0
Tuesday 23 Jul 2019 21:54

دورہ امریکا توقعات اور حقائق

دورہ امریکا توقعات اور حقائق
تحریر: سید اسد عباس

پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان آج کل امریکا کے سرکاری دورے پر ہیں، جہان ان کی امریکی اعلیٰ عہدیدارون سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے مختلف حلقوں میں اس دورے کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ اس دورے کو پاک امریکا تعلقات میں ایک اہم پیشرفت قرار دے رہے جبکہ دوسری جانب ایسے لوگوں کی بھی ایک کثیر تعداد ہے، جو پاک امریکا تعلقات کی تاریخ پر نظریں جمائے ہوئے اس دورے سے زیادہ توقعات نہیں لگا رہے۔ پاک امریکا تعلقات فقط سیاسی نہیں ہیں، یہ روابط اداروں کے مابین ہم آہنگی، تربیت کی فراہمی، تکنیکی معاونت اور جدید آلات کی فراہمی نیز اس کے استعمال کی حد تک گہرائی کے حامل ہیں۔ پاکستان کے سول اور فوجی اداروں کے بہت سے افسران امریکہ کے تربیت یافتہ ہیں اور امریکہ دنیا کے سینکڑوں ممالک میں دہشت گردی، اسمگلنگ، منشیات کی روک تھام، انسانی حقوق، عدالتی نظام میں بہتری نیز اسی طرح کے قانون نافذ کرنے والے امور میں تربیت فراہم کرتا ہے۔ امریکا کی تربیت فراہم کرنے کی یہ صلاحیت ان کے لیے سفارت کاری کی پہلی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہیں سے امریکا اپنے پیشرفتہ تعلقات کی ابتداء کرتا ہے اور اسے پھر علاقائی اور عالمی سطح کی سیاست تک لے کر جاتا ہے۔

حالیہ دورے میں جہاں دلچسپی کے دیگر امور پر بات چیت ہوئی، وہاں مسئلہ کشمیر بھی زیر بحث آیا۔ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کروانے کے لیے امریکا ثالثی کا کردار ادا کرے، جس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ آپ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم ثالثی کروائیں تو ہم ثالثی کروائیں گے۔ کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش بنیادی طور پر ٹرمپ نے خود کی، جن کے بیان کو بی بی سی نے ان الفاظ میں لکھا: "میں دو ہفتے قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ تھا اور ہم نے اس موضوع پر بات کی، جس پر انھوں نے کہا کہ کیا آپ اس معاملے پر ثالث بننا چاہیں گے؟ جواب میں میں نے پوچھا کہاں؟ تو انھوں نے کہا کشمیر۔ کیونکہ یہ معاملہ کئی سالوں سے چل رہا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ حل ہو جائے، کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ معاملہ حل ہو جائے؟ اگر میں مدد کر سکوں تو میں بخوشی ثالث کا کردار نبھانے کے لیے تیار ہوں۔ اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو مجھے ضرور بتائیں۔" واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم مودی کی ملاقات گذشہ ماہ جاپان میں جی 20 کے موقع پر اوساکا شہر میں ہوئی تھی۔

امریکی صدر کے اس بیان نے پاکستان اور کشمیر میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ بہت سے کشمیری راہنماؤں کے پیغامات آنا شروع ہوئے کہ ہم کشمیر کے مسئلہ کے امریکا میں اٹھائے جانے پر مطمئن ہیں۔ حریت کانفرنس کے مرکزی راہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ کشمیر کے تنازعے میں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ کشمیری عوام تیسرا مگر مظلوم فریق ہیں، اسی لیے کشمیری عوام کا امریکی پیشکش پر خوش ہونا فطری بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملکی سیاست کی مجبوریوں کے لیے فی الوقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس بات کی تردید کرسکتے ہیں کہ انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ کشمیر پر کوئی گفتگو نہیں کی، لیکن حق یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی جیوپولیٹکل صورتحال کے سبب ہندوستان کو بہرحال کشمیر کا حتمی حل ڈھونڈنا ہوگا۔

جہاں پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا گیا ہے، وہیں ہندوستان نے کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے دیئے گئے بیان پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے اور اس معاملے پر ہندوستان کی مستقل پوزیشن یہی رہی ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اسی وقت ممکن ہوں گے، جب وہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی ختم کرے۔ دو حصوں پر مشتمل اپنی ٹویٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات دو طرفہ نوعیت کے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ موجود ہیں۔

صدر ٹرمپ نے افغانستان میں بھی پاکستان کے کردار کی تعریف کی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت افغانستان میں ہماری بہت مدد کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ، پاکستان کے ساتھ کام کر رہا ہے اور خطے میں پولیس مین بننا نہیں چاہتا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر میں چاہتا تو یہ جنگ میں ایک ہفتے میں جیت جاتا، مگر میں ایک کروڑ لوگوں کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ ورنہ افغانستان صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا۔ مگر میں وہ راستہ اپنانا نہیں چاہتا۔ عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان کے مسئلہ کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے اور طالبان سے امن معاہدہ کبھی بھی اتنا قریب نہیں تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں پاکستان طالبان پر مذاکرات جاری رکھنے کے لیے زور دے گا۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات میں مزید کہا کہ امریکہ پاکستان میں تجارت کرنے اور سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور تجارتی حجم کو "دس سے بیس گنا" بڑھانا چاہتا ہے۔

عمران خان کا یہ دورہ اور اس میں امریکا کا بدلا بدلا سا نرم و ملائم لہجہ بہت سے امور سے پردہ کشائی کر رہا ہے۔ ملکوں کے معاملات اور عالمی سیاست فقط زبانی جمع خرچ اور بیانات پر نہیں چلتی ہے۔ کل تک پاکستان کو ڈو مور کی دھمکیاں دینے والا امریکا آج جس نرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس میں سی پیک، چین کی معاشی پیشرفت اور پاکستان میں سرمایہ کاری، پاک روس تعلقات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دیکھ رہا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ سی پیک اور شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب بڑھ رہا ہے اور امریکا پر سے اپنا اںحصار گھٹا رہا ہے۔ افغانستان میں پھنسے ہوئے امریکا کو اس دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستان کی اشد ضرورت ہے، وہ دیکھ چکا ہے کہ دھونس اور دھمکی نے الٹا اثر دکھایا، لہذا اب وہ ہمارے ساتھ محبت بھری زبان میں بات کر رہا ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کی بھارت میں سرمایہ کاری، دفاعی و سائنسی معاہدے اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔

امریکہ کی جانب ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے قبل ہمیں امریکا کا عالمی معاہدوں کی پاسداری کا سابقہ اور حالیہ ریکارڈ، اپنے دوستوں کے ساتھ اس کا رویہ، خود ہمارے ساتھ امریکا کا گذشتہ چار دہائیوں میں سلوک، ہندوستان میں امریکی اور اسرائیلی سرمایہ کاری، سی پیک کے بارے امریکا، اسرائیل اور ہندوستان کے تحفضات اور خطے کے عالمی تناظر کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اگر ہم گذشتہ غلطیوں کو بار بار دہراتے رہیں گے تو ہمیں مختلف نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہمیں امریکا سمیت دنیا بھر کے ممالک بالخصوص معاشی طاقتوں کے ساتھ متوازن روابط کو فروغ دینا ہے، تاکہ ہم ان کے مفادات کے محافظ بننے کے بجائے اپنے وطن اور اس کے عوام کے مفادات کے محافظ بن کر سامنے آئیں۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے تذکرے کا تعلق ہے تو ہمیں آگاہ رہنا چاہیئے کہ کہیں یہ مسئلہ بھی صدی کی ڈیل کی طرز کے کسی منصوبے کا شکار نہ ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 806663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش