0
Monday 29 Jul 2019 12:16

مقدسات کی بہتات(1)

مقدسات کی بہتات(1)
تحریر: ثاقب اکبر

اصولی طور پر یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم، مذہب یا قبیلہ کے ”مقدسات“ کا احترام کیا جانا چاہیئے۔ پرامن بقائے باہم کے لیے عام طور پر اسے ایک سماجی قانون کی حیثیت حاصل ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ مقدسات کا تصور بڑھتے بڑھتے بہت پھیل گیا ہے اور مقدسات کی ایسی بہتات ہوگئی ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ اب کسی بھی موضوع پر، کسی بھی شخصیت پر اور کسی بھی نظریئے پر بات کرنے کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ ہر موضوع، ہر شخصیت اور ہر نظریہ رفتہ رفتہ مقدس ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قومیں مقدس، دستاویزات مقدس، جماعتیں مقدس، شخصیات مقدس، نظریات مقدس اور یہاں تک کہ علاقے، شہر، قبریں، گلیاں سب مقدس ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ رسمیں اور رواج بھی مقدس ہوگئے ہیں۔ مختلف مذاہب کی رسمیں شعائر ہوگئی ہیں اور مسلمان مذاہب کے ماننے والوں میں وہ شعائر مذہب یا شعائر اسلام قرار پاتی چلی جا رہی ہیں۔ بعض اہل مذاہب نے جانوروں کو بھی مقدس بنا لیا ہے۔ ایسے میں اگر بات کرنا ہو تو انسان کیا کرے۔ ماضی میں بادشاہوں کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ اگر جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں، لیکن آج یہ کہہ کر بھی انسان کی جان کو امان شاید نہ مل سکے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو انسانی فکر و نظر میں جمود کی تہیں مزید دبیز ہوتی چلی جائیں گی اور آسمان والے زوال آدمیت کا تماشا کرتے رہیں گے۔

ہماری رائے یہ ہے کہ توہین اور تنقید میں فرق روا رکھ کر ہم تازہ فکر کو دعوت دے سکتے ہیں۔ ایک نظریہ اگر دوسرے کے نزدیک درست نہیں تو اچھے انداز سے اس پر تنقید کی گنجائش ہونا چاہیئے۔ شخصیات کے مسئلے کو بھی اسی طرح سے لینا چاہیئے۔ بعض خاص ادوار کے افراد کو بعض قومیں یا گروہ مقدس قرار دے لیتے ہیں۔ پھر اس دور اور اُس دور کے افراد پر تنقید کی گنجائش بھی روا نہیں جانتے۔ چند مثالوں سے ہم اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بزرگ اساتذہ اور علماء اپنی کلاس میں اپنے طلبہ کے سامنے کسی ایک مسئلے پر مختلف علماء کے افکار اور ان کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ پھر ان کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور اس مسئلے پر اپنی رائے اور اپنی دلیل بیان کرتے ہیں۔ اس دوران میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ دیگر علماء بلکہ اکابر علمائے سلف کے نظریات بیان کرتے ہوئے اور ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا نام بہت ادب سے لیتے ہیں، لیکن ان کے نظریئے کو رد کرکے اپنا نظریہ ان کے مقابل پیش کرتے ہیں اور طلبہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے استاد نے اپنے اکابر اسلاف کی توہین کی ہے۔

کیا یہی رویہ ایک مکتب فکر کے علماء دوسرے مکتب فکر کے علماء پر تنقید کرتے ہوئے اختیار نہیں کرسکتے اور کیا دوسرے مکتب فکر کے علماء اسے توہین کے بجائے تنقید کے زمرے میں شمار نہیں کرسکتے؟ ہم سائنسی اور سماجی علوم میں بھی نقد و تنقید دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ وہاں کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی۔ بعض رسوم، نظریات اور عقائد ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر تنقید کیے بغیر معاشرہ پیش رفت نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں انبیاء نے شرک اور اس کے مظاہر کے خلاف جو جرا¿ت مندانہ جدوجہد کی ہے، اسے بطور نمونہ ذکر کیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن بتوں کو کلہاڑے سے توڑ دیا، وہ سب اس دور اور اس بستی کے لوگوں کے لیے مقدسات کی حیثیت رکھتے تھے، لیکن یہ ایسے مقدسات تھے، جن پر ضرب لگائے بغیر جمود، انحراف اور ظلم کا استیصال ممکن نہ تھا۔ اس ضمن میں دیگر انبیاء اور خاص طور پر آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل بھی شاہد کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔

ماضی میں اور آج بھی بہت سے لوگ اپنے آباﺅ اجداد کو مقدس جان کر ان کے نظریات کو مقدس قرار دے لیتے ہیں اور ان پر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ قرآن حکیم نے اس طرز عمل پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور وہ لوگ جو اپنے نظریئے یا عقیدے کے صائب ہونے کے لیے اپنے آباﺅ اجداد کے نظریئے کو بطور دلیل پیش کرتے تھے، ان سے کہا گیا کہ کیا اگر تمھارے آبا کچھ علم اور خبر نہ رکھتے ہوں، تب بھی تم ان کے نظریئے اور عقیدے کو اختیار کیے رہو گے۔ یہ بھی دراصل انسانی ضمیر و وجدان کو جھنجھوڑنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ بعض مسلمان مفکرین نے اس پہلو پر سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے زوال کی وجوہ کیا ہیں، کیوں آج مسلمان پسماندگی اور نکبت کا شکار ہیں۔ اس سوال پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے زوال کی وجوہ کو نہ جان سکے، وہ پلٹ کر کمال کا راستہ اختیار نہیں کرسکتی۔

اس میں مشکل اس وقت پڑ جاتی ہے، جب زوال یا انحراف کے مراحل کو سمجھنے کے لیے بعض شخصیات کے طرز عمل پر تنقید کی نوبت آتی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی نے اپنی معروف کتاب ”خلافت و ملوکیت“ میں صدر اسلام کی تاریخ پر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کی کوشش کی۔ انھیں بعض افراد کے بعض کام درست دکھائی نہ دیئے۔ انھوں نے اس وجہ سے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو، بڑی احتیاط سے قلم اٹھایا اور بعض افراد پر سلجھے ہوئے انداز سے تنقید کی۔ اسے ان کی جسارت اور بعض مقدسات کی توہین سمجھا گیا۔ یہ درست ہے کہ ان کی اس تنقید سے بعض لوگوں کو صدر اسلام کی تاریخ کے بعض پہلوﺅں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی، لیکن مولانا کے حصے میں جو طعن و تشنیع آئی اور توہین کے جو تیر ان پر چلائے گئے، ان کا سلسلہ بھی دراز ہے اور ابھی تک رکا نہیں۔

ہم مختلف مثالوں کے ذریعے سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہندوستان میں گاﺅ پرستی نے جو اسلام اور مسلمان دشمنی کی صورت اختیار کر رکھی ہے، اسے بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کے ہاں مشترکہ طور پر بہت سے جانوروں کو ذبح کرنا اور ان کا گوشت کھانا روا سمجھا جاتا ہے۔ ان میں پرندوں اور آبی جانوروں کا گوشت بھی شامل ہے۔ گائے کے بارے میں ہندوﺅں کا خاص نقطہ¿ نظر ہے، وہ اسے گاﺅ ماتا قرار دیتے ہیں، لیکن ایسے میں کسی دوسرے مکتب فکر کے انسان کی قیمت کا گائے کی قیمت سے کم ہو جانا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص گائے کا گوشت لے کر جا رہا ہے تو اس کی جان کے لیے کوئی امان نہیں یا شک بھی ہو جائے کہ اس کے پاس گائے کا گوشت ہے تو اسے قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کہ ایسے میں بھارت کے اندر کسی مرد دانا کی آواز میں وہ طاقت نہیں رہی، جو وحشی انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور انھیں قائل کرسکے کہ گائے جتنی بھی مقدس ہو انسان سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔

رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود اور کعبة اللہ کو بہت مقدس قرار دیا، بیت اللہ کے حج کو ہر مستطیع مسلمان پر فرض قرار دیا۔ مسلمان شب و روز اس گھر کا طواف کرتے رہتے ہیں اور اپنی ہر نماز کے لیے اس کی طرف رخ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کی عظمت اور اس کے عظیم تقدس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے سامنے کھڑے ہوکر، اس سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا: والذی نفس محمد بیدہ، لحرمة المومن اعظم عند اللّٰہ حرمة منک: مالہ ودمہ، و ان نظن بہ الا خیرا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن) "اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری کی جان ہے، مومن کی عزت و حرمت تیری عزت و حرمت سے بڑھ کر ہے، اس کے مال کے لحاظ سے، اس کے خون کے لحاظ سے اور اس لحاظ سے کہ اس کے بارے میں خیر کے علاوہ کوئی گمان نہ کیا جائے۔" اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مومن کے بارے میں بدگمانی بھی کعبة اللہ کی توہین سے بڑھ کر ہے۔ اس حدیث کے متن یا مفہوم کو محققین نے درست قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 807721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش