0
Thursday 25 Jul 2019 21:34

سی پیک اور امریکہ کا دورہ

سی پیک اور امریکہ کا دورہ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عمران خان اور پی ٹی آئی میں شامل فیصلہ ساز لوگوں کو دیکھا جائے تو وہ مغربی نظام معیشت کے گن گانے والے ہیں۔ پاکستان سے پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی پاکستان میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت نے امریکہ سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ ترجیحات کے تبدیل ہونے، مفادات کے باہمی متصادم ہونے اور امریکہ کے بہت زیادہ بھارت کے قریب چلے جانے سے بھی یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ پاکستان کسی اور طرف دیکھے۔ سیاسی حکومتیں شائد کسی سطح پر یہ سمجھتی ہیں کہ جب بھی پاکستان کو امریکہ نے کسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، یہاں مارشل لاء لگوا دیا جاتا ہے اور لمبے عرصے تک ڈکٹیٹروں سے معاملات کیے جاتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

گیارہ ستمبر کے بعد امریکی وزیرخارجہ کولن پاول کی ایک کال پر مشرف صاحب ڈھیر ہوگئے۔ ان کی جگہ کمزور سے کمزور جمہوری حکومت بھی کیوں نہ ہوتی، اتنا جلدی فیصلہ نہ کرتی اور اگر کرتی تو کچھ معاملات طے کیے جاتے، مگر یہاں تو بس یس کہہ کر روڈز سے لیکر وطن عزیز کی فضائیں تک امریکہ کے سپرد کر دی گئیں۔ یمن کے معاملے میں جب سعودی عرب نے افواج پاکستان کو وہاں لے جانا چاہا تو بات پارلیمنٹ میں لیجائی گئی اور بڑی حکمت عملی سے جواب دیا گیا کہ ہم وہاں مداخلت نہیں کریں گے۔ یہ ایک قومی پیغام تھا جو پاکستانیوں کے دلوں کی آواز تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے باہمی کشت و خون میں خود کو مبتلا نہیں کرنا چاہیئے۔

پی پی پی کے دور حکومت میں پاکستان نے بھرپور کوشش کی کہ چائنہ سے تعلقات دوستی کے نعروں سے آگے بڑھ کر تجارتی شراکت داری تک آئیں اور پاکستان چائنہ کی مسلسل بڑھتی معیشت سے فائدہ اٹھائے۔ اسی طرح بڑے عرصے کے بعد پاکستان نے روس کی سمت بھی سفارت کاری کا رخ موڑا اور فوجی اور سول آمد و رفت شروع ہوئی۔ زرداری صاحب نے جاتے جاتے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی کر لیا، اس وقت شدید مخالفت کے باوجود ایسا کرنا بڑی بات تھی۔ مسلم لیگ نون کے دور میں یہ فرق واضح محسوس کیا گیا کہ پاکستان چائنہ کے بہت زیادہ نزدیک چلا گیا ہے اور اس پر لکھا جانے لگا کہ اس حد تک چائنہ پر انحصار سے کہیں ہماری خود مختاری متاثر نہ ہو جائے۔

سی پیک گیم چینجر منصوبے کی حیثیت سے سامنے آیا اور پاکستان میں بڑی مدت کے بعد بڑے منصوبے لگنے لگے، حیران کن طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ جس نے معیشت اور عوام دنوں کو جاں بلب کر دیا تھا، اس سے نجات مل گئی۔ چائنہ نے اس سیکٹر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور پاکستان پانچ سال میں اتنی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگانے میں کامیاب ہوگیا، جتنے پہلے ستر سال میں لگے تھے۔ اسی طرح اسلام آباد سے کراچی تک موٹر وے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، بلوچستان میں بہت زیادہ روڈ بنے اور ملک باہمی طور پر گوادر سے مل گیا۔ سی پیک نے پاکستان کی معیشت میں تروتازہ خون داخل کیا، لاغر معیشت چلنے کے قابل ہو رہی تھی، دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز کا قیام عمل آنا تھا کہ عمران خان صاحب کی حکومت آگئی۔ ان کے مشیروں نے پہلے دن سے ایسے بیانات دیئے، جن سے بد اعتمادی کی فضا نے جنم لیا، یہاں تک کہا گیا کہ کچھ وقت کے لیے اسے منجمند کر دینا چاہیئے۔

ویسے تو دنیا میں تعلقات کا مسلمہ اصول ہے کہ مفاد کی بنیاد پر ہی تعلقات مضبوط ہوں گے۔ امریکہ شروع سے سی پیک کا ناقد رہا ہے، امریکی اسے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کے مقابل چائنیز اثر و رسوخ کو پنجے گاڑتا دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم محترم عمران خان صاحب کے دورے کے دیگر نتائج پر بات ہوتی رہے گی، اس دورے کے سی پیک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسے کہ کہا جا رہا ہے، یہ دورہ محمد بن سلمان کی سفارش پر ہوا ہے۔ پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات میں بھی یمن افواج نہ بھیجنے سے جو سرد مہری آگئی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کو سمجھنا ہو تو اس کی بنیاد مالی مفاد ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں اور ہر کسی کو ممکنہ فائدہ پہنچانے والے صارف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے ہر مخالف پر فوراً پابندیاں لگا دیتے ہیں، تاکہ مدمقابل کو مالی نقصان پہنچے اور ایک تاجر کی نگاہ میں مالی نقصان دنیا کا سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے مدمقابل عزت، غیرت، تہذیب اور معاہدے کو کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

وہی ٹرمپ جو الیکشن مہم کے دوران سعودی شہزادوں کو باپ کے پیسوں سے عیاشی کرنے والے قرار دے رہا تھا، جو سعودیہ کو دہشتگردی پھیلانے والی ریاست کہہ رہا تھا، جیسے ہی الیکشن جیتا تو دوڑا دوڑا سعودی عرب پہنچ گیا۔ اس کی وجہ فقط مالی مفاد ہے، اسلحے کی تجارت سے امریکہ کو اربوں ڈالر ملتے ہیں، امریکہ کبھی بھی اسے کھونا نہیں چاہتا۔ ویسے ٹرمپ نے تو علی الاعلان کہا کہ سعودیہ سے پیسہ آتا ہے، جس سے امریکیوں کو نوکریاں ملتی ہیں۔ یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خاشقچی کے قتل کے بعد جب ٹرمپ پر پریشر ڈالا گیا کہ سعودیہ پر پابندیاں لگائیں اور اسلحہ فروخت نہ کریں تو اس نے کہا کہ ہم اسلحہ ضرور بیچیں گے، کیونکہ نہ بیچ کر ہم اپنا نقصان نہیں کریں گے۔ یعنی انسانی حقوق کو ہم نے فقط دیگر اقوام کے خلاف ایک نعرے کے طور پر ہی استعمال کرنا ہے۔

ترکی نے روس سے اسلحہ لینا تھا اور معاہدے بھی ہوچکے تھے، امریکی صدر نے ترکی کو شدید دھمکیاں دیں کہ اگر روس سے اسلحہ لیا تو ہم تمہیں اسلحہ نہیں دیں گے۔ اس سے ٹرمپ انتظامیہ کے رویئے کا پتہ چلتا ہے کہ اپنی نمبرداری اور مالی مفاد کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ خود کو کسی اخلاقی دائرے کا پابند نہیں سمجھتے۔ امریکہ چاہے گا کہ پاکستان سی پیک کی رفتار کو اتنا آہستہ کر دے کہ اس کا فائدہ ہی محدود ہو جائے۔ بڑھتے چائنیز اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے کچھ قرضے ری شیڈول ہو جائیں گے، اسی طرح کولیشن سپورٹ فنڈ بحال ہو جائے گا اور کچھ دوستوں کے مطابق بشرط تعاون افغانستان سے واپسی پر کچھ اسلحہ بھی مل جائے گا۔ امریکی دشمنی سے زیادہ اس کی دوستی خطرناک ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب جو بھی یقین دہانیاں کرا کر آئے ہیں، وہ اپنی جگہ، اصل بات یہ ہے کہ سی پیک پاکستان کی معیشت کے لیے بہت اہم منصوبہ ہے، اسی امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک کے دباو پر کسی صورت میں متاثر نہیں ہونا چاہیئے، تاکہ وطن عزیز میں ترقی کا سفر تیز ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 807021
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش