QR CodeQR Code

عمران ٹرمپ ملاقات، فائدہ کون اٹھائے گا؟

2 Jul 2019 23:08

اسلام ٹائمز: تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے تعاون سے امریکا اور طالبان کے درمیان جو بات چیت جاری تھی، وہ اب کسی نتیجہ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ دورہ اسی بات چیت کی کامیابی کا اعلان ہے۔ اسکا تعلق امریکہ کی داخلی سیاست سے بھی ہے، امریکا میں 2020ء میں صدارتی انتخابات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتخابی مہم میں اس نعرہ کیساتھ جانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے افغان جنگ ختم کر دی ہے اور وہاں سے فوجوں کا انخلا ہوگیا ہے۔ اپنے طور پر جنگ کے پرامن خاتمے کا اعلان ہی ٹرمپ کی دوسری مدت کیلئے انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ ہوگا۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

ایک عرصے سے پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ موجود ہے، شاہ محمود قریشی کی بطور وزیر خارجہ متحرک اور فعال خارجہ پالیسی کی بدولت موجودہ حکومت نے وزارت خارجہ کو جمود کی صورتحال سے نکال لیا۔ عمران خان خود بھی بیرونی دورہ جات پہ گئے ہیں، اہم ممالک کے سربراہان نے پاکستان کے دورے کیے ہیں۔ مری میں افغان اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان مکالمہ اور بعدازاں افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان نے افغان امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو کامیابی سے نمایاں کیا ہے۔ اسی دوران قطر کے امیر بھی پاکستان آئے، دوحا میں افغان طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کا ساتواں دور مکمل ہوچکا ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان پگھلتی برف میں افغان حکومت، افغان اپوزیشن اور افغان طالبان کو ایک جگہ بٹھانے میں پاکستانی کردار اہم وجہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے درمیان مثبت منفی مماثلت بھی اہم ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا متوقع دورہ کافی اہم ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے تعاون سے امریکا اور طالبان کے درمیان جو بات چیت جاری تھی، وہ اب کسی نتیجہ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ دورہ اسی بات چیت کی کامیابی کا اعلان ہے۔ اس کا تعلق امریکہ کی داخلی سیاست سے بھی ہے، امریکا میں 2020ء میں صدارتی انتخابات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتخابی مہم میں اس نعرہ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے افغان جنگ ختم کر دی ہے اور وہاں سے فوجوں کا انخلا ہوگیا ہے۔ اپنے طور پر جنگ کے پرامن خاتمے کا اعلان ہی ٹرمپ کی دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ ہوگا۔ اس لیے صدر ٹرمپ کیلئے عمران خان کا یہ دورہ امریکا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حالانکہ جب ٹرمپ منتخب ہوئے تھے تو پاکستان کے خلاف تھے۔ لیکن اب وہ پاکستان کی محنت، افغان طاقتوں کیساتھ پاکستان کے تعلقات اور فوجی انخلاء میں پاکستان کے تعاون کو اپنے حق میں استعمال کرینگے۔

ایک سال قبل ہی ٹرمپ نے پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بھی مخالفت کی تھی، لیکن اب برف پگھل گئی ہے، جس کی وجہ افغانستان میں پاکستان کا کردار ہے، اب امریکی پاکستان کے بارے میں مثبت بات کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی ذرائع کے مطابق پاکستان واپس گیم میں آگیا ہے، اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی گیم کیسے کھیلتا ہے۔ ابھی تک ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کوئی سیاستدان نہیں ہے، وہ 73 سال کا ایک کامیاب کاروباری انسان ہے، جو منافقت نہیں کرتا۔ اگر وہ پاکستان کے خلاف تھا تو اس نے ٹوئٹ بھی کیا تھا۔ اب اگر حق میں ہے تو عمران خان کو بلایا جا رہا ہے۔ اس لیے عمران خان کا آنا واضح اعلان ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آگئی ہے۔ لیکن پاکستان میں موجودہ حکام، تجزیہ کار اور پالیسی ساز اس سے متفق نہیں ہیں، بلکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ٹرمپ اتنا بھروسہ مند نہیں، پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا۔

ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے کرتار پورہ میں آنے کی حامی بھی بھری ہے، لیکن بھارتی لابی عمران خان کے امریکہ کے حالیہ دورہ کو ناکام بنانے کے لیے بھی متحرک ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنے میں ابھی دیر لگی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت تبدیلی آگئی ہے، ضروری ہے کہ بھارت اس تبدیلی کو سمجھے۔ یہ دورہ خارجہ پالیسی میں اسی تبدیلی کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے۔ اس تبدیلی کے متعلق امریکہ میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم کر لیا ہے۔ اسی تناظر میں اشرف غنی  پاکستان آئے ہیں، وہ بھارت کی مرضی سے پاکستان آئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں بھارت نواز حکومت پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے۔ اسی لیے بھارت افغانستان میں پاکستان نواز حکومت کے سخت خلاف ہے۔ امریکہ میں یہ تاثر ہے کہ افغانستان میں اب جو بھی سیٹ اپ آئے گا، وہ پاکستانی ہوگا نہ ہی بھارت نواز، دونوں کے لیے غیر جانبدار ہوگا۔

اسی سوچ کی بناء پر پاکستان کو امریکہ کی جانب سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسی لیے بھارت ابھی تک عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے حوالے سے متحرک نہیں ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ خوش نہیں ہیں، لیکن ان کی طرف سے کوئی خاص ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ اس لیے درست مانا جا سکتا ہے کہ اب مودی کو پاکستان مخالف بیانیے کی اس طرح ضرورت نہیں، جیسی الیکشن کے دوران تھی، اب وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں، ساتھ ہی افغان امن مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان نے پاکستانی ایماء پر بھارتی کردار کو کسی طور پر قبول نہیں کیا اور بالآخر امریکہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا، جیسا کہ روس، دوحا، کابل اور مری میں کہیں بھی بھارت کا ذکر تک نہیں آیا، پھر انہی دنوں میں امریکہ نے مذہبی حقوق سے متعلق رپورٹ میں بھارت کا منفی طور پر ذکر بھی کیا، جو بھارت کیلئے ناپسندیدہ تھا، یہ پاکستان کو وقتی طور پر نرمی دکھانے کا ایک امریکی اشارہ بھی ہوسکتا ہے۔

 
صدر ٹرمپ کیلئے کام کرنیوالے پاکستانی ذرائع یہ باور کروا رہے ہیں کہ پاکستانی ٹرمپ کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، ٹرمپ اوباما کی طرح بھارت نواز نہیں، ٹرمپ نے بھارت کی مصنوعات پر بھی ٹیرف لگایا ہے، یہ پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ امریکا کو اپنی برآمدات میں اضافے کی بات کرسکتا ہے۔ بھارت روس سے میزائل خرید رہا ہے، جو بھی ٹرمپ کو پسند نہیں ہے۔ اس لیے اسلام آباد اس سازگار ماحول سے فائدہ اٹھائے، اس وقت پاکستان کو بہت کچھ مل سکتا ہے، جیسے فوجی امداد بحال ہوسکتی ہے اور اس کے بعد باقی چیزیں بھی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکا تو ناراض ہی سی پیک کیوجہ سے تھا اور ہے کہ گوادر پاکستان کو خود بنانا چاہیئے تھا، البتہ اس حوالے سے بھی نئے پاکستان میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ ایشوز ہوسکتا ہے کہ جوں کے توں رہیں، لیکن حقیقت میں عمران خان کا یہ دورہ امریکا جہاں پاکستان کے لیے اہم ہے، وہاں ٹرمپ کے لیے بھی بہت اہم ہے، ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم کا دارومدار افغانستان میں فوج کے انخلا پر ہے اور اس میں پاکستان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ عمران خان کی موجودگی کو کیش کرواتے ہیں یا عمران خان ٹرمپ سے ملاقات کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 802769

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/802769/عمران-ٹرمپ-ملاقات-فائدہ-کون-اٹھائے-گا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org