4
0
Tuesday 30 Jul 2019 10:05

ایم ڈبلیو ایم قومی انتشار کا نتیجہ ہے یا ارتقائی عمل کا؟(2)

ایم ڈبلیو ایم قومی انتشار کا نتیجہ ہے یا ارتقائی عمل کا؟(2)
 تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

گذشتہ سے پیوستہ
پاکستان کے بظاہر امریکی اتحاد سے باہر آنے کے بعد یہ موقع پھر پیدا ہوا ہے کہ مذہبی رہنماء اخلاص کیساتھ حکمت عملی وضع کریں، پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ مختصر احوال اور پاکستان میں مسلکی سیاست کا پس منظر اہلسنت رہنماؤں کی طرف سے خلافت کی طرز پہ اسلامی نظام کے احیاء کی کوششوں، ان کے اثرات اور حالیہ صورتحال تک کا ہے۔ اب دوبارہ رخ کرتے ہیں شیعہ جماعتوں کی مسلکی سیاست کیطرف۔ یہ تاثر درست نہیں کہ شیعہ اسلامی نظام کے نفاذ یا احیاء کی کوششوں سے لاتعلق رہے ہیں، البتہ شیعہ علماء اور محقیقین نے یہ ذمہ داری صرف آئین اور اصولوں کی تدوین اور تیاری تک ہی انجام دی ہے۔ شیعہ ثقافت کا رنگ پاکستانی معاشرے میں اب بھی بڑا گہرا ہے، عملی سیاست میں کبھی کسی حکمران کیلئے خطرہ نہیں بنے، اس لیے حکومتوں نے شیعہ رسوم کی انجام دہی میں کم ہی رکاوٹیں ڈالی ہیں، اب بھی محکمہ صحت، واپڈا، بلدیہ، سکیورٹی ادارے، بالخصوص پولیس کی سارے سال کی روزی محرم اور صفر کے مراسم کے انتظامات کی انجام دہی کے دوران ہی حلال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی شدت پسندی تکفیری جماعت نے ریاست کی بنیاد کو تشدد سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی اور اس کی روک تھام کیلئے مسلسل ریاستی اداروں کو فرائض انجام دینے پڑے۔

یعنی یہ تکفیری گروہ محرم اور صفر میں شیعوں کی خدمت میں لگے سارے اداروں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں، مجبوراً اداروں کو طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے۔ شیعوں نے کبھی ایسا کوئی نعرہ نہیں لگایا، نہ شدت پسندی پہ مبنی عمل انجام دیا، نہ ہی اپنی مسلکی پہچان پر کوئی حملہ برداشت کیا۔ جس طرح بالعموم پاکستانی معاشرے میں اہلسنت مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان رسوم کو دھوم دھام سے انجام دیتے ہیں، اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے، ریاستی ادارے انہیں بھی سہولت اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ دیوبندی مسلک سے نکلنے والے گروہوں نے جو تشدد پہ مبنی حرکات انجام دیں، اس سے بڑی دیوبندی جماعتوں کی جانب سے اسلامی نظام کے احیاء کے نعرے اور کوششوں کو سخت نقصان پہنچا، یعنی شدت پسندی اسلامی تحریکوں کیلئے بھی چیلنج بن گئی۔ یہاں اگر بڑی مذہبی جماعتیں تحریک جعفریہ کی قیادت کا ساتھ دیتیں تو ان کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچتا۔ جب علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے زمانے میں شیعہ حقوق کیلئے اٹھنے والی ملک گیر آواز کو انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہونیوالے علامہ عارف حسین حسینی شہید نے اسلامی نظام کے احیاء کے نعرے میں بدل دیا، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے والہانہ وابستگی رکھنے والے امامیہ طلبہ نے مفتی جعفرحسین مرحوم کی طرح ان کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔

علامہ عارف حسین حسینی شہید کو پاکستان میں امریکی تسلط کیخلاف خطرہ محسوس کیا گیا اور انہیں کرائے کے قاتل سے ایک سازش کے تحت ٹارگٹ کروایا گیا۔ علامہ ساجد علی نقوی کو شیعہ مسلک کی بنیاد پہ قائم ہونیوالی سیاسی جماعت کا سربراہ بنایا گیا، اسی دوران جھنگ میں تکفیری جماعت کی بنیاد رکھنے والا حق نواز جھنگوی سیاسی مخالفین کے ہاتھوں ہلاک ہوا، لیکن اسے مسلکی رنگ دیکر سرگودہا کے ریاض بسراء اور جھنگ سے تعلق رکھنے والے سپاہ صحابہ کے حق نواز چنگی محرر نے لاہور میں خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈائریکٹر جناب صادق گنجی کو گولیوں کا نشانہ بنایا، وہ شہید ہوگئے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ تکفیری گروہ انقلاب اسلامی ایران کیساتھ تعصب کی بنیاد پر پیدا ہوا اور پلا بڑھا، جبکہ اس واقعہ سے چند سال قبل علامہ عارف حسین حسینی شہید نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر شیعہ مسلکی تشخص کیساتھ پاکستان میں اسلامی سیاست کے اصولوں کے احیاء کے لئے کردار ادا کرنیکا اعلان کیا، انہیں یہ سوچ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے پہلے وقتاً فوقتاً پاکستان میں آنے والے امام خمینی کے جانثاروں اور ایران اور عراق میں حصول تعلیم کے دوران امام خمینی رحمۃ اللہ کے افکار سے حاصل ہوئی، وہ پاکستانی معاشرے میں ایک چمکتا ہوا ستارہ بن کر ابھرے، لیکن جلد غروب ہوگئے۔ شہید صادق گنجی کی شہادت سے تکفیری جماعت سپاہ صحابہ نے اپنے اس پروپیگنڈے کو تقویت دینے کی کوشش کی کہ پاکستان میں شیعہ سیاسی جماعت کا ہدف ایران میں کامیاب ہونیوالے اسلامی انقلاب کو برآمد کرنا اور پاکستان کی اہلسنت اکثریت پر اس نظام کو مسلط کرنا ہے۔

علامہ عارف حسینی شہید نے ہمیشہ اس کا جواب دیا، اہلسنت رہنماوں اور کارکنوں سے ان کے گہرے روابط تھے، لیکن اجتماعی اور سیاسی شعور سے عاری رائے عامہ کی اکثریت نے سپاہ صحابہ کی تشدد آمیز پروپیگنڈہ کی پالیسی سے گہرا اثر لیا۔ علامہ عارف حسین حسینی کی شہادت کے بعد علامہ ساجد علی نقوی نے اہلسنت رہنماؤں کیساتھ مضبوط روابط کی بنیاد پہ تکفیری حکمت عملی کو ناکام بنانے کی کامیاب مساعی انجام دی۔ علامہ عارف حسین حسینی، ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کو عالمی طاقتون کے تسلط سے آزاد کروانے کی سب سے نمایاں آواز تھے، جس کی وجہ سے شیعہ مسلک کی بنیاد پہ سرگرم سیاسی جماعت کی پہچان شیعہ حقوق کے تحفظ کیساتھ ساتھ نظام ولایت فقیہ کی تائید اور لا شرقیہ و لا غربیہ کا اصول ٹھہرا۔ علامہ ساجد علی نقوی نے مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی جیسی جماعتوں کیساتھ الحاق میں شامل ہو کر انتخابات میں حصہ لیا اور تحریک جعفریہ کا لوہا منوایا، 90ء کی دہائی میں گلگت بلتستان میں نمایاں سیاسی کامیابی اور سینیٹ میں دو ممبران اس کی مثال ہیں۔ اسی طرح شیعہ ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور شیعوں کیخلاف فسادات پر قانونی اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے علامہ ساجد علی نقوی نے ہمیشہ واضح، دوٹوک اور دلیرانہ موقف اختیار کیا، جیسے کہا کہ مجھے پاکستان میں عزاداری کیلئے کسی لائسنسں کی ضرورت نہیں، یہ آئینی حق ہے۔

تکفیری جماعت کے بانی کی جھنگ میں ہلاکت کے بعد پاکستان میں را، موساد، سی آئی اے اور سعودی ایجنسیوں نے انقلاب اسلامی ایران کیخلاف تفرت پیدا کرنیکے لیے، سپاہ صحابہ کو براہ راست وسائل، دولت، سہولیات، ویزے، کریڈٹ کارڈز، تربیت، لٹریچر، سیاسی حیثیت دیکر شیعہ مسلک کیخلاف تشدد کا بازار گرم کرنیکے لیے اکسایا، پاکستان کی گلی گلی میں انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جو عالمی سطح پر استعماری نظام کیلئے چیلنج کی علامت بن چکے تھے، امریکہ اور سعودی عرب سمیت اس کے اتحادیوں نے اس کے اثرات کو پاکستان کی سرزمین پر روکنے کیلئے سازشوں کو ہوا دینا شروع کی، 90ء کی دہائی میں جو آگ بھڑکائی گئی، وہ مشرف دور میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ سے پھیل کر عام پاکستانیوں کیخلاف دھماکوں میں بدل گئی۔ جس طرح ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کیلئے امریکہ کا ساتھ دیا، اسی طرح جنرل مشرف نے اپنا اقتدار مضبوط بنانے کیلئے امریکی مفادات کی مقدم رکھا، تاکہ انہیں عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہے، ضیاء الحق نے روس کیخلاف امریکہ کو تقویت دی، اب مشرف کے زمانے میں روس تحلیل ہوچکا تھا، لیکن امریکہ کے سامنے ایران کے اسلامی انقلابی ڈٹے ہوئے تھے۔

چونکہ تحریک جعفریہ کی پہچان صرف شیعہ حقوق کا تحفظ نہیں تھا بلکہ نظام ولایت فقیہ کی تائید بھی تھا، اس لیے علامہ ساجد علی نقوی کی سربراہی میں سرگرم شیعہ سیاسی جماعت کو امریکی آقاؤں کو خوش کرنیکے لئے بہانے سے مشرف دور میں کالعدم قرار دیدیا گیا۔ یہاں پھر پاکستانی معاشرے میں سیاسی شعور کی کمی نمایاں طور پر ظاہر ہوئی، شیعہ مسلک کی سیاسی طاقت کو اتنی بڑی ضرب لگانے والے جنرل مشرف آج بھی عام شیعوں کے ہیرو ہیں کہ انہوں نے کالعدم تنظیموں کیخلاف ایکشن لیا تھا، حالانکہ دوسری طرف تحریک جعفریہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کا حصہ تھی، جنہیں ایک ڈیل کے تحت جنرل مشرف نے اقتدار میں شریک رکھا۔ ایک طویل عرصے تک تحریک جعفریہ پابندیوں اور سختیوں کی زد میں رہی، لیکن اہلسنت رہنماوں کے درمیان علامہ ساجد علی نقوی کا مقام و مرتبہ مزید بلند ہوا، پابندیاں نرم ہونے کے بعد انہوں نے تنظیم کو از سرنو منظم کیا۔

اس دوران اسلام آباد میں علامہ عارف حسین حسینی شہید کی برسی کی مناسبت سے اسلام آباد میں شہید علامہ عارف حسین حسینی کی فکر اور منہج سے متاثر ہونیوالے علماء نے مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے اجتماع منعقد کیا۔ بہت سارے دوسرے نمایاں افراد کیساتھ علامہ ساجد علی نقوی سے بچھڑے ہوئے کارکن اس میں شامل ہوگئے۔ اس سے قبل علامہ ساجد علی نقوی کو جب گرفتار کیا گیا، اس وقت کے مرکزی صدر آئی ایس او ناصر عباس شیرازی نے علامہ ساجد نقوی کی گرفتاری کیخلاف احتجاج میں کھلے دل سے حصہ لیا، علامہ راجہ ناصر عباس کی قیادت میں سرگرم شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین کو شیعہ مسلک کی سیاسی پارٹی بنانے میں ناصر شیرازی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس سے یہ تاثر کافی کم ہوا کہ یہ نئی جماعت علامہ ساجد علی نقوی کو کمزور کرنے کیلئے وجود میں آئی ہے۔

کسی منفی اثر کی بجائے علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں کام کرنے والے کارکنوں کو مسابقت کا ماحول ملا اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں، ساتھ ہی جعفریہ اسٹوڈنٹس کو باقاعدہ طور پر شیعہ علماء کونسل، جو مشرف دور کی پابندیوں کے بعد وجود میں آئی، اس کا طلبہ ونگ بنا دیا گیا، اب شیعہ علماء کونسل اور جے ایس او ملک گیر سطح پر سرگرم ہیں۔ شیعہ علماء کونسل اہلسنت سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا اہم حصہ ہے، ساتھ ہی ایم ڈبلیو ایم ملک گیر سیاسی حیثیت کی حامل شیعہ سیاسی جماعت ہے۔ مختصر یہ کہ تحریک جعفریہ کے قائد علامہ عارف حسین شہید کی برسی کے موقع پر ایم ڈبلیو ایم ناصران ولایت کے عنوان سے عظیم الشان کانفرنس منعقد کر رہی ہے، کانفرنس کا عنوان ظاہر کرتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے دور سے شیعہ حقوق کے تحفظ کیلئے شروع ہونیوالی قومی جدوجہد کیساتھ ساتھ علامہ عارف حسین حسینی شہید کے دور میں نظام ولایت کے اصول کی بنیاد پہ پاکستان میں اسلامی نظام کے احیاء اور عالمی طاقتوں کے تسلط سے ملک کو نجات دینے کے عزم کی نمائندہ کوششوں میں سے ایک ہے، یعنی یہ سیاسی جدوجہد فکر امام خمینی رحمۃ اللہ کے اصولوں کی تفہیم کیساتھ ساتھ معروضی حالات کی روشنی میں دینی اور قومی وظیفے کی انجام دہی کے احساس سے عبارت ہے، کوئی ردعمل یا پہلے سے موجود سیاسی جماعت کے کسی کمزور پہلو کی وجہ سے پیدا ہونیوالی موقع پرستی کا نتیجہ نہیں۔

آئی ایس او پاکستان کا بھی یہی نعرہ ہے، آئی ایس او کے دو مزید سابق مرکزی صدور کی صوبائی اور مرکزی کابینہ میں ذمہ داریاں ایک اچھا شگون ہے۔ مختصراََ یہ کہ جس وجہ سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے عوام کو مشرف کی چالاکی سمجھ نہیں آئی، وہ سیاسی شعور کی کمی ہے اور مضبوط ترین سیاسی قوت کو کمزور کر دیا گیا، ایم ڈبلیو ایم اگر عوامی سطح پر منظم انداز میں سیاسی شعور بہتر کرنے میں ناکام رہی تو عوامی حمایت اس کے حصے میں بھی نہیں آئے گی۔ سیاست ہمہ وقت مصروفیت کا تقاضا کرتی ہے، لیکن سیاسی جماعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے سے بے فکری بھیانک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ دشوار سیاسی حالات میں موجودہ حکومت کیساتھ بہترین ہم آہنگی ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی کامیابی کی جانب ایک اشارہ ہے، نظریاتی پختگی کی خوبی نے اسے چار چاند لگا دیئے ہیں، ریاست اور سیاست کے باب میں یہ کھلتا ہوا پھول اپنی خوشبو ضرور بکھیرے گا، پاکستان توانا، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنے گا، دنیا کے دوسرے مناطق طرح پاکستانی بھی عالمی طاقتوں کو چیلنج کرنیوالے نظام ولایت کی تائید جاری رکھیں گے، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شدہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 807496
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بلوچ صاحب: حضرت علی علیه السلام جنھیں رسول الله اور عوام دونوں نے منتخب کیا، ان کے خلاف نا دانسته اور دانسته افراد نے قیام کیا اور هزاروں مسلمانوں کا خون هوا اور اب همارے عام مسلمان حضرت علی اور ان کے خلاف نبرد آزما هونے والے افراد کو بهائی قرار دیتے ہیں اور زیاده سے زیاده اس سب خون خرابه کو اجتهادی غلطی اور اسلام کا ارتقائی عمل سمجھتے ہیں!!!
علامه سید ساجد نقوی بهی مفتی جعفر حسین اور قائد شهید کی مانند منتخب هوئے اور شهید قائد کی طرح ولی فقیه حضرت امام خمینی رضوان الله تعالیٰ علیه کی طرف سے نمائیده منتخب هوئے اور اب تک اسی منصب پر باقی ہیں، ان کے خلاف دشمن کی سازش تو طبیعی عمل تها، لیکن اپنوں کی سازشین ارتقائی عمل کیسے۔؟!!!!
سردار تنویر
Pakistan
مجھے نہیں لگا کہ علامہ ساجد نقوی صاحب کیخلاف کسی اپنے نے کوئی سازش کی ہے، واللہ اعلم
بلوچ صاحب اپنوں نے سید ساجد علی نقوی کے خلاف کیا نہیں کیا؟!!! آپ مرکز علمی قم تشریف لائیں، اگر درست اس بارے جاننا چاهتے ہیں تو!!! 1995ء سے 2000 ء تک جو طلبه اس مرکز عملی میں موجود تهے، وه آپ کو حقیقت بتائیں گے که موجوده خود کو لیڈر سمجھنے والوں نے علامه سید ساجد کے خلاف قم کے مقدس شهر کے در و دیواروں پر کیا کچھ کیا!!!! ارتقائی عمل تقویٰ اور اتحاد و وحدت کی بنا پر هوتا ہے، نه که ملت میں اختلاف برای اختلاف، نفرت اور فساد کی صورت میں۔
Iran, Islamic Republic of
حضرت علی سے پہلے والے خلیفہ جو کہ حضرت علی کی طرح معصوم نہ تھے، جب انہوں نے صحیح کام نہ کیا تو عوام نے ان کے خلاف بھی آواز اٹھائی، لیکن کیا خلیفہ سوم کے خلاف آواز اٹھانے والے سازشی تھے؟؟؟؟
ابو موسیٰ اشعری جو نمائندہ امام معصوم تھا اور مولا علی کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا، جن لوگوں نے اس کے حکمیت والے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی، کیا وہ سازشی تھے؟؟؟؟!!!!!
یا ارتقائی عمل انجام پا رہا تھا فاعتبروا یا اولی الابصار
ہماری پیشکش