0
Sunday 28 Jul 2019 22:20

بنوں پولیو وائرس کے حوالے سے دنیا کیلئے خطرہ بن گیا ہے

بنوں پولیو وائرس کے حوالے سے دنیا کیلئے خطرہ بن گیا ہے
رپورٹ: ایس علی حیدر

پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کیلئے کوششوں کو تیز کر دیا گیا ہے اور خصوصاََ ان علاقوں میں اس مہم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، جہاں پولیو کے نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں اب بھی اس مرض کے کیس سامنے آرہے ہیں، حالانکہ اس مرض کا دنیا کے اکثر ممالک سے خاتمہ کیا گیا ہے۔ پولیو کا مقابلہ اس کیلئے پہلے سے حفاظتی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے، کیونکہ ایک دفعہ اگر یہ مرض حملہ کرے تو پھر اس کا علاج ممکن نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میں پاکستان میں اس مرض کا اگر کلی طور پر نہیں تو اچھی خاصی حد تک خاتمہ ہوا تھا، تاہم بعد ازاں افغان مہاجرین کی آمد سے اس کے کیسز پھر سامنے آنے لگے، کیونکہ افغانستان بھی ان ممالک میں سے تھا، جہاں اس مرض کے جراثیم موجود تھے۔

اس طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں کئی اضلاع اس حوالے سے حساس سمجھے جانے لگے۔ اس دوران پولیو کے خلاف مسلسل مہم چلائی گئی اور ایک بار پھر اس مرض کے خاتمے کے امکانات ظاہر کئے جانے لگے، تاہم تعلیم کی کمی اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر پولیو ویکسینیشن کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کئے گئے، جس کے نتیجے میں مختلف اضلاع میں پولیو قطرے پلانے سے انکاری والدین بھی سامنے آنے لگے۔ ضلع بنوں بھی ان علاقوں میں سے ہے، جہاں پولیو جراثیم موجود ہیں اور اسے حساس ضلع قرار دیا گیا ہے۔ پولیو کے حوالے سے خیبر پختونخوا کا ضلع بنوں ریڈ زون قرار دیا گیا، جہاں پولیو کیسز کی تعداد 18، جبکہ ڈویژن کی سطح پر کل تعداد 26 ہوگئی ہے۔ بنوں ڈویژن اور بالخصوص بنوں میں پولیو کیسز کی وجوہات بہت زیادہ ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ بعض طبقوں کی جانب سے ماضی میں کیا گیا پروپیگنڈہ ہے جو بے بنیا تھا، تاہم اس سے لوگ متاثر ہوئے اور کئی خاندانوں نے پولیو قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔

جب 2002ء میں پولیو کے خلاف بعض حلقوں نے مہم شروع کی گئی اور عوام کو یہ تاثر دیا کہ انسداد پولیو کیلئے پلائے جانے والے قطروں میں بعض ایسی چیزیں شامل کی گئی ہے جو حرام ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں منفی تاثر اُبھرا، لیکن بعدازاں جب ان حلقوں کو اعتماد میں لیا گیا اور ان میں سے اکثر کو پولیو مہم میں شامل کیا گیا تو انہوں نے مختلف سیمینارز میں پولیو کے قطروں کو جائز قرار دیا، جس کی وجہ سے انسداد پولیو کیلئے چلائی جانے والی مہمات کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور اس حوالے سے موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے جید علماء کرام نے پولیو کے حق میں فتوے بھی جاری کئے اور آج بھی بہت سے علماء کرام پولیو مہم کا حصہ ہیں، لیکن اکثر لوگوں میں اب بھی پولیو سے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، جن کو دور کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کام جاری ہے اور ان علاقوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، جہاں انکاری والدین کی تعداد زیادہ ہے۔

اسی طرح بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ اس موذی مرض کے خلاف مہم میں تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کو شامل رکھا جائے، جن میں علماء کرام سرفہرست ہیں۔ علماء کرام کے کہنے پر لوگ زیادہ آمادہ ہوتے ہیں اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے، جو بے بنیاد پروپیگنڈے کی بنیاد پر پروان چڑھتے ہیں۔ بنوں میں پولیو کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن بابر بن عطاء نے بنوں ڈویژن کا سہ روزہ دورہ بھی کیا اور اس دورے میں انہوں نے ضم شد ضلع شمالی وزیرستان اور لکی مروت سمیت بنوں کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور نہ صرف پولیو کیسز کی وجوہات جاننے کی کوشش کی، بلکہ انکاری والدین کیلئے ایف آئی آر درج کرنے اور جیل بھیجنے سمیت دیگر سزاؤں کا بھی خاتمہ کیا۔ انہوں نے مار نہیں پیار کی پالیسی شروع کی، تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ حکومت ان کے بچوں کا مستقبل بچانے کیلئے انسداد پولیو مہم چلا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی بنوں میں پولیو کے مرض کو کنٹرول نہ کیا جا سکا اور اِکا دُکا کیسز سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا خاتمہ کثیر الجہت مہم چلانے سے ممکن ہے، جس میں میڈیا، علماء کرام اور عوام سب مل کر اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہ مسئلہ پورے ملک کو درپیش ہے۔ جن علاقوں کو حساس قرار دیا گیا ہے، وہاں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ہی، ان علاقوں کے لوگوں کو جہاں کیسز سامنے نہیں آر ہے ہیں، کو بھی بیرون ملک جانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ پولیو ویکسینیشن کی تصدیق لازم قرار دی گئی ہے۔ بنوں میں پولیو مہم چلانے کے باوجود اس کا توڑ نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے، کہ کثیر سرمائے اور افرادی قوت کے استعمال کے باوجود کیوں پولیو مہم خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس سلسلے میں ضلع لکی مروت اور بنوں کے ڈی ایچ اوز کو ناقص کارکردگی اور غفلت پر معطل بھی کیا گیا اور پولیو مہم مزید تیز بھی کی گئی، لیکن اس کے باوجود بھی پولیو کیسز مسلسل سامنے آرہے ہیں۔

دیکھا جائے تو صورتحال تشویشناک ہے اور اس کے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے محکمہ صحت اور ڈپٹی کمشنر بنوں عطاء الرحمٰن نے میڈیا کی ضرورت محسوس کی، کیونکہ اس سے پہلے پولیو مہم پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے تھے، لیکن میڈیا کوریج نہ ہونے کی وجہ سے پولیو مہم سے عوام کو پوری طرح آگاہی نہیں ملی۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر بنوں عطاء الرحمٰن نے بنوں پریس کلب میں خصوصی نشست کی۔ ڈپٹی کمشنر بنوں عطاء الرحمٰن نے اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بنوں میں پولیو کے خلاف مہم کامیابی سے جاری تھی اور سال میں کوئی ایک کیس ریکارڈ ہوتا تھا، لیکن پشاور میں پولیو کے خلاف پروپیگنڈے کے بعد پولیو سے انکاری والدین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور انکاری والدین کو حکومتی پالیسی مار نہیں پیار کے ذریعے اعتماد میں لینے کیلئے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی ٹیموں نے دن رات محنت کی۔

90 فیصد انکاری والدین کو راضی کر لیا گیا، اب انکاری والدین کی تعداد 7 ہزار ہوگئی ہے اور ہمیں توقع ہے کہ بہت جلد یہ تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہو جائے گی، جس کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے، کیونکہ میڈیا ہی عوام میں شعور اُجاگر کرسکتا ہے کہ انسداد پولیو کے قطرے پلانا جائز ہے اور یہ بچوں کو ہمیشہ کی معذوری اور موت سے بچانے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس لئے عوام پولیو سے متعلق منفی پروپیگنڈوں پر کان نہ دھریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے صوبے میں پولیو کے خاتمے کے قریب پہنچ چکے تھے، لیکن پشاور میں پولیو کے خلاف خود ساختہ، جھوٹے اور منفی پروپیگنڈے کے بعد پولیو مہم پر بُرے اثرات پڑے اور انکاری والدین کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، ہم ایک مرتبہ پھر اس میدان میں بیک فٹ پر چلے گئے، جس سے ملک کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور اب انسداد پولیو مہم کو دوبارہ کامیاب بنانے کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ لوگ سوشل میڈیا کو بھی فالو کرتے ہیں اور صحافیوں پر اعتماد کرتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ پولیو کے خلاف مہم کو کامیاب بنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، پولیو کے خلاف مہم کو کامیاب بنا کر ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں، کیونکہ بنوں کے مختلف علاقوں میں پولیو کا وائرس موجود ہے اور یہ بیماری اگر کسی ایک بچے کو ہو جائے تو اس سے دوسرے صحت مند بچوں کو بھی یہ وائرس منتقل ہو جاتا ہے۔ عطاء الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت پورے پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد 42 ہے، جن میں سے صرف 26 بنوں ڈویژن میں ہیں اور بنوں شہر میں اس کی تعداد اب 18 ہوگئی ہے، پوری دنیا کی نظریں اس خطے پر لگی ہوئی ہیں اور بنوں پولیو وائرس کے حوالے سے دنیا کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکاری والدین کیلئے سزا ختم کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ انکاری والدین فرنٹ پر آگئے اور انہیں راضی کرنا آسان ہوگیا۔ بنوں کو پولیو فری بنانے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانی ہوں گی۔ اس مقصد کیلئے ہر مہینے انسداد پولیو مہم چلائی جا رہی ہے اور قبائلی علاقوں میں الیکشن کے فوری بعد پولیو مہم شروع کی جا رہی ہے۔

اس موقع نیشنل پریس کلب بنوں کے صدر گوہر وزیر اور دیگر عہدیداروں نے ڈپٹی کمشنر بنوں عطاء الرحمٰن اور محکمہ صحت کے افسران کو پولیو مہم کو کامیاب بنانے سے متعلق تجاویز پیش کیں، جسے انہوں نے بے حد سراہا اور اس پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ نیشنل پریس کلب اور ورکنگ یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میڈیا کے بھرپور کردار سے ہی پولیو کا خاتمہ ممکن ہے۔ عوام کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں ہیں، ان کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے، جب میڈیا اور عوام مل کر اس سمت میں مربوط کوششوں کا حصہ بنیں۔ پولیو کے خلاف چلائی جانے والی عالمی مہم میں پاکستان کا اہم کردار ہے، کیونکہ پاکستان ان علاقوں میں سے ہے جہاں اس مرض کے جراثیم موجود ہیں اور جہاں پولیو کے کیس سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا میں اس پروپیگنڈے کا توڑ ضروری ہے، جس کا سہارا لیتے ہوئے تعلیم یافتہ افراد کو پولیو ویکسینیشن سے بدظن کرایا جاتا ہے اور وہ پولیو جیسے خطرناک مرض سے اپنے بچوں کو بچانے کی بجائے ان کو اس تکلیف دہ صورتحال میں دھکیل دیتے ہیں، جن سے نکلنے کیلئے پھر کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

علماء کرام، میڈیا اور عوام اگر ساتھ دیں تو حکام اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو وہ پولیو کے انسداد کیلئے کر رہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ضلعی سطح پر پولیو کے خلاف مہم کو پہلے سے زیادہ فعال بنایا گیا ہے اور اس دوران ہر مکن کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے افراد کو پولیو مہم کی طرف مائل کیا جائے جو اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکاری ہیں اور وہ ان تمام کوششوں کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں، جو کثیر سرمائے اور افرادی قوت کے استعمال سے پولیو کے خاتمے کیلئے کی جا رہی ہیں۔ حالیہ مہم میں تیزی اور مستقبل میں اسی طریقے سے اس کو جاری رکھنے سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ جلد ہی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہونے لگے گا جہاں سے پولیو کا خاتمہ کیا گیا ہے اور جہاں بچے پولیو اور دیگر موذی امراض لاحق ہونے کے خطرات سے دوچار ہوئے بغیر ملک کے بہتر مستقبل کی نوید بنے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 807397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش