0
Thursday 25 Jul 2019 10:21

پاک امریکہ نئی رشتہ داری کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟؟

پاک امریکہ نئی رشتہ داری کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

عمران خان امریکہ یاترا مکمل  کرکے واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔ جہاں امریکہ میں ان کا "شو" شاندار رہا، وہیں پاکستان واپسی پر بھی شاندار استقبال کیا گیا۔ ہم بھی عجیب قوم ہیں، غلامی کا طوق گلے میں پہننے کی اتنی خوشی اور جشن منا رہے ہیں کہ جیسے عمران خان خود ہی امریکی صدر بن گئے ہوں، حالانکہ لگ ایسا رہا ہے جیسے ٹرمپ وزیراعظم پاکستان بن چکے ہیں۔ ٹرمپ نے عمران خان پر جس "اعتماد" کا اظہار کیا ہے، وہ خطرناک ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کی "بدخوئی" اور موجودہ حکمران کو "ہلہ شیری" کہ آپ ہمارے بڑے "فرمانبردار" ہیں، ایک خطرناک اشارہ ہے۔ امریکہ کو ماضی کے حکمرانوں سے گلہ ہے کہ انہوں نے ہماری "غلامی کا طوق" اُتار پھینکا تھا، حالانکہ ایسا نہیں تھا، انہوں نے بھی خوب "خدمت" کی۔ نواز شریف نے تو یہاں تک کیا کہ حلف نامے سے مذہب کا خانہ تک نکالنے پر تیار ہوگیا تھا۔ ایک ڈکلیئرڈ غیر مسلم کمیونٹی کو امریکی خوشنودی کیلئے کھل کھیلنے کا موقع تک دیدیا تھا۔ اپنے تئیں جو ہوسکا، انہوں نے اور ان سے پہلی حکومتوں نے کیا، اس کے باوجود امریکہ بہادر مطمئن نہ ہوئے اور یہی کچھ عمران خان کیساتھ بھی ہوگا۔

ایک وقت آئے گا کہ امریکہ عمران خان کو بھی گالیاں دے رہا ہوگا کہ ہم سے اتنے کروڑ ڈالر بھی وصول کر لئے اور ہمارے لئے کیا بھی کچھ نہیں، جبکہ عمران خان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم "برابری" کی سطح کے تعلقات چاہتے ہیں۔ عمران خان شائد بھول رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں کشکول ہے اور امریکہ خود کو ابھی بھی سپر پاور ہی سمجھتا ہے۔ ایسی صورتحال میں "برابری" کا اعلان ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کے دورہ امریکہ کی "کامیابی" پر بغلیں بجانے والے یہ بُھول گئے ہیں کہ امریکہ کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ امریکہ وہ بچھو ہے، جس کی فطرت ہی ڈسنا ہے۔ وہ اپنی فطرت نہیں چھوڑ سکتا۔ خُو ہمیں ہی بدلنا ہوگی، مگر نجانے ایسا کیا ہے کہ ہمارا ہر حکمران جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو امریکہ کو بُرا بھلا کہتا ہے، گالیاں دیتا ہے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر "مردہ باد امریکہ" کے نعرے لگاتا ہے، مگر جیسے ہی اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچتا ہے، امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔

عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، وہ ایک مخلص لیڈر ہیں، پاکستان کو بہت عرصے کے بعد ایک اچھا قائد ملا ہے، مگر اس کا ایشیئن بلاک سے نکل کر دوبارہ امریکی غلامی میں جانے کا فیصلہ انتہائی احمقانہ دکھائی دیتا ہے۔ اس فیصلے کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ کہتے ہیں قومیں ماضی کے تجربات سے سیکھتی ہیں، مگر دنیا میں واحد پاکستانی قوم ایسی ہے، جس کے حکمران ماضی کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ ہر نیا آنیوالا حاکم اپنا سفر زیرو سے شروع کرتا ہے۔ وہ ملک کو زیرو سے شروع کرکے 70 سے 80 تک ترقی کے زینے طے کرواتا ہے۔ دوسرا حکمران آجاتا ہے۔ وہ ملک کو 70 سے 80 زینوں سے آگے لے جانے کے بجائے دوبارہ زیرو سے اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ پہلے حکمران کو کوستا ہے کہ اس کا پورا سسٹم ہی خراب تھا۔ وہ نئے سسٹم اور نئے عزم کیساتھ ملک کو زیرو پر لاتا ہے اور پھر نیا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارا ملک 72 برسوں کے بعد بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے، جہاں پر قائداعظم محمد علی جناح چھوڑ کر گئے تھے، جبکہ پاکستان کے بعد آزاد ہونے یا بننے والے ملک ترقی میں پاکستان کی نسبت کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان کی نیت نیک ہے، مگر جس راستے پر وہ چل پڑے ہیں، وہ راستہ نہ صرف سنگلاخ ہے بلکہ گمراہی میں لے جانیوالا بھی ہے۔ اس راستے کے راہی کبھی منزل پر نہیں پہنچے۔ عمران خان نے امریکہ میں طالبان کی بھی اچھے انداز میں "نمائندگی" کا حق ادا کیا۔ عمران خان نے کہا کہ طالبان مقامی تحریک ہے، جس سے کسی دوسرے ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام 4 دہائیوں سے خانہ جنگی سے متاثر ہیں، افغانستان کو امن کی ضرورت ہے، طالبان کو حکومت کا حصہ بن کر عوام کی نمائندگی ملنی چاہیئے، طالبان کیساتھ حالیہ امن مذاکرات اب تک کامیاب ترین مذاکرات رہے ہیں۔

عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین دلایا کہ امریکا کو طالبان سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیئے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ حل نہ ہوا تو داعش نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کیلئے بڑا خطرہ بن جائے گی، جبکہ یہاں عمران خان بھول گئے کہ داعش سے وہ کسے ڈرا رہے ہیں، حالانکہ عمران خان کو یہ علم ہے کہ داعش کے بنانے والے بھی یہی ہیں اور داعش کو بنایا بھی اس لئے گیا تھا کہ اسلام کا چہرہ مسخ کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی غلط توجیہہ پیش کی جا سکے۔ داعش کو آج بھی اسلحہ اور مالی وسائل امریکہ کی جانب سے ہی ملتے ہیں۔ بہرحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں عمران خان کو "اپنا فرمانبردار بچہ" قرار دیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر پاکستان کو اپنے کسی بڑے مفاد کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ ہم پہلے بھی کئی بار امریکہ کیلئے استعمال ہوچکے ہیں، لیکن امریکہ نے کبھی بھی مشکل وقت میں پاکستان کیلئے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ پاک بھارت معاملہ ہو تو امریکہ کا جھکاو ہمیشہ بھارت کی جانب رہا ہے۔

امریکہ کیلئے اس وقت دنیا میں سب سے بڑی مشکل ایران ہے۔ ایران ہی ہے، جس نے ٹرمپ کو اپنا تھوکا چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ممکن ہے کہ دورہ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ نے عمران خان سے ایران کیخلاف تعاون مانگا ہو، جس کے جواب میں عمران نے امریکیوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے یہ بیان دیا کہ ایران شیعہ ملک ہے اور شیعہ مسلمانوں میں سنی مسلمانوں کی نسبت جذبہ شہادت زیادہ ہے، یہ لوگ موت سے نہیں ڈرتے، اس لئے ان کیساتھ الجھنے کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ جواب عمران خان کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے بعد ایک بہترین اور درست تجزیہ تو ہے، مگر ٹرمپ جیسے باولے کی سوچ شائد تبدیل نہ کرسکے۔ امریکہ میں بھی ایران کے حوالے سے دو بلاک ہیں، ایک ٹرمپی سوچ رکھنے والا طبقہ ہے، جو طاقت کو ہی ہر مسئلہ کا حل قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ طاقت کی بجائے بات چیت کا حامی ہے اور سمجھتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے آپشن میں اگر فریق مخالف زیادہ طاقتور نکل آیا تو کیا بنے گا۔؟

یقیناً ایران اور امریکہ کا دفاعی اعتبار سے موازانہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکہ آگے ہو، مگر ایران کے پاس جو جذبہ شہادت ہے، وہ امریکہ کے پاس نہیں اور جنگیں اسلحے سے نہیں جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور اگر امریکہ ایران تصادم ہوتا ہے تو اس میں عبرتناک شکست امریکہ کا ہی مقدر ہوگی، کیونکہ ایران کا جذبہ شہادت تو  سب جانتے ہیں، مگر اس کے پاس اسلحہ اور ٹیکنالوجی کیسی ہے، وہ ابھی تک کسی کو علم نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ امریکہ سے کئی درجے بہتر ٹیکنالوجی کا حامل ہوچکا ہو۔ تو امریکہ کا دوسرا طبقہ طاقت کے استعمال کا مخالف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسی دوسرے طبقے کی اکثریت کی وجہ سے ٹرمپ اب پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہو۔ اس حوالے سے اب عمران خان سے کیا کام لیا جائے گا، یہ بہت جلد ہی واضح ہو جائے گا۔

پاک امریکہ نئے تعلقات کس سمت جاتے ہیں یہ چیز بھی ظاہر ہو جائے گی، کیونکہ امریکہ نے مچھلی کی شکاریوں کی طرح "لاوا" عمران خان کے سامنے ڈال دیا ہے۔ اب پاکستان کی مچھلی کس طرح امریکی جال میں پھنستی ہے، یہ مستقبل میں پتہ چلے گا، کیونکہ اس بار امریکہ نے پوری تیاری کے ساتھ عمران خان کیساتھ ڈیل کی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر کبھی نہ بولنے والا امریکہ ثالثی کیلئے بھی تیار ہوگیا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بڑا ہدف ہوسکتا ہے، جسے امریکہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔؟ بہرحال ہمیں اس نئی رشتہ داری میں انتہائی محتاط انداز میں کھیلنا ہوگا، کیونکہ بچھو تو بچھو ہوتا ہے، جو ڈسنے اور نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا اور بچھو سے خیر کی توقع کرنا حکمت نہیں بیوقوفی ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 806904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش