ کی بنیاد پر فوجی اتحاد کا قیام
سعودی اور خلیجی اتحاد نے اپنے مغربی حواریوں کی مدد سے یمنیوں پر جھوٹے الزامات لگائے اور اکتالیس مسلمان ممالک کا دہشت گردی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا، جس کی سربراہی پاکستان کے ایک سابق جرنیل کے سپرد کی گئی۔ پاکستان میں سعودیہ میں فوجی دستے تعینات کرنے کی بات بھی سامنے آئی، جسے ملک کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے روکا، تاہم سوڈان اور دیگر مسلم ممالک سے فوجی دستے یمنیوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے سعودیہ میں تعینات کیے گئے۔ اس فوجی اتحاد کی ایک خاص بات اس میں ان ممالک کی افواج کا نہ شامل ہونا ہے، جو عملی طور پر دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما تھیں۔
 
قطر کا معرکہ یمن سے الگ ہونا
یمن پر حملے کے تیسرے برس یعنی 2017ء میں قطر خلیج کونسل کے ممالک سے اختلاف کے سبب اس معرکے سے الگ ہوگیا اور اسے خلیجی ممالک کی جانب سے دھونس، دھمکی اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پابندیوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قطر پر اقتصادی پابندیوں پر پوری دنیا میں شور و غوغا ہوا، تاہم یہی ممالک یمن کے قطر سے بدتر حالات پر اس وقت بھی خاموش تھے اور اب بھی خاموش ہیں۔
 
اذا جاء نصر اللہ والفتح
یمن پر جاری چار سالہ خلیجی جارحیت، محاصرہ اور عالمی بے حسی و خاموشی کے بعد انصاراللہ کو اللہ کی مدد حاصل ہوئی اور اس کے ماہرین نے ایک ایسا ڈرون طیارہ بنایا، جس نے سعودی معیشت کی شاہ رگ یعنی تیل کی پائپ لائن پر سعودی فضائی حدود میں سینکڑوں کلومیٹر اندر جاکر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ سعودی افواج اور اس کے اتحادی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اس ڈرون کے حملوں کو روک سکیں یا ڈرون طیاروں کو گرا سکیں۔ یمنی جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیںم ان ڈرون طیاروں کے ذریعے کامیاب حملے کرتے ہیں، جس سے سعودی حکومت کو یہ واضح پیغام مل چکا ہے کہ اب کسی بھی فضائی جارحیت کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ یمنی افواج اور انصار اللہ کی جانب سے سرحدی علاقوں جیزان، نجران اور ابھا پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ایک حملہ ابو ظہبی ایئر پورٹ پر بھی کیا گیا ہے۔ سعودیہ کے سرحدی ہوائی اڈے ویرانی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اب سعودیہ کو معلوم ہے کہ یمنی کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگرچہ یہ حملہ چھوٹا ہی ہو، تاہم سعودی معیشت کے بحری جہاز میں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی اس دیو ہیکل بحری بیڑے کو غرق کرنے کے لیے کافی ہے۔

ان حملوں نے سعودیہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ چار برس تک مسلسل حملوں کا شکار یمنی اس قابل ہوسکتے ہیں کہ شہروں اور آبادیوں میں گھس کر اتنی مہارت سے حملہ کریں اور اپنے اہداف کو نہایت دانشمندی سے منتخب کریں۔ دنیا اب بھی خاموش ہے، تاہم اب اس کے پاس شاید کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ کٹھ پتلی ہادی سعودیہ چھوڑ کر امریکا جا بسا ہے، عرب امارات اپنی افواج کو حدیدہ اور عدن کی بندرگاہوں سے نکال رہا ہے، امریکی سینیٹ نے خلیجی ممالک کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ سوڈان میں اس حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے، جس نے سعودی اتحاد کا حصہ بن کر یمن میں فوج تعینات کی۔ یہ ایک بدلا ہوا منظر نامہ ہے، جو اللہ کی نصرت اور یمنی عوام کے صبر و استقامت کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 802686

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/802686/یمن-ماضی-اور-حال-کے-تناظر-میں-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org