0
Wednesday 31 Jul 2019 21:42

قارونی سوچ اور اسکا انجام

قارونی سوچ اور اسکا انجام
تحریر: نادر بلوچ

لبوں پر قارون کا نام آتے ہی حرص، بخل، لالچ، تکبر جیسی خصلتیں انسان کے ذہن میں آنا شروع ہو جاتی ہیں، قارون ایک کردار کا نام ہے، جو اپنے مال، اسباب اور وسائل پر قابض ہوکر اسے انسانی شرف اور ترقی کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر ڈٹ جاتا ہے، قارون صرف دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے کا نام ہی نہیں بلکہ قارونیت ہر خزانے پر سانپ بن کر قفل ڈالنے کا نام ہے، قرآن مجید میں قارون کا ذکر موجود ہے، قارون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا یصہر کا بیٹا تھا، جو توریت کا بہت بڑا عالم اور بہت ہی ملنسار آدمی تھا، لیکن بےشمار دولت ہاتھ میں آتے ہی اس کی تمام عادتیں بگڑ گئیں اور وہ وقت کے نبی علیہ السلام کا سب سے مخالف بن گیا، توریت کا عالم ہونے کے باوجود وہ علم اس کے ہاتھ نہ آیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے زکواۃ دینے کا کہا، مگر وہ وعدہ کرکے مکر گیا اور آخر میں اسں نے ایک عورت کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بدکاری کا الزام لگوانے تک گریز نہ کیا، مگر اس عورت نے مجمع میں آکر گواہی دی کہ اسے قارون نے دولت کا لالچ دیکر اللہ کے نبی پر الزام لگانے کہا تھا۔

یوں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر قارون پر عذاب نازل کرنے کی دعا فرمائی، پوری بنی اسرائیل کی قوم قارون سے الگ ہوگئی تھی، ماسوائے دو لوگوں کے جو قارون کے ساتھ زمین میں دھنس کر اپنے انجام کو پہنچے۔ قارون ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے، جو کوئی بھی اسے اپنے سے مخصوص کرسکتا ہے، جیسے یزیدیت ایک کردار کا نام ہے، جو بھی وہ کردار اپنائے وہ عصر حاضر کا یزید کہلا سکتا ہے، اسی طرح قارون بھی ایک کردار کا نام ہے، ہمارا روزانہ مختلف قسم کے قارونوں سے واستہ پڑتا ہے، علم و ہنر پر ناگ بن کر بیٹھے افراد یہ سوچتے ہیں کہ اگر اس نے یہ علم و ہنر آگے کسی کو آسانی سے منتقل کر دیا تو اس کا کیا بنے گا؟، وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس کی زندگی صرف ہوئی اس علم و ہنر کو حاصل کرنے میں، وہ اتنی آسانی سے کیسے اسے منتقل کر دیں؟، یوں وہ علم و ہنر کے پیاسوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور کئی کئی سال تک انہیں علم و ہنر منتقل نہیں کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ علم اور ہنر اس دِیئے کی ماند ہے، جس کی لو سے جتنے دیئے روشن کرتے جائیں، اس کی لو کم نہیں ہوتی، چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور ان چراغوں کی روشنی کم ہونے کے بجائے پھیلتی جاتی ہے اور تاریکی دم توڑتی جاتی ہے، اسی لیے علم کو نور کہا گیا ہے، جس کی روشنی تاریک دلوں کو منور کر دیتی ہے۔ لیکن قارونیت کا شکار انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے یہ علم یا ہنر آگے منتقل کر دیا تو اس کے پاس روشنی ختم ہو جائیگی، ایک خوف ہر وقت اسے لاحق رہتا ہے، شائد اس کی وجہ اللہ پر توکل کا نہ ہونا ہے، یہ قارونی سوچ کا عکاس ہے، جس سے انسان کو ہر صورت بچنا چاہیئے، ورنہ دولت اور خزانے پر سانپ بننے والے قارون اور اُس میں کوئی فرق نہیں، وہ بھی اللہ کے عذاب کا شکار ہوکر اپنے انجام کو پہنچا تھا اور یہ بھی پہنچے گا، نہ ماضی کے قارون کی دولت انسانی ترقی اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوئی تھی، نہ ہی عصر حاصر کے قارون کا اثاثہ انسانوں کے کام آسکتا ہے، حتیٰ اس کے بھی کام نہیں آتا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس قسم کے کردار کے حامی ہیں، ایک طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کردار ہے اور دوسری جانب قارون کا سیاہ کردار،  فیصلہ خود ہمیں کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 808201
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش