1
Monday 15 Jul 2019 21:20

شیعہ عمائدین کی وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی اندرونی کہانی

شیعہ عمائدین کی وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی اندرونی کہانی
رپورٹ: ابو فجر لاہوری

لاہور میں شیعہ عمائدین اور علمائے کرام نے وفاقی وزیر داخلہ سید اعجاز شاہ سے ملاقات کی، باہمی دلچسپی کے امور اور ملت جعفریہ کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ ملاقات کرنیوالے وفد میں علامہ محمد حسین اکبر، علامہ رائے ظفر علی پرنسپل جامعہ باقر العلوم لاہور، مرکزی صدر تحریک حسینیہ پاکستان، علامہ محمد رشید ترابی امام جماعت امیر حمزہ مسجد لاہور، الحاج ملک شفقت حسین بھٹہ جنوبی پنجاب شیعہ لیڈر ملتان، الحاج مخدوم سید علی رضا گردیزی شیعہ قومی لیڈر ملتان، الحاج مخدوم سید حسن رضا مشہدی ملتان، الحاج مخدوم سید طارق عباس شاہ شمس تبریز ملتان، سید عباس مجتبیٰ زیدی انچارج میڈیا سیل ادارہ منہاج الحسین، پیر سید صادق حیدر کرمانی اوکاڑہ اور مولانا سید مجاہد حسین کاظمی پیر ودھائی راولپنڈی شامل تھے۔

علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے ملت جعفریہ کے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی 30 فیصد آبادی کے مطالبات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان کے 30 فیصد شیعیان حیدر کرار کیخلاف گذشتہ حکومت کے وفاقی وزیر داخلہ بالعموم اور خاص طور پر صوبائی وزیر قانون و داخلہ پنجاب نے کئی ایک انتقامی قوانین بنا کر بذریعہ پولیس مسلسل تنگ کیا اور ان قوانین میں تبدیلی نہ کرنے کی وجہ سے آپ کی حکومت میں بھی ہم پاکستان کے شیعہ اس ظلم و ستم کا مسلسل نشانہ بنتے آرہے ہیں، بالخصوص مساجد، امام بارگاہوں میں مجالس، جلوس کے حوالے سے کالے قوانین نافذ کرکے شیعیان پاکستان کیخلاف بات بات پر ناجائز مقدمات کا اندراج اور شیڈول فورتھ میں ڈال ڈال کر شیعہ دشمنی کی ناقابل تردید ظالمانہ مثالیں قائم کیں۔

علامہ محمد حسین اکبر نے کہا کہ پاکستان کے آئین و دستور کے مطابق پاکستان کے تمام قوانین کی قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی گئی، جن کے مطابق ہر شہری کو اپنے اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق آزادی کے ساتھ عبادت بجا لانے کی اجازت ہے، جو کہ اس کا انسانی مذہبی اور دینی حق بنتا ہے۔ لیکن کئی مواقع پر ہمیں انسانی حقوق سے بھی محروم کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، اس زیادتی کا فوراً ازالہ کیا جائے۔ انہوں نے وزیر داخلہ سے کہا کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ آپ ایک ماہر تجربہ کار، امور داخلہ میں مکمل وارد وزیر امور داخلہ ہونے کے ناطے سمجھتے ہیں کہ مساجد نماز پڑھنے تلاوت قرآن، تدریس قرآن اور احکام اسلام سیکھنے کیلئے ہوتی ہیں، پاکستان میں تمام مسالک کو مسجد بنانے کی اجازت ہے اور اس مقصد کیلئے بغیر NOC کے بھی ہزاروں مساجد قائم ہیں اور پنجگانہ نمازیں بغیر پولیس کی اجازت کے جاری و ساری ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں مساجد امام بارگاہیں بنانے سے لے کر ان میں عبادت کرنے تک کئی ایک ناروا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ شیعیان حیدر کرار سالہا سال سے مساجد کیساتھ ساتھ مظلوم کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی یاد منانے کی غرض سے مجالس عزا کے انعقاد کیلئے ملک کے طول و عرض میں ہزاروں امام بارگاہیں بھی بناتے آرہے ہیں اور ان میں عزاداری کا سلسلہ جاری ہے، کبھی اندرون چاردیواری مجالس کے انعقاد کیلئے انتظامیہ/پولیس سے اجازت کی ضرورت نہ تھی، لیکن گذشتہ حکومت نے ہائیکورٹ لاہور کے فیصلہ کی بھی مخالفت کرتے ہوئے ہر عزادار کو اس جرم کا مجرم قرار دے کر اس پر مقدمات قائم کئے اور قید و بند میں ڈالا اور اب بھی ڈالا جا رہا ہے کہ آپ نے امامبارگاہ کے اندر یا باہر ہر وہ جگہ جہاں سالھا سال سے مجالس عزا اور جلوس کا سلسلہ جاری ہے، انتظامیہ سے اجازت کیوں نہیں لی؟

سربراہ تحریک حسینیہ پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسجد میں ہر نماز خواہ باجماعت ہو یا فرادی پولیس اور انتظامیہ سے اجازت لینا ضروری نہیں تو امامبارگاہیں جو حکومت کی اجازت سے بنائی گئی ہیں اور بنائی جاتی ہیں اور بنائی جاتی رہیں گی۔ وہ صرف مجالس عزا، درس و تدریس، تبلیغ و عزاداری کیلئے ہیں، جو چیز بنی ہی اسی مقصد کیلئے ہے اس میں عزادار مجلس کرنے یا جلسہ کرنے کیلئے ظالمانہ قانون (اجازت لینا) صرف شیعیان پاکستان پر کیوں لاگو کیا گیا ہے۔ آپ سے ہمارا مطالبہ ہے اس قسم کے امام بارگاہوں، عزا خانوں میں آئے دن مجالس و محافل کے انعقاد پر نئے اجازت نامے کی عائد کردہ شرط کو ختم کیا جائے اور اس بابت ملک بھر میں تمام بے گناہ لوگوں پر قائم مقدمات کو فی الفور ختم کرکے ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے سالہا سال سے جاری مجالس اور جلوس کے ٹائم ٹیبل اور روٹس میں زبردستی دھونس دھمکی کیساتھ اپنی مرضی سے کمی بیشی کی، جس کی وجہ آج پنجاب کے تمام شہروں میں بالخصوص کئی فتنے پیدا کرکے عزاداروں کیخلاف مقدمے قائم کرکے جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور ڈالا جا رہا ہے، سابقہ حکومت کی ان زیادتیوں کا محرم سے پہلے فوری ازالہ کرکے سابقہ روایات کے مطابق لائسنس اور روٹس پر عمل کرایا جائے اور اس سلسلہ میں قائم بے بنیاد جھوٹے مقدمات ختم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نیز سالھا سال سے لائسنس داروں کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے وارثان یا ادارہ کے ذمہ داران انجمنوں کے عہدیداران اپنے نام لائسنس تبدیلی کے منتظر ہیں، ان کو فوری طور پر نئے ذمہ داران کے حوالے کرکے اس پریشانی کو حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شیعیان حیدر کرار کیلئے نئی مساجد اور امام بارگاہیں بنانے پر علی الظاہر پابندی نہیں، لیکن عملی طور پر کالا قانون ہمیں کسی بھی جگہ نئی مسجد یا امام بارگاہ بنانے کے راستہ میں رکاوٹ ہے بلکہ پہلے سے بنی ہوئی کئی مساجد کو بھی انتطامیہ نے تالے لگا رکھے ہیں۔

کیا شیعہ ماﺅں نے بچے جننا چھوڑ دیئے ہیں، کیا ہماری آبادی نہیں بڑھ رہی، نئے تھانے چوکیاں کچہریاں ضلعے تحصیلیں تو بن رہی ہیں، نہیں اجازت تو شیعیان پاکستان کو نئے امام بارگاہ اور مساجد بنانے اور نئی مجالس اور جلوس عزا بپا کرنے کی اجازت نہیں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیتؑ اطہار سے ارباب اقتدار کی محبت و عقیدت انہی ناروا پابندیوں کا نام ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں نئی امام بارگاہیں، مجالس اور جلوس عزا قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ مساجد پر پابندی کی ایک بدترین مثال DHA لاہور میں شیعیان حیدر کرار کیلئے امام رضا علیہ السلام کے حرم کی شبیہ مسجد بنائے جانے کے باوجود عبادت کیلئے نہیں دی جا رہی اور لطف کی بات یہ ہے کہ DHA نے پاکستان بھر کی تمام اپنی سوسائٹیز میں تمام مسالک کو DHA کی طرف سے فراہم کردہ مساجد تمام تر سہولتوں اور انتظامات کیساتھ موجود ہیں، لیکن شیعہ مسلمانوں کیلئے ایک بھی نہیں ہے۔ لہٰذا حکم جاری کریں کہ قیام مساجد کیلئے طے شدہ قانون کے مطابق دوسرے مسالک کے پیروکاروں کی طرح ہمیں بھی مساجد دی جائیں یا ہمیں خود بنانے کی اجازت دیں۔

شیعہ عمائدین نے وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ لاہور DHA کی مسجد کو فی الفور کھول کر کر وہاں مکین شیعوں کے حوالے کیا جائے۔ شیعیان حیدر کرار کیخلاف سوشل میڈیا کا بے بنیاد جھوٹا پروپیگنڈہ، کافر کافر کے نعرے سپاہ صحابہ، طالبان، داعش کے قائدین کے دھمکی آمیز خطابات بھرپور طریقہ سے جاری ہیں۔ سائبر قوانین اور دہشتگردی کنٹرول قانون (نیشنل ایکشن پلان) کے تحت ان کے اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف فوری کارروائی کرکے ان کو بند کیا جائے۔ شیعیان علی ؑ کیخلاف تخریب کارانہ لٹریچر اور قتل و غارت کا سو فیصد سلسلہ بند نہیں ہوا، ہم پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جن کی قربانیوں کے نتیجہ میں آج ملک میں امن دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کے سہولت کار آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں، ان کیخلاف قانون کو سختی کے ساتھ استعمال کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی ”مسنگ پرسن“ کی انسانی حقوق کی پرواہ کئے بغیر سلسلہ جاری ہے۔ محرم الحرام قریب ہے، برائے مہربانی اس کو روکا جائے اور گمشدہ افراد کو بازیاب کرکے ان کے ورثاء کے حوالے کیا جائے۔

شیعہ عمائدین کا کہنا تھا کہ زائرین امام حسین علیہ السلام خاص طور پر براستہ کوئٹہ تفتان ایران و عراق جانے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے، تفتان بارڈر پر وافر سہولتوں کا انتظام کیا جائے، زائرین کو درپیش مشکلات کو ختم کرکے پہلے کی طرح پرامن فضا قائم کی جائے، تاکہ زیارتی قافلے دن رات آزادی اور امن کے ساتھ سفر کرسکیں۔ سکول و کالجوں کی تعلیمی نصابی کتب میں آئے دن توہین رسالت، توہین ختم نبوت، توہین اہلبیتؑ نبوت اور مشاہیر اسلام کیخلاف گندی زبان استعمال کرکے تدریس کیلئے پیش کی جاتی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں متحدہ علماء بورڈ اس کیخلاف کام کر رہا ہے، لیکن وسائل کا فقدان اور ناقص منصوبہ بندی خاطر خواہ نتائج کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی اور دیگر انتظامی محکموں کے ذمہ داروں نے صرف دوسرے مسالک کے واقعی دہشتگردوں کو گرفتار کرکے شیڈول فورتھ میں ڈالا ہے، لیکن حساب برابر کرنے کیلئے کئی بے گناہ شیعوں کو بھی شیڈول فورتھ میں ڈال کر حساب برابر کر رکھا ہے، انکو فوری طور پر شیڈول فورتھ کی پابندیوں سے آزاد کیا جائے، جس کیلئے ہماری مدد لی جائے۔ قیام امن اور وحدت بین المسلمین اور دیگر قومی اداروں میں شیعیان حیدر کرار کو موثر نمائندگی دی جائے۔

جو لوگوں کے مسائل و مشکلات کو نہ صرف جانتے ہوں بلکہ حل بھی کرا سکتے ہوں، فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں فعال مخلص قائدین اور علماء کے نام ہمارے مشورے سے طے کئے جائیں۔ وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ، کراچی، پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا، ڈیرہ اسماعیل خان میں سینکڑوں بے گناہ شیعوں کا قتل عام کیا گیا، ان شہداء کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ انہوں نے نئے سرے سے دوبارہ قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں شروع کر دی ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی اس کا شاہد ہے۔ ان تمام شہداء کے قاتلوں کو نہ صرف گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے بلکہ ان مظلوموں کو ان شہداء کو ان کے مظلوم اور یتیم وارثوں بیوگان کو انصاف مہیا کیا جائے۔ اگر آپ کی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت میں بھی ان شہداء اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکا تو پھر کب ملے گا۔ ان کیخلاف عدالتی کارروائیاں سخت تادیبی کاروائیاں کرکے ان کے قاتلوں کو سزائے موت دی جائے، ان کیخلاف فوری انصاف کیلئے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں، تاکہ ان کو جلد سے جلد انصاف مل سکے۔

پاکستان بھر کے شیعہ مدارس مساجد امام بارگاہوں اور قومی و مذہبی علمی و دینی شخصیات کو مسلح گارڈز کی صورت میں محافظ فراہم کئے جائیں۔ جن میں سے کئی ایک شخصیات ان دہشتگردوں کے نشانہ پر ہیں۔ سربراہ وفد نے وزیر داخلہ سے ذاکرین اور واعظین پر مختلف شہروں میں خطاب پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ یہ بھی تجویز پیش کی کہ ربیع الاول کی طرح ماہ ذوالحجہ میں محرم الحرام سے پہلے مرکزی صوبائی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں حسینیہ کانفرنسز کا سرکاری سطح پر انعقاد کیا جائے، جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور شخصیات کو دعوت دی جائے، تاکہ عالمی سطح پر امن کا پیغام پہنچے۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے نہ صرف تمام مطالبات کو غور سے سنا بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کا بھی وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے تمام مطالبات کو قانون کے مطابق حل کیا جائے گا اور تمام تحفظات دور کئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 805212
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش