0
Monday 29 Jul 2019 17:30

رائے شماری کی صورت میں گلگت بلتستان کا قومی بیانیہ کیا ہوگا؟

رائے شماری کی صورت میں گلگت بلتستان کا قومی بیانیہ کیا ہوگا؟
تحریر: شیر علی انجم

محترم قارئین گذشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ امریکہ کے بعد امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کے بعد پاکستان اور ہندوستان اور منقسم ریاست جموں کشمیر کی اکائیوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے پہلی ملاقات میں اس بات کا انکشاف کیا کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اُن سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی درخواست کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ٹیوٹر پر پیغام میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے۔ اُنہوں نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ اس معاملے پر بھارت کی مستقل پوزیشن یہی رہی ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اُس وقت ممکن ہوں گے، جب وہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی ختم کرے۔ اُنہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین تعلقات دو طرفہ نوعیت کے ہیں، اور ان کو حل کرنے کے لیے شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ موجود ہیں۔ اس اہم موقع پر بھارت کی جانب سے جہاں شملہ معاہدے کے ذکر کی اپنی جگہ اہمیت ضرور ہے، وہیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کے قرارداوں کے ہوتے ہوئے دو طرفہ شملہ معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں، کیونکہ اس معاہدے میں ایک فریق اقوام متحدہ شامل نہیں تھا۔ شملہ معاہدہ کی حیثیت پر طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد کشمیری قیادت کی طرف دیکھیں تو پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر اور بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر لداخ کے سیاسی رہنماؤں نے اس بیان پر بہت زیادہ مسرت کا اظہار کیا اور مسئلہ کشمیر کو دو مُلکوں کے درمیاں انسانی مسئلہ قرار دیکر حل کی طرف بڑھنا خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔

لیکن جب ہم گلگت بلتستان کی بات کریں تو یہاں ہمارا خطہ مکمل طور پر غائب نظر آتا ہے حالانکہ گلگت بلتستان کے عوام کا مہاراجہ کشمیر کی جانب الحاق بھارت کے نتیجے میں بغاوت اور اُس بنیاد پر قائم حکومت کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے گلگت لوکل اتھارٹی کا حکم، اور عمل نہ کرکے معاہدہ کراچی سے باندھنے کے بعد سے آج تک کی صورتحال میں، گلگت بلتستان سیاسی اور معاشی ترقی کے میدان میں مکمل طور نظرانداز نظر آتا ہے۔ اس خطے کے قومی تشخص کے سوال پر آج تک کسی نے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس خطے کی بطور پاکستانی، علاقے کے کوئی پہچان ہے اور نہ ہی اس خطے کو مکمل طور پر ریاست جموں کشمیر کی دیگر اکائیوں میں نافذ حقوق حاصل ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کا نکتہ نظر اور خواہشات اپنی جگہ، لیکن ریاست پاکستان گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں کشمیر کا باقاعدہ قانونی حصہ تسلیم کرتی ہے، اور بھارت بھی گلگت بلتستان پر ریاست جموں کشمیر کی ایک اہم اکائی کی حیثیت اور مہاراجہ کشمیر کی جانب سے الحاق کی بنیاد پر دعویدار ہے۔ اب اگر ٹرمپ پر ایمان لاتے ہوئے رائے شماری کی اُمید لگاتے ہیں تو اس وقت گلگت بلتستان کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ گلگت بلتستان اور لداخ، ریاست کی سب سے بڑی اکائی اور رقبہ والا خطہ ہے۔ لہٰذا رائے شماری کی صورت میں گلگت بلتستان اور لداخ کے عوام کا ووٹ جس بھی طرف پڑے گا فیصلہ اُن کے حق میں جائے گا۔

لیکن کشمیری قیادت جو گلگت بلتستان کو معاہدہ کراچی کے ساتھ باندھ کر اس خطے کو مکمل طور پر بھول گئی تھی، اُنہیں شائد اب احساس ہورہا ہے کہ گلگت بلتستان کی نئی نسل بیدار ہو چُکی ہے اور جب سے سوشل میڈیا آیا ہے، گلگت بلتستان کی نئی نسل میں احساس محرومی کا نوحہ لاوا بن کر پھٹنے کے قریب ہے۔ یہاں ایک طرف مقامی سطح پر مراعات یافتہ طبقے نے دہائیوں تک عوام کو یہی بتایا کہ گلگت بلتستان نے پاکستان کا مکمل صوبہ بننا ہے اور اس راہ میں کشمیری قیادت سب سے بڑی رکاوٹ ہے دوسری طرف پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر ریاستی موقف شروع دن سے یہی ہے کہ گلگت بلتستان بھی دیگر اکائیوں کی طرح ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے، لیکن اُس بنیاد پر حقوق دینے سے آج تک کتراتے رہے ہیں۔ محترم قارئین، مگر بدقسمتی سے متنازعہ حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان میں ریاست جموں کشمیر کا باشندہ ریاست قانون، اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی 1974ء سے خلاف ورزی شروع ہوئی جو آج ایک بیماری بن چُکی ہے، لیکن کسی کشمیری لیڈر یا پارٹی نے اس حوالے سے مؤثر انداز میں آواز بلند نہیں کیا۔ اسی طرح جو قوانین متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر آزاد کشمیر میں نافذ ہیں بالکل وہی حیثیت گلگت بلتستان کی بھی ہونے کے باوجود یہاں قانون کے نفاذ کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ اس حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ نے حقائق جاننے کیلئے اگست 2016 میں گلگت کا دورہ کی تھی۔ اپنی رپورٹ میں اُنہوں نےوفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان کے جمہوری فورمز کو مزید اختیارات دیں، مقامی لوگوں میں سے جج تعینات کرے اور یہاں کے آئی ڈی پیز کے مسائل حل کرے۔

اُنہوں نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر بھی شدید خدشات کا اظہار کیا تھا کہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی کسی سرکاری ادارے پر ذرا سی بھی تنقید کرے، ایجنسیاں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوراً گرفتار کر لیتی ہیں۔ اُنہوں نے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے اور سی پیک کے لئے گلگت بلتستان کی حکومت نے مبینہ طور پر مقامی شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں زبردستی گھروں سے نکالا ہے اور ان کی زمینیں ہتھیانے اور شہریوں کی زمینیں ریاستی اداروں کو الاٹ کرنے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ محترم قارئین یہ وہ خبریں ہے جو دو سال قبل بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی تھیں، لیکن زمینی حقائق اس سے بھی افسوناک ہیں۔ خطے میں ایک طرح سے بیوروکریسی اور دیگر قوتوں کا راج ہے، عوامی نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں، ایک ڈپٹی کمشنر ایک طرح سے پورے علاقے کا مالک ہوا کرتا ہے اور اس صورتحال میں جہاں معاشرتی انفراسٹرکچر کی بدحالی اپنی جگہ، وہیں بہتر سالہ محرومیوں کا ذکر ایک طرح سے سنگین جرائم کے زمرے میں آتا ہے جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ میرا یہ مضمون گلگت بلتستان کے اخبارات کیلئے ناقابل اشاعت ہے، اس سے ہم خطے میں آزادی صحافت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے گلگت بلتستان پر دعویدار کشمیری قیادت بالکل ہی لاتعلق نظر آتی ہے، لیکن اب اگر امریکی صدر مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے تو کشمیری قیادت کی نظریں ایک بار پھر گلگت بلتستان پر جم چُکی ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ گلگت بلتستان اور لداخ کے عوام آج بھی اُنکی تابعداری کریں جو کہ مشکل نظر آتا ہے۔

محترم قارئین، اگر ہم گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لداخ اور گلگت بلتستان کے لوگوں نے رنجیت سنگھ سے لیکر ہری سنگھ تک کی حکومت کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا، کیونکہ یہ حکومتیں جبر کی بنیاد پر قائم تھیں، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد گلگت بلتستان والوں نے موقع ملتے ہی کشمیر کے بادشاہ سے بغاوت کا اعلان کیا۔ لیکن آج چونکہ قوانین اُس بنیاد پر بن چُکے ہیں، پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ میں ریاست جموں کشمیر کے بادشاہ کے قوانین کو تسلیم کرکے اُسی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے روڈ میپ دیا ہوا ہے۔ ایسے میں دل نہ چاہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان آج بھی پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے، لیکن گلگت بلتستان کے شہری کشمیری بالکل بھی نہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بطور باشندہ ریاست کے حقوق حاصل نہ ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کو کشمیری تو کہتے ہیں لیکن اس خطے کے عوامی مسائل سےکوئی سروکارنظر نہیں آتا۔ اب اگر مسئلہ کشمیر حل کی طرف گامزن ہے تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی خوشی کا اظہار کرنا شروع کیا ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کی صورت میں جہاں گلگت بلتستان کی بہتر سالہ محرومیوں کے ازالے کی اُمید ہے، وہیں گلگت بلتستان کے عوام کو قومی پہچان مل سکتی ہے، جو آج تک منجمد ہے۔

ایسے میں سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کی پوسٹ کمنٹس اور یوتھ کے تندوتیز خدشات اور سوالات سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیر اگر گلگت بلتستان کو مستقبل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو گلگت بلتستان کے ساتھ عمرانی معاہدہ طے کرکے ریاست کے قانونی نام کی تبدیلی، وسائل اور اختیارات کی تقسیم کیلئے فارمولہ طے کرنا ہوگا، کیونکہ لفظ کشمیر صرف ایک وادی کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ ریاست کے اندر کئی قومیں آباد ہیں، جو اپنی الگ تاریخی شناخت اور اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح اگر گلگت بلتستان کے عوام کا ووٹ پاکستان کو جاتا ہے تو بھی الگ مکمل آئینی صوبے کیلئے عمرانی معاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ اس خطے کے عوام اپنی لاعلمی کی وجہ سے گشتہ دہائیوں سے صوبے کے منتظر ہیں، یہاں کے عوام آج بھی مسئلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت سے ناواقف نظر آتے ہیں، جس کی اصل وجہ آج تک کسی نے اُن کو یہ بتانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مقامی سطح پر جو لوگ اس حوالے سے تاریخی حقائق اور پاکستان کے ریاستی بیانئے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اُنکے ساتھ انتظامیہ کا رویہ اوپر بیان کرچُکا ہوں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کی محرومیوں کو سیاسی اور میڈیا کے پلیٹ فارم پر زیر بحث لائیں، اس خطے کی بہتر سالہ محرومیوں کا ازالہ کریں، ورنہ اس وقت نئی نسل کی فکر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبر 1947ء کو قائم سولہ دنوں پر مشتمل اپنی الگ جداگانہ حیثیت کا مطالبہ کریں گے۔
 
خبر کا کوڈ : 807773
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش