6
4
Friday 19 Jul 2019 13:41

اسمارٹ پاور اور تحریک نصیریت

اسمارٹ پاور اور تحریک نصیریت
تحریر: سید میثم ہمدانی
FB/SyedMeesamHamadani/


سابق امریکی وزیر خارجہ اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اسمارٹ پاور کی تعریف کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ عالمی طور پر اقتصادی، عسکری، سیاسی، معاشرتی و ہر قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال، جن کے ذریعے مطلوبہ نتائج کو حاصل کیا جا سکے، اسمارٹ پاور کہلاتا ہے۔ امریکی لکھاری اور متفکر جوزف ایس نائی پہلے رائٹر ہیں، جنہوں نے سافٹ پاور کی اصطلاح کا استعمال کیا۔ ہمارے ہاں معمولاً اس اصطلاح کیلئے سافٹ وار، نرم جنگ، نرم قدرت، رنگین انقلاب، نفسیاتی جنگ، نفسیاتی آپریشن جیسے مختلف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان تمام اصطلاحات کی اپنی اپنی تعاریف موجود ہیں۔ جوزف نائی نے اپنی کتاب میں مختلف ماہرین کی رائے بیان کی ہے۔ اس بارے میں مفصل گفتگو سے پہلے رائٹر نے اس باب میں استعمال ہونے والی مختلف اصلاحات اور الفاظ کی تعاریف بھی بیان کی ہیں۔ اگر ہم ایک جملے میں  اس موضوع کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو یوں کہا جائے گا کہ "اسمارٹ پاور یعنی کسی ادارے، تنظیم، ایجنسی یا انٹیلی جنس سسٹم کی جانب سے اختیار کی گئی ایسی روش یا ایسا طریقہ کار جو کسی شخص، خاندان، معاشرے یا پوری دنیا کے لائف اسٹائل، نظریہ یا بالفاظ دیگر ان کی طرز زندگی کو تبدیل کرنے کے ذریعے ان کے  کردار کو تبدیل کرنے کے درپے ہو۔"

اس طریقہ کار میں کسی بھی معاشرے میں اپنی مرضی کی تبدیلیوں کیلئے بندوق اور عسکری طاقت کے استعمال کی جگہ اقتصاد، پروپیگنڈا، نظریات یا کسی غیر عسکری راستے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی جنگوں کے بعد ماہرین اس طرف متوجہ ہوئے کہ نئے زمانے اور نئے دور میں اب ہارڈ وار مسائل کا حل نہیں ہے، اب معاشروں پر بندوق کے زور پر حکمرانی نہیں کی جاسکتی بلکہ اس ہارڈ وار کو سافٹ وار میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سافٹ وار کا اسلحہ مورد نظر معاشرے کے افراد کی ذہنی کیفیت، نظریات اور احساسات کو تبدیل کرنا ہے، تاکہ اس کے ذریعے ان کے ارادوں کو بدلا جا سکے اور ارادوں کی تبدیلی کے ذریعے کردار کو تبدیل کرکے معاشرتی تبدیل حاصل کی جاسکے۔ اس معاشرتی تبدیلی کا ہدف اس معاشرے میں موجود وسائل، اہداف اور مدنظر نتائج کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ سافٹ وار کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس جنگ کے دوران جتنے بھی آپریشن انجام دیئے جاتے ہیں، انکی مکمل منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور یہ آپریشنز اپنے تمام مراحل کے دوران مکمل طور پر کنٹرول ایبل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ، کوئی فرد یا کوئی طاقت اس صلاحیت کو حاصل کر لے تو اسکو "اسمارٹ پاور" جانا جاتا ہے۔

سافٹ وار کے دوران آفنس اور ڈیفنس دونوں مراحل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ کسی بھی ملک، معاشرے، فرقہ یا خطے کے خلاف سافٹ وار آفنس کیلئے اسٹریٹیجی بنانے کے بعد ٹیکٹیکس طے کئے جاتے ہیں اور موجود تمام  آلات کو استعمال میں لانے کے ذریعے مکمل جنگ تھونپ دی جاتی ہے۔ سافٹ وار میں ڈیفنس کیلئے سافٹ وار کے طریقہ کار اور اس جنگ کے مقابلے کیلئے حفاظتی اقدامات کا جاننا اشد ضروری ہے۔ اس جنگ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہاں ضروری نہیں ہے کہ دشمن اپنے سپاہیوں کے ساتھ مخالف کے میدان میں حاضر ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ مخالف کے میدان اور فوج کے اندر ہی دشمن کے سپاہی موجود ہوں۔ اس جنگ کے فوجیوں کا خاص یونیفارم نہیں ہوتا، کسی رجمنٹ کا بیج ان کی چھاتیوں پر یا کوئی خاص ٹوپی ان کے سر پر نہیں ہوتی، لیکن ان کے اہداف، ان کا چال چلن، ان کی باڈی لینگوئج، ان کے نعرے اس جنگ کی ایسی کمزوری ہے، جو عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں، لیکن حد اقل شعور رکھنے والوں کے سامنے اس سافٹ وار کے سپاہیوں کو فاش کر دیتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای معاصر زمانے کے وہ پہلے اسلامی لیڈر ہیں، جنہوں نے اس موضوع پر مفصل انداز میں متعدد مرتبہ گفتگو کی ہے۔ حزب اللہ نے 2011ء میں سافٹ وار پر خصوصی مطالعات کیلئے ایک اکیڈمی کا افتتاح کیا۔ اس مرکز فار اسپیشل اسٹڈیز نے "الحرب الناعمہ" نامی کتاب نشر کی، جس میں رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی متعدد تقاریر، جو کتاب کے نشر ہونے کے وقت تک موجود تھیں، کو جمع کیا اور اس کو تحقیقی جائزے کے طور پر پیش کیا۔ حزب اللہ لبنان کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ مسلح جنگ کے ساتھ ساتھ دشمن کی نرم جنگ پر بھی نظر رکھی گئی۔ اس کتاب میں امام خامنہ ای مدظلہ العالی کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے سافٹ وار کے مقابلے کیلئے چند اصول بیان کئے گئے۔ سب سے پہلی اصل سافٹ وار کو قبول کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں عام آدمی دشمن کی سازش کا احساس کر رہا ہو، لیکن لیڈ کرنے والے عناصر یا اس سے غافل ہوں یا اس کو صرف عقیدتی انحرافات سمجھ کر غفلت کا شکار ہوں۔

لہذا رہبر کی نگاہ میں نرم جنگ سے مقابلے کیلئے پہلا اصول اس جنگ پر اعتقاد رکھنا اور اس چیز کا قائل ہونا ہے کہ دشمن ہمارے خلاف نرم جنگ شروع کرچکا ہے۔ دوسری اصل دشمن کے طریقہ کار کو پہچاننا ہے اور تیسری اصل دشمن سے مقابلے کے طریقہ کار کو پہچاننا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں دشمن کی جانب سے تھونپی گئی نرم جنگ کے مقابلے کیلئے سب سے پہلے بصیرت کی ضرورت ہے اور  اس کے بعد میدان میں حاضر رہنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا مرحلہ دشمن کی چالوں پر نگاہ رکھنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی دشمن کی نرم جنگ کی ایک خاصیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام کے مقابلے میں دشمن کی جانب سے نرم یلغار کا نمونہ عمل اور آئیڈیل شیطان ہے۔ دشمن شیطانی چالوں کی پیروی کرتا ہے، اگر انسان شیطان کے طور طریقوں سے آگاہ ہو تو دشمن کی جانب سے سافٹ وار کو اچھی طرح سے پہچان سکتا ہے، چونکہ دشمن نرم جنگ میں شیطان کی چالوں کی ہی پیروی کرتا ہے۔

موجودہ دور میں جہاں دشمن کی جانب سے مختلف محاذوں پر مختلف سازشیں جاری ہیں، وہیں پاکستان کی مسلمان قوم کیلئے بھی مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دشمن ہمیشہ کسی بھی قوم کو شکست دینے کیلئے دو طرح کی سازشیں کرتا ہے، جسطرح کپڑے کو کاٹنے کیلئے قینچی کی دونوں دھاریں تیز ہونی چاہیں، اسی طرح دشمن اسلام کو شکست دینے کیلئے بھی دو طرفہ سازشیں تیار کرتا ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے بقول رہبر انقلاب اسلامی امریکی حمایت یافتہ سنی سی آئی اے ایجنٹ اور لندن حمایت یافتہ ایم آئی 6 کے شیعہ ایجنٹ  دونوں ایک ہی لڑی کے دو سرے ہیں۔ اہلسنت کی دنیا میں تکفیریت اور تشیع کے رنگ میں نصیریت دشمن کی قینچی کی دو دھاریں ہیں۔ فتنہ بھی دشمن کی جانب سے نفسیاتی اور نرم جنگ کا ایک حصہ ہے۔ فتنہ اور کسی منحرف یا بدعتی مکتب میں ایک خاص فرق ہے۔ فتنہ چونکہ جنگ کا حصہ ہوتا ہے، لہذا وہ تحریک کی صورت میں ہوتا ہے، ایک "موو" ہوتی ہے، جس کو معاشرے میں چلایا جاتا ہے۔ یہ تحریک، یہ موو، یہ حرکت خاص اہداف کو حاصل کرنے کیلئے خاص نعروں کے تحت معاشرے میں موجود مقدس مفاہیم اور مقدس ہستیوں کے نام کو استعمال کرکے دشمن کیلئے میدان ہموار کرتی ہے۔

پاکستانی مسلمان معاشرے کیلئے دشمن کی سافٹ وار کی قینچی کے بھی دو دھارے ہیں، ایک تکفیری قوتیں جو سنی لباس میں ہیں اور دوسری تحریک نصیریت جو شیعہ لباس میں ہے۔ دونوں کا ہدف و مقصد ایک ہے اور وہ ہدف و مقصد معاشرے میں دشمن کیلئے میدان ہموار کرنا ہے۔ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں ہے کہ جن کو بعض لوگ منحرف سمجھتے ہیں اور اس انحراف کے سبب کو بھی شامی لشکر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جیسا کہ حضرت عمار یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کو امام علی علیہ السلام پر ڈال دیا گیا تھا، اپنے ہی خط و فکر و نظریہ کی حامل قوتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان منحرف قوتوں اور درحقیقت نرم جنگ جو اسمارٹ پاورز کے ہیڈکوارٹرز میں پلاننگ کی گئی، کا ہدف ولایت فقیہ! کیوں ہے؟ تحریک نصیریت کب سے اتنی سیاسی تحریک بن چکی ہے کہ جو عوام کو مقدس ایام میں طوائف کے نچانے کے ذریعے گمراہ کرنے سے ولایت فقیہ کے مدمقابل کھڑے ہونے کی ہمت کرے!؟

یہ معاشرے کے تھرڈ کلاس لوگ جن کو شائد اپنے گھر میں بھی کوئی عزت و احترام نہ دیتا ہو، اپنے خلائی حلیوں کے ساتھ بھنگ کے نشے میں مست، ان کو کب سے ولایت فقیہ کی سمجھ آگئی ہے کہ اب یہ ولایت فقیہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔؟ جی انشاء اللہ اگر کبھی موقع ملا تو کسی آرٹیکل میں ایک امیرکن یونیورسٹی کے اس پی ایچ ڈی اسکالر کا ذکر کروں گا، جس کی پی ایچ ڈی کا عنوان پاکستان کی تشیع ہے اور جو بیک وقت اپنی جوانی ہی میں انگریزی، جرمن، اردو، عربی اور فارسی پر مسلط ہے اور جس کا اصلی سوال پاکستان میں تشیع کے درمیان ولایت فقیہ کے بارے میں موجود احساسات، ادراکات اور اشکالات ہیں! واضح سی بات ہے اسمارٹ پاور کی سافٹ وار کے مقابلے میں اگر کوئی راہنما اصول ملتے ہیں تو وہ ولایت فقیہ سے ہی ملتے ہیں، جب پوری دنیا میں ولی فقیہ اسلام کے دفاع کیلئے تک و تنہا کھڑا ہوگا تو اس اسمارٹ پاور کی سافٹ وار کے نوکروں اور سپاہیوں کی بندوقیں بھی ولایت فقیہ کے ہی خلاف ہوں گی۔

یہاں انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ جہاں پوری دنیا ولایت فقیہ کے پرچم کو سرنگون کرنے کے درپے ہے، وہیں اس پرچم کے سائے تلے موجود سپاہی اس سازش کے سامنے خاموش تماشائی نظر آتے ہیں! یہ خاموش تماشائی انتہائی مدبرانہ پالیسی کے حامل ہیں، ان کے بقول چونکہ یہ لوگ جو "(خاکم بدہن) ولایت فقیہ کو چوک میں لٹکانے کے نعرے لگاتے ہیں" ہماری داخلی شدت پسندی کے باعث راستے سے ہٹ گئے ہیں اور ان کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے، تاکہ قوم کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے، لیکن انتہائی تعجب اس وقت ہوتا ہے کہ جب ابھی اس بیانیہ کی "بے"  کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی تو یہی مدعیان ایک کپڑے پر لکھی قابل دفاع تحریر کو فلانے کے کرتے کی طرح علم کرکے میڈیا ہاوسز میں ایڈیٹڈ پیغامات کے نشر کے ذریعے قوم کو تقسیم کرنے کی عملی کوشش کرتے ہیں۔

یہ سب اجتہادی غلطیاں نہیں ہیں یا اس سافٹ وار کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہیں یا اس عنصر کے مفقود ہونے کی وجہ سے ہے، جس کو بصیرت کہا جاتا ہے اور جو درحقیقت صحیح وقت پر صحیح دشمن کی صحیح پہچان اور اس کے مقابلے کیلئے صحیح اقدامات کا نام ہے، جو حقیقی لیڈر شپ کی حقیقی صفت، پہچان اور علامت ہے۔ بہرحال آج کے اس پیچیدہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمن کے ماڈرن طور طریقوں سے خود بھی آشنائی حاصل کی جائے، دوسروں کو بھی آگہی بخشی جائے اور اس پرفتن دور میں پرچم ولایت فقیہ سے متمسک رہتے ہوئے امید بہار رکھی جائے۔
خبر کا کوڈ : 805820
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
دیر آید درست آید کے مصداق انقلابی دوستان کاش اس سازش کو پہلے سمجھ لیتے، اب بهی جو لوگ اس فتنه تشیع لندنی اور نصریت کے خلاف مستقیم نبرد آزما ہیں، ان کا کهل کر ساتھ نہیں دے سکتے تو حد اقل ابن لبون بن کر ان لندنی شیعوں اور نصیریوں کو اپنی محافل اور جلسات کی رونق مت بنائو!! تمهارا ولایت فقیه کے خلاف ان کی سازش کا رونا درست مگر اب تو اصل اسلام توحید کو خطره ہے اور اعلانیه شرک کا پرچار اور توحید کی نفی هو رهی ہے اور انبیاء الهی کی توهین هو رہی ہے۔
محترم میثم ھمدانی صاحب، آپکے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ نصیریت، غالیت، مقصریت، ناصبیت سبھی اپنی اپنی جگہ فتنے ہیں اور صرف آئمہ معصومین ع کی شان میں غلو کرنے والوں کو ہدف بنا کر یہ سمجھنا کہ اس طرح اسلام ناب محمدی کی آفاقی اقدار کا دفاع و تحفظ ہو جائے گا، یہ خواب میں ہی ممکن ہے، حقیقت کی دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ یہ سارے منحرف ٹولے ہیں۔ چہاردہ معصومین علیہم السلام کو ملائکہ سے بھی کم تر درجے پر سمجھنے والے کو مت ڈھکو میرے بھائی۔ دوسرا آج کل آپ ایک نئے ’’فرزند‘‘ فلاں و ’’استاد بزرگوار‘‘ کے دفاع میں ایک ایسے جملے کو قابل دفاع کہہ رہے ہیں، جو ہرگز قابل دفاع نہیں ہے۔ جب ایک مکمل جملہ اس طرح لا الہ الا للہ تو اسکا مطلب نہ آگے کچھ اور ہوتا ہے اور نہ پیچھے کچھ اور ہوتا ہے مطلب یہ کہ اللہ کے سوا کوئی بھی الہ نہیں ہے، معبود نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی یہ مکمل جملہ لکھے کہ لا ولایت الا ولایت الفقیہ تو اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کوئی ولایت نہیں سوائے فقیہ کی ولایت کے۔ بعض کی تو عقلیں ہی ماری گئیں ہیں، الیکشن، تنظیم، جماعت، سیاست، سبھی ایشوز پر فرزند فلاں استاد بزرگوار نے یو ٹرن لیا لیکن پھر بھی اندھے مقلدین نہ سدھرے۔ اس ضد مرجعیت اور خود ضد ولایت فقیہ شخصیت کا بھی ایک بت ہے۔ لیکن محترم میثم ھمدانی سے یہ توقع نہیں کہ دیگر بت بنے نیتائوں پر تو تنقید کریں لیکن ان سے زیادہ بڑے بت بنے نیتا کے ناقابل دفاع کاموں کو کارناموں کے طور پر پیش کریں۔ لا حکم الا للہ، نیزوں پر قرآن بلند کرنے جیسا اسمارٹ پاور تو فرزند و استاد و بزعم خویش مطھری زمان خود بھی کچھ کم نہیں رکھتے۔ آپ سے یہ امید نہیں کہ آپ دوسروں سے ناراضگی و اختلاف کی وجہ سے ان سے کئی گنا زیادہ خود کو عقل کل سمجھنے والے کسی نیتا کے کیمپ کو جوائن کر لیں۔ جو آدمی خود نہ امام خمینی کا مقلد رہا اور نہ ہی جس نے امام خامنہ ای کی تقلید کی۔ انقلابی مراجعین و ولی فقیہ کے مقلدین ایسے کسی خود ساختہ مطھری زمان کو کیسے اپنا رہنما مان لیں محترم! سیلف پروجیکشن استعماری سافٹ پاور تو ہوسکتی ہے، ولائی سافٹ پاور نہیں ہے۔
بھنگ و چرس پینے والے منحرف کب سے ولائی ہوگئے۔
Syrian Arab Republic
جس قابل توجیہ بنر کی بات آپ نے کی ہے، یہ خود ایک فتنہ کا سبب بن رہا تھا، لیکن اس کو ہٹانے کی بجائے تاویل اور توجیہ پیش کرکے وقت زیا کر رہا تھا
Iran, Islamic Republic of
پاکستان میں شیعوں کی اتنی تنظیموں میں سے صرف مجلس وحدت کو ہٹ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے? غالیوں, تکفیریوں, قادیانیوں اور مقصرین کے خلاف کسی اور شیعہ تنظیم نے کیا کیا، ذرا وہ بھی بتا دیا جائے؟؟؟؟
ہاں وفاق والوں نے بشارت کانفرنسز کیں لیکن وہ بھی صرف ذاکروں, خطیبوں, ملنگوں اور یا پھر ابوذر بخاری کے خلاف یعنی مقصرین اور قادیانی جن کا فتنہ پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے بشارت کانفرنسز میں بھی اس کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔
مجلس کی قیادت نے تو تمام منحرفین کو محکوم کیا تھا، پھر بھی مجلس کے خلاف قلم اٹھانا ایک سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔
Iran, Islamic Republic of
عین اس وقت جب مقاومتی بلاک کو سازشی ٹولے اور ان کے پالے ہوئے جلادوں داعشیوں پر عراق و شام میں فتح نصیب ہوئی تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان میں غالی اور مقصر آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کے مقابل کانفرنسز کرنے لگے اور یوں قوم کو اس بڑی فتح کی جانب متوجہ ہونے اور ولایت فقیہ کے وجود کی برکت کو سمجھنے سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غالی و مقصر کی جنگ میں الجھا کر دور کر دیا گیا۔ انھیں دنوں میں سازش کو بھانپتے ہوئے ناصر ملت نے قوم کو اس فتنے سے دور رہنے اور ولایت فقیہ کی عظیم کامیابی کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنے پر تاکید کی۔ ای کاش اس وقت یہ کانفرنسز روک دی جاتیں اور ۶ جولائی کنونشن جیسا دن قوم کو نہ دیکھنا پڑتا. جن لوگوں نے اس وقت ناصر ملت کی بات پر کان نہیں دھرے اب گلہ مند کیوں ہیں۔؟؟؟
ویسے ناصر ملت نے بسوں سے اتار کر پہچان کرکے شھید کرنے کے خلاف ۹ روز دھرنا دیا, مینار لاکستان پر قومی اجتماع کیا, بھوک ہڑتال کی, شھید قائد کی برسی کا ملکی لیول کا پروگرام ہر سال ہوتا اور اسی طرح کے کئی اور پروگرامز ہوتے ہیں، جن میں بشارت کانفرنسز کے قائدین کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ لیکن ہمدانی صاحب سے عاجزانہ سوال ہے کہ ذرا اتنا بتا دیں بشارت کانفرنسز والے جس زور و شور سے اب کانفرسز کر رہے ہیں اور راجہ صاحب کے ساتھ نہ دینے پر گلہ مند ہیں، اس وقت راجہ صاحب کیساتھ ۹روزہ دھرنے، مینار پاکستان یا بھوک ہڑتال میں کیوں نظر نہیں آتے تھے؟؟ قائد شھید کی برسی میں کیوں نہیں آتے؟؟؟ اصلاح الرسوم جیسی کتاب کے خلاف کیوں ایک کانفرنس بھی نہیں بلائی گئی؟؟؟ قادیانیوں کے خلاف کیوں نہیں جمع ہوتے۔؟؟؟؟
ہماری پیشکش