QR CodeQR Code

صدر اسلام میں قابل افتخار یمنی

12 Jul 2019 11:33

اسلام ٹائمز: کوفہ میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرنیوالے زیادہ تر لوگ یمنی قبائل سے تعلق رکھتے تھے، جو یمن سے ہجرت کرکے کوفہ میں آگئے تھے۔ یمنیوں کے قبائل میں سے اشعری بھی شہرت رکھتے ہیں، جنھوں نے ایران کے معروف مذہبی شہر قم کی طرف ہجرت کی۔ اس سرزمین پر بھی یمنیوں کی دینی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اس خطے کے اولین محدثین اور فقہاء میں اشعریوں کے نام دیکھے جاسکتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے انصار میں بھی یمنیوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی، جنھوں نے آپکے حضور اپنی جان آفریں کے سپرد کی اور شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز نہ ہوئے بلکہ شہدائے کربلا میں انکے نام شامل ہوگئے، جن پر رہتی دنیا تک اہل ایمان رشک کرتے رہینگے۔


تحریر: ثاقب اکبر
 
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں یمنی تہذیب کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو ہر خطے میں بڑے اور قابل افتخار لوگ آئے ہیں، لیکن یمن کی بڑی شخصیات کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ یمنیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیت اللہ کے حج کے لیے انھوں نے سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کی دعوت پر لبیک کہی، چنانچہ کافی میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھما السلام سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو حج کی دعوت دی اور فرمایا: "اے لوگو! میں ابراہیم خلیل اللہ ہوں، اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اس گھر کا حج بجا لائو۔۔۔جنھوں نے سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعوت پر لبیک کہی وہ یمنیوں کا ایک گروہ تھا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر یمنیوں نے اسلام قبول کیا۔ رسولؐ اللہ نے پہلے یمن کی طرف حضرت خالد بن ولید کو چند افراد کے ہمراہ روانہ کیا تھا، جن میں حضرت براءؓ بن عازب بھی شامل تھے، تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں، لیکن چھ ماہ کی کوشش کے باوجود ایک شخص بھی مسلمان نہ ہوا۔

یہ صورت حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناگوار گزری، لہٰذا انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو یمن بھجوایا اور فرمایا کہ خالد اور ان کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں، البتہ کوئی وہاں رہنے پر مائل ہو تو رہنے دیں اور اہل یمن کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ حضرت براءؓ بن عازب حضرت علیؑ کے ساتھ وہاں رہ گئے اور باقی افراد مدینہ لوٹ آئے۔ یمنیوں کو جب معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام یہاں آئے ہیں تو وہ جوق در جوق ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت علی علیہ السلام نماز صبح کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد اہل یمن کے نام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب انہیں پڑھ کر سنایا تو اسی روز ہمدان قبیلے کے تمام افراد اسلام لے آئے۔ ہمدانی یمن کے اہم ترین قبائل میں سے شمار ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی ان کی تعداد بہت قابل ذکر تھی، ان کے اسلام لانے کی اطلاع حضرت علیؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھجوائی۔

نبی کریمؐ نے جب حضرت علیؑ کا خط پڑھا تو بہت خوش ہوئے، سجدہ شکر بجا لائے اور پھر بیٹھ گئے اور فرمایا: "ہمدان پر سلام ہو، ہمدان پر سلام ہو۔" اس کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں تمام یمنی قبائل مسلمان ہوگئے۔ یمنیوں کے بارے میں رسولؐ اللہ کے بہت سے فرمودات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: "جو یمنیوں سے محبت رکھتا ہے، وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے، وہ مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔" (کمال الدین و تمام النعمۃ،ج۲ وغیرہ) صدر اسلام کی بڑی یمنی شخصیات میں حضرت مالک اشترؓ، حضرت کمیلؓ بن زیاد نخعی، حضرت مقدادؓ بن اسود، حضرت اویس قرنیؓ، حضرت حجرؓ ابن عدی، حضرت عمروؓ بن حمق اور حضرت ہانیؓ ابن عروہ جیسے لوگ شامل ہیں۔
 
حضرت مالک ؓابن اشتر حضرت علی ؑ کے اصحاب میں بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ حضرت علی ؑ کے بازئوے شمشیر زن ثابت ہوئے۔ حضرت علی ؑ نے انہیں مصر کا گورنر بنا کر بھیجا تو ایک مکتوب بھی ان کے حوالے کیا، جس میں حکومت داری کے اصول بیان فرمائے گئے ہیں، اس مکتوب کو لازوال شہرت حاصل ہوئی اور آج بھی اسلامی حکومت کے لیے اسے ایک لائحہ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حضرت کمیلؓ حضرت علی کے اصحاب میں سے وہی شخصیت جنھیں آپ نے ایک دعا تعلیم فرمائی، جو دعائے کمیل کے نام سے شہرت رکھتی ہے اور عالم اسلام کے طول و عرض میں لوگ والہانہ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ دعا معارف الٰہی کا خزانہ ہے۔ مناجات کا اسلوب سکھاتی ہے اور بندے کو خدا سے ملانے کا راستہ بتاتی ہے۔ حضرت مقدادؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرامی قدر اصحاب میں شمار ہوتے ہیں، آنحضرتؐ کے بعد آپ حضرت علی ؑ کے ساتھیوں میں شامل رہے۔ حضرت علی ؑ کے خلافت کے لیے انتخاب کے موقع پر آپ کا خطبہ بہت ولولہ انگیز اور ایمان افروز ہے۔
 
حضرت حجرؓ ابن عدی اور حضرت عمروؓ ابن حمق آنحضرتؐ کے ان اصحاب میں شمار ہوتے ہیں کہ جن کی شہادت کی خبر آپؐ نے پہلے ہی دے دی تھی، انہیں امیر شام کے حکم پر شہید کر دیا گیا، جس پر اصحاب ؓرسول نے بہت احتجاج کیا، احتجاج کرنے والوں میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ کتاب جعفر بن محمد بن شریح میں ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیینہ بن حصین بن حذیفہ کے پاس کچھ گھوڑے دیکھے تو اس سے فرمایا کہ میں تیری نسبت گھوڑوں کو بہتر پہچانتا ہوں۔ اس پر عیینہ نے کہا کہ میں آپ کی نسبت زیادہ مردم شناس ہوں۔ آپ نے فرمایا کیسے؟ تو کہنے لگا کہ بہترین مرد وہ ہیں، جو کندھے پر تلوار رکھے ہوئے ہیں اور نیزے انہوں نے اپنے گھوڑوں کے کندھوں پر رکھے ہیں اور یہ اہل نجد ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تو نے جھوٹ کہا، بہترین لوگ اہل یمن ہیں اور ایمان یمنی ہے اور میں یمانی ہوں اور روز قیامت جنت میں داخل ہونے والے زیادہ تر قبائل مذحج کے ہوں گے۔"
 
یاد رہے کہ مذحج یمنی قبائل میں سے ایک قبیلہ ہے، حضرت مالک اشترؓ اسی قبیلے سے تھے۔ ایک اور روایت میں عبارت کچھ یوں ہے: فقال رسول اللّٰہ ص کذبت بل رجال اھل الیمن، افضل الایمان یمانی و الحکمہ یمانیہ و لولا الھجرہ لکنت امرا من اھل الیمن۔۔۔و مذحج اکثر قبیل یدخلون الجنہ۔ "رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا، ایسا نہیں ہے بلکہ یمنی افضل تر ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت یمنی ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں اپنے آپ کو یمنیوں میں شمار کرتا۔۔۔ اور جنت میں داخل ہونے والے اکثر قبائل مذحج ہوں گے۔" مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے قبائل نے رسولؐ اللہ کی نصرت کی اور اسلام کی کامیابی و سربلندی کے لیے انہوں نے مشرکین اور جزیرۃ العرب کے کفار سے جہاد کیا۔ اسلام کی کامیابی میں ان کا زبردست کردار ہے۔ تاریخ کے مطابق یہ دونوں قبائل قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے ہیں، جو یمنی قبیلہ ہے۔
 
کوفہ میں حضرت علی علیہ السلام کی نصرت کرنے والے زیادہ تر لوگ یمنی قبائل سے تعلق رکھتے تھے، جو یمن سے ہجرت کرکے کوفہ میں آگئے تھے۔ یمنیوں کے قبائل میں سے اشعری بھی شہرت رکھتے ہیں، جنھوں نے ایران کے معروف مذہبی شہر قم کی طرف ہجرت کی۔ اس سرزمین پر بھی یمنیوں کی دینی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اس خطے کے اولین محدثین اور فقہاء میں اشعریوں کے نام دیکھے جاسکتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے انصار میں بھی یمنیوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی، جنھوں نے آپ کے حضور اپنی جان آفریں کے سپرد کی اور شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز نہ ہوئے بلکہ شہدائے کربلا میں ان کے نام شامل ہوگئے، جن پر رہتی دنیا تک اہل ایمان رشک کرتے رہیں گے۔ آپ کی شہادت کے بعد توابین کے نام سے حضرت سلیمان ؓبن صرد خزاعی کی قیادت میں جو تحریک اٹھی اس میں بھی زیادہ تر یمنی شامل تھے۔ صدر اسلام کی عظیم یمنی شخصیات میں سے حضرت اویس قرنیؓ نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک بہت بلند تھا، اگرچہ انہوں نے آنحضرتؐ کی زیارت نہیں کی، لیکن تابعین میں بلند ترین مقام انہی کو حاصل ہے۔

صحیح مسلم اور دیگر حدیث کی کتابوں میں آنحضرتؐ کا یہ فرمان آیا ہے: "اویس قیامت کے دن کثیر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔" طبقات کبریٰ میں ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: خلیلی من ھذہ الامہ اویس القرنی۔ "اس امت میں میرے خلیل اویس قرنی ہیں۔" حضرت اویس بہت عبادت گزار تھے، کبھی ساری رات سجدے میں گزار دیتے تھے اور کبھی رکوع میں۔ رسولؐ اللہ کے بعد حضرت اویس ؓحضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں شامل ہوگئے۔ جنگ جمل و صفین میں وہ آپ کے ہم رکاب رہے اور میدان صفین میں شہادت کے بلند مقام کو پہنچے۔ ان کا مزار آج بھی میدان صفین میں حضرت عمار ابن یاسرؓ کے مزار کے ساتھ موجود ہے۔ ان دونوں مزارات پر شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں، جنھیں حالیہ دہشت گردی میں داعشیوں نے تباہ و برباد کر دیا۔ پوری دنیا میں یورپی اقوام جہاں گئیں، ان کی وجہ سے لوگوں کی بود و باش اور ثقافت میں بہت تبدیلیاں آئیں، لیکن یمنی اپنی تہذیب و تمدن سے سب سے زیادہ جڑی رہنے والی قوم ثابت ہوئے۔ انہوں نے مغرب سے آنے والی گمراہیوں اور اخلاقی مفاسد سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔


خبر کا کوڈ: 804602

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/804602/صدر-اسلام-میں-قابل-افتخار-یمنی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org