1
Sunday 28 Jul 2019 10:38

ایم ڈبلیو ایم قومی انتشار کا نتیجہ ہے یا ارتقائی عمل؟(1)

ایم ڈبلیو ایم قومی انتشار کا نتیجہ ہے یا ارتقائی عمل؟(1)
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

مجلس وحدت مسلمین مسلک کی بنیاد پہ موثر سیاسی کردار کی حامل جماعت ہے، جو ملکی سطح پر ہونیوالی فیصلہ سازی میں کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک تاثر ہے کہ یہ حادثاتی طور معرض وجود میں آئی ہے۔ اس جائزہ میں اسی پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے کہ ایسا ہی ہے، یا یہ ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ ہمارے آئین کی رو سے ہر پاکستانی کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی ہے، لیکن اس پر زور صرف انتخابات کے موقع پر دیا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی ووٹ ڈالے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنخابی عمل بھی ہمیشہ سے مشکوک رہا ہے، جس وجہ سے عام آدمی کی سیاسی عمل سے بیزاری لاتعلقی کی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح اقتدار میں شراکت کا عمل کمزور ہو جاتا ہے، طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ حقوق سلب ہونا شروع ہو جاتے ہیں، گھٹن کی فضاء بن جاتی ہے، لوگ آواز اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ریاستی ادارہ سیاسی عمل کو مکمل طور پر معطل کر دے تو عوام یہی سمجھتے ہیں کہ بدعنوان اور مفاد پرست سیاستدانوں کا یہی علاج ہے، لیکن طاقت اب صرف فرد واحد کے پاس آجاتی ہے اور ریاست ناکامی کا شکار ہونے لگتی ہے۔ پھر سیاستدانوں کو موقع دیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد بحیثیت قوم پاکستان جس نظریئے پہ قائم ہوا تھا، اس تصور کے مطابق ملک کو نہیں چلایا جا سکا۔

اسی حقیقت کی بنیاد پہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا عمل جاری ہے، جو زیادہ تر مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں قائم سیاسی جماعتیں انجام دے رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جماعتوں پر مسلکی رنگ غالب نطر آتا ہے۔ شیعہ مسلک کی سیاسی جماعتوں کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ ضیاء دور سے پہلے سیاسی بساط پہ فرقہ وارانہ یا مسلکی تفریق نہیں تھی، گویا کسی بھی سیاسی پارٹی میں سوائے مذہبی جماعتوں کے تمام سیاسی جماعتوں میں ہر مسلک کے رہنماء مل کر لوگوں کی رہنمائی اور عوام کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیتے۔ جس کے لیے صرف ان کی سیاسی اہلیت اور خاندانی قد کاٹھ ہی بڑا عامل شمار ہوتا۔ کوئی پارٹی کسی کو مسلک کی بنیاد پر ٹکٹ دینے کیلئے مجبور نہ تھی۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی کے دونوں دھڑے اور جے یو پی اپنے اپنے مسالک کے دھڑوں کے طور کام کرتی رہیں، لیکن حالات میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوا، جب شیعہ مسلک کی تکفیر کی بنیاد پہ سپاہ صحابہ کے مقتول رہنماء نے جھنگ میں الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن نے اس پہ کوئی روک نہیں لگائی۔

جس وجہ سے مین اسٹریم سیاست اور بالخصوص شیعہ ووٹرز کو یہ احساس ہوا کہ اس عمل کو ریاست کی تائید حاصل ہے اور یہ زہر ملکی سیاست میں سرایئت کر گیا۔ شیعہ مسلک کیلئے ضیاء دور سے ہی فضاء ناساز گار بنا دی گئی تھی، جس کا تدارک علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں ہونیوالے احتجاج کے ذریعے کیا گیا۔ ضیاء الحق کو منہ کی کھانا پڑی۔ مفتی جعفر حسین مرحوم کی زندگی میں مولانا مودودی مرحوم کی طرف سے پاکستان کے شیعہ ووٹرز کی طاقت کا احساس دلائے جانے کے باوجود شیعہ جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، نہ ہی اہل تشیع میں پاکستان کو اسلامی نظریہ کی بنیاد پہ قائم نظام کے مطابق چلانے کے نعرے کو مسلکی رنگ دیا۔ جیسا کہ قراداد مقاصد سے لیکر 73ء کے آئین میں شامل 22 نکات تک تمام مسالک کے علماء کیساتھ شیعہ علماء نے بھی ریاستی نظام کے بنیادی خدوخال مرتب کرنے میں ذمہ داری سے کردار ادا کیا۔ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں اور فوجی آمریتوں نے اسلامی نظریئے کو کبھی سرے سے سنجیدہ لیا ہی نہیں۔ سخت ترین سیاسی گھٹن کیوجہ سے مذہبی سیاسی جماعتوں نے جب ایوب خان کیخلاف احتجاج کیا، انہوں نے انتقامی طور پر یحییٰ خان کو پاکستان پر مسلط کر دیا۔

جس کی عیش کوشی اور بدمستی کیوجہ سے پاکستان دو لخت ہوگیا، اسوقت سے آج تک پاکستان کی کمر اقتصادی طور پر سیدھی نہیں ہوسکی، قیدی بننے والے فوجی واپس آگئے، لیکن پاکستان کی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی رہیں، سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مسلمان سربراہان مملکت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کرکے اسلامی دنیا میں پاکستان کا وقار اور سیاسی مقام بحال رکھا، جس سے اقتصادی بہتری اور ملکی استحکام کی امید پیدا ہوئی، عام آدمی کے اضطراب میں کمی واقع ہوئی، مایوسی ختم ہونے لگی۔ لیکن امریکی سازش کے ذریعے ایک دفعہ پھر پاکستان پر فوجی آمریت مسلط کر دی گئی، ضیاء الحق نے منافقانہ انداز میں پاکستانی عوام کے مذہبی احساسات کو بھانپتے ہوئے اسلامی نظام کا نعرہ لگایا، اس سے قبل کسی حکمران نے اس کی حامی بھری نہ اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہا۔ جنرل ضیاء نے ایک طرف اسلامی نظام کی بات کی اور دوسری طرف اسلامی اصولوں کے برعکس اقتدار کو طول دینے کیلئے عالمی سامراج امریکہ کا ساتھ دینے کا کھلم کھلا فیصلہ بھی کیا، تھوڑے ہی عرصے میں پاکستان مکمل طور پر عالمی طاقتوں کا دست نگر بن کر رہ گیا۔ جس سے پاکستان کے عام شہریوں میں اسلامی نظام سے دوری اور اہل قیادت کے فقدان کا احساس گہرا ہوگیا۔

مسلک کی بنیاد پہ موجود سیاسی جماعتون نے ایک بار پھر سر اٹھایا اور اسلامی اصولوں کے احیاء کا نعرہ بلند ہوا۔ پاکستانی معاشرے پہ سیکولر سیاست کی چھاپ بڑی گہری ہے اور مذہب کو سیاست سے الگ ہی تصور کیا جاتا ہے، لیکن ملکی خود مختاری خطرات کی زد میں دیکھ کر عوامی جذبات کا بھڑکنا فطری عمل ہے، جسے مذہبی سیاسی جماعتیں جہت دیتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی جماعت کی بات کریں تو مذہبی جماعتوں نے اسلامی نظام کے احیاء کیلئے فکر دینے کی کوششوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے، اس میں کامیابی نہیں ہوسکی یا کمزوری پیدا ہوگی، یا نظام فکر میں بنیادی نقص موجود تھا، یا خارجی عوامل نے اس سوچ کو پنپنے نہیں دیا، اس سب کے باوجود اسلامی نظام کے احیاء کا نعرہ اور اس کے لیے مساعی میں مذہبی جاعتوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی کو کم رنگ کرنے کیلئے ضیاء الحق نے کراچی میں لسانیت کی بنیاد پہ ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر طاقتور بنایا اور مذہبی جماعتوں کو جہاد افغانستان کے نام پر امریکہ کا حلیف ثابت کیا، جس سے انہیں عوامی پذیرائی نہ ملی، یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے احیاء کا نعرہ ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن کی پالیسی جیسا ہی بے، جو سیاسی مفاد کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے کا ہتھکنڈہ ہے۔

یہ تاثر آج بھی موجود ہے، اس کی وجوہات میں مذہبی جماعتوں کی ناکام اور ناقص حکمت عملی اور مذہبی جماعتوں میں نظریئے کی بجائے مفاد پرستی کے عنصر کا غالب آنا بھی شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام تر اخلاص کے باوجود پاکستان میں کام کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں میں حکمرانوں اور ان کی سرپرستی کرنیوالی عالمی طاقتوں کا کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح اثر و رسوخ موجود رہا ہے، ورنہ ضیاء الحق جیسے لوگ اتنی آسانی سے اس سیاست میں کامیاب نہ ہوتے کہ قیام پاکستان سے قبل اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے اسلامی نظام کے احیاء کا نعرہ لیکر اٹھنے والے مذہبی رہنماؤں کے سیاسی کردار کو اسلام سے محبت کرنیوالے پاکستانی مسلمانوں کیلئے مشکوک بنا دیں۔ احساس زیاں رکھنے والوں کیلئے ضیاء الحق کی اس سیاسی چال کی کامیابی صرف مذہبی جماعتوں کی ناکامی نہیں، بلکہ اسلامی نظام کے احیاء کیلئے ہونیوالی کوششوں کو دھچکا ہے۔ اس سے عام لوگوں کے اذہان میں یہ بات مزید پختہ ہوئی ہے کہ سیاسی انتخابات سے لیکر کفر اور اسلام کی جنگ کے نام پر ہونیوالی افغان جنگ تک حکمران اور مذہبی رہنماء اسلام کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ آج جب پاکستان اس اقرار کیساتھ کہ ہم نے امریکی مفادات کیلئے جنگیں لڑی ہیں، اپنی پالیسی سے رجوع کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنیکا موقع ملا ہے، وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔
 
خبر کا کوڈ : 807498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش