1
2
Monday 15 Jul 2019 21:03

اسلامی دنیا میں مذہبی فتنہ انگیزی میں ایم آئی 6 کا کردار (حصہ دوم)

اسلامی دنیا میں مذہبی فتنہ انگیزی میں ایم آئی 6 کا کردار (حصہ دوم)
تحریر: محمد محمدی

"لندنی علماء" کی تربیت کا یہ عمل یونہی جاری رہا جس کے نتیجے میں آج "برطانوی مرجعیت" کا تعارف کروایا جا رہا ہے۔ چند جانے پہچانے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے یہ مراجع تقلید ایم آئی 6 کے طے کردہ روڈ میپ پر عمل پیرا ہیں۔ یہ علماء اور مراجع اسلام کے سیاسی نظام، دیگر شیعہ مراجع اور ولایت فقیہہ پر انگلی اٹھا کر انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان افراد کا پیش کردہ اسلام نہ تو امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے اور نہ ہی اسرائیل کے جارحانہ اقدامات پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ نہ تو غزہ کے مظلوم بچوں کے دفاع میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتا ہے اور نہ ہی تکفیری گروہ داعش کے خلاف اپنے موقف کا اعلان کرتا ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ برطانیہ امریکہ اور سوویت یونین سے زیادہ خبیث ہے۔
 
برطانیہ کے تربیت یافتہ ان شیعہ علماء اور مراجع نے مختلف ثقافتی مراکز، دینی مدارس اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کا ایک نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے ایک طرف اہل تشیع کو اہلسنت کے خلاف لعن طعن اور ان کی توہین کی ترغیب دلائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر سے نبرد آزما شیعہ جوانوں کی بھی انتہائی برے الفاظ میں توہین کی جاتی ہے۔ اصولی طور پر برطانیہ کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کی ترویج کے تناظر میں اس لندنی تشیع کا عالمی استکباری قوتوں کے مقابلے میں وحدت اسلامی کے فروغ سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک طرف اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلامی میں شیعہ سنی جنگ کی آگ پر قابو پانے کیلئے ہفتہ وحدت جیسے پروگرامات کے انعقاد پر زور دیتا ہے جبکہ دوسری طرف عالمی استعمار کے دامن میں پلنے والی برطانوی تشیع اہلسنت کے خلاف لعن و طعن کی ریلیاں منعقد کرتی نظر آتی ہے۔ ایسے اقدامات کا واحد مقصد مسلمانوں کے درمیان مذہبی اختلافات کی شدت کو باقی رکھنا اور اسے کم ہونے سے روکنا ہے تاکہ استعماری قوتیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے شیطانی اہداف کو مزید آگے بڑھا سکیں۔
 
آج برطانیہ نے عالم اسلام میں نت نئے مذہبی اختلافات ایجاد کرنے کیلئے پوری تاریخ کے دوران حاصل ہونے والا سارا تجربہ بروئے کار لا رکھا ہے۔ اس کا مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک پر کاری ضرب لگانا ہے۔ مذہب تشیع جو اسلامی فرقوں کے درمیان سب سے زیادہ عقل اور منطق کی بنیاد پر استوار فرقہ ہے، لندنی تشیع کی جانب سے اس کا ایسا چہرہ پیش کیا جا رہا ہے جو عقل سے دور اور خرافات اور شدت پسندی پر مبنی ہے۔ اگر آپ گوگل پر “shia muslim” لlka muslim"ے دور اور خرافات اور شدت پسندی پر مبنی ہے۔ اگر آپ گوگل پر " ہے، لندنی تشیع کی جانب سے اس کا ایسا چہرہ پیش کیا جا رہا لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو خون سے بھری ایسی تصاویر دیکھنے کو ملیں گی جنہیں ایک غیر مسلمان شخص دیکھ کر پہلی ہی نظر میں شیعہ اور تشیع کے لفظ سے متنفر ہو جائے گا۔ جب 14 مئی 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کا اعلان کیا تو اسی دن تل ابیب میں یہود قومی کونسل کا قیام عمل میں آیا اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کا اعلان کر دیا گیا۔ شوقی افندی نے اسے حسین علی بہا اور عباس افندی کی پیشن گوئی کا نتیجہ قرار دیا اور اس دن کے بعد بہائیوں کے بین الاقوامی مرکز (بیت العدل) اور اسرائیلی حکومت میں تعلقات کا آغاز ہو گیا۔
 
آہستہ آہستہ ان سیاسی ملاقاتوں کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور شوقی کے ایک قریبی شخص نے برطانیہ اور اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ دوسری طرف اسرائیلی حکومت نے بھی بھی برطانوی حکومت کی طرح انہیں ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنی قرار دے دیا۔ بہائیت کو مضبوط بنانے میں صہیونی حکام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے بہائیت کو اسلام، یہود اور عیسائیت جیسے الہی ادیان کے برابر حیثیت دی ہے۔ گذشتہ تیس برس کے دوران بہائیت اور صہیونزم میں تعلقات جاری رہے ہیں اور ان میں مزید وسعت اور گہرائی آئی ہے۔ امت مسلمہ غاصب صہیونی رژیم کے پست مقاصد میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ دوسری طرف امت مسلمہ نے بہائیت، وہابیت، قادیانیت اور دیگر انحرافی فرقوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ اسی بنیاد پر صہیونی رژیم اور یہ انحرافی فرقے امت اسلامی کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور مل کر امت مسلمہ کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں سے مخلص شیعہ علماء اور مراجع عظام اپنی پوری طاقت سے عالم اسلام کے تحفظ میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں یہ ذمہ داری امام عصر عجل اللہ تعالی کی طرف سے عطا کی گئی ہے۔
 
 
خبر کا کوڈ : 805203
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
زیادہ مناسب ہوتا کہ تصویر کوئی اور استعمال کی جاتی تو شاید یہ پیغام زیادہ پھیلتا۔
ہماری پیشکش