1
0
Thursday 1 Aug 2019 00:23

مولانا فضل الرحمان کی حکومت مخالف تحریک اور مذہبی کارڈ

مولانا فضل الرحمان کی حکومت مخالف تحریک اور مذہبی کارڈ
رپورٹ: ایس اے زیدی

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا شمار ملک کی متنازعہ ترین دینی و سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے، آپ آنے والی ہر حکومت کیساتھ کسی نہ کسی طرح مربوط رہتے ہیں، بعض اوقات عوامی ایشوز اور ملک کے وسیع تر مفادات کو بنیاد بنا کر حکومت کو حکومت میں ہی رہ کر دھمکیاں دیتے بھی نظر آئے اور پھر در پردہ مطالبات منظور ہونے کی صورت میں دنیا نے لمحوں میں مولانا صاحب کے رویئے بھی بدلتے دیکھے۔ کبھی مولانا فضل الرحمان کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار کہا گیا تو کبھی بیرونی ممالک کی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی ان پر لگے، مولانا نے کبھی طالبان اور شدت پسندوں کو اپنا بچہ کہا تو کبھی انہی طالبان نے انہیں لبرل مولوی اور اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے ان پر خودکش حملے بھی کئے۔ مخالف فرقہ کے عوام و علماء نے مولانا فضل الرحمان کو فرقہ پرستی کی پوشیدہ علامت قرار دیا تو دوسری جانب مولانا اتحاد بین المسلمین کے علمبردار ہونے کے دعویدار بھی نظر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی شخصیت اس قسم کی الجھی ہوئی ہے کہ جسے سمجھنا کوئی آسان کام نہیں۔ مولانا صاحب ہر حکومت کیساتھ رہ کر اپنے لئے مراعات لینا بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں، ملکی سیاست کے داو پیچ میں مولانا اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی الیکشن کمپین میں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے بعد جس شخصیت کو اپنی تنقید کا سب سے زیادہ نشانہ بنایا، وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ دوسری جانب مولانا صاحب نے بھی خان صاحب کو یہودی ایجنٹ قرار دیکر خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ واضح رہے کہ ملک کے دونوں مذکورہ بالا علاقہ پسماندگی اور ناخواندگی کے اعتبار سے اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں مولانا فضل الرحمان کو وہ مقام نہیں مل سکا، جو ماضی میں حاصل کرتے آئے ہیں، مولانا بذات خود اس بار پارلیمنٹ کی دہلیز پار کرنے میں ناکام رہے اور ان کی جماعت بھی کوئی خاطر خواہ سیٹیں نہ لے سکی۔ دوسری جانب اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کی حکومت آنے کے بعد اقتدار کے مزے لینے کے خواب بھی ادھورے رہ گئے، یہ صورتحال مولانا صاحب کیلئے ناقابل برداشت تھی اور ان کا سیاسی کیریئر داو پر لگ چکا تھا۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر کرپشن کے الزامات اور جیل کے سلاخوں کے پیچھے جانے کے بعد مولانا نے ان دونوں جماعتوں کی نومولود قیادت کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کی بھی کوشش کی، تاہم کامیابی نہ ملی۔

اب مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے کمر کس لی ہے، گذشتہ دنوں انہوں نے پشاور میں اپوزیشن جماعتوں کی کم اور مدارس کے طللاب کی زیادہ حمایت سے احتجاجی جلسہ کیا، مولانا نے عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے اکتوبر میں طبل جنگ بجانے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملین مارچ کیا جائے گا۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام نے مولانا فضل الرحمان کی حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو حکومت کیخلاف تحریک کیلئے افغانستان سے مدد حاصل ہوگئی ہے، مولانا کے حکومت کیخلاف مارچ کیلئے وزیرستان میں کافی کام کیا جا رہا ہے، احتجاج پرامن نہیں ہوگا، افغانستان کے کچھ لوگ اس مقصد کیلئے کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام نے ملین مارچ کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے، کارکنان کو ملین مارچ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی ہدایت بھی کر دی گئی ہیں، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ملک بھر سے دو ہزار سے زیادہ افراد نے جمیعت علمائے اسلام کے اعلان کردہ ملین مارچ کے لیے تیس کروڑ روپے فراہم کرنے کا بھی وعدہ کر لیا ہے۔

مولانا کی اس تحریک میں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کتنا ساتھ دیں گی، اس حوالے سے تو فی الحال کوئی زیادہ توقع نہیں رکھی جاسکتی، کیونکہ این آر او اور بارگینگ کی باتیں اب حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھی ہونے لگی ہیں، ایسے میں پی پی اور نون لیگ اپنی زیر حراست قیادت کیلئے شائد مزید کوئی رسک لینے کو تیار نہ ہوں۔ اس صورتحال میں مولانا صاحب کے پاس عمران خان کی حکومت کیخلاف سب سے بڑا ہتھیار مذہب کارڈ ہے، جسے وہ ناموس رسالت (ص) کا رنگ دیکر استعمال کریں گے، اس کارڈ کی جھلک پشاور جلسہ میں بھی نظر آئی، جہاں اکثر بینرز اور پلے کارڈز پر عمران خان کی حکومت کی بجائے ناموس رسالت (ص) جیسے حساس مسئلہ کے عنوان سے نعرے درج تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور سمیت مختلف قریبی شہروں سے گاڑیاں بھر بھر کر مدارس کے چھوٹے چھوٹے طلباء کو اکٹھا کیا گیا، پشاور جلسہ کے ایک عینی شاہد محمد رضوان نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ ان بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھمائے گئے تھے اور بعض مولوی حضرات کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ وہ انہیں گائیڈ کریں کہ کب نعرے لگانے ہیں، کب جھنڈے لہرانے ہیں، کب کھڑا ہونا ہے اور کب بیٹھنا ہے۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کیخلاف اکتوبر میں میلن مارچ کیا تو ملک بھر کے ان کے ہم مسلک مدارس کے طلباء کی ایک بڑی تعداد اس ملین مارچ کا حصہ ہوگی، جسے مذہب کے نام پر سڑکوں پر لایا جائے گا۔ سیاسی اصولوں، اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر شرعی حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا کی یہ روش انتہائی منفی ہے، سیاست میں جھوٹ کا سہارا لینا اور مخالف کو گرانے کیلئے مذہبی کارڈ استعمال کرنا افسوسناک ہے۔ حکومت کیخلاف احتجاج کرنا اور اپنا موقف بیان کرنا مولانا فضل الرحمان کا آئینی و قانونی حق ہے، تاہم مولانا اپنے اس حق کی حق تلفی کرتے نظر آرہے ہیں، جبکہ دوسری جانب عارف حمید بھٹی کا مذکورہ بالا تجزیہ اس صورتحال میں اہمیت اختیار کرتا نظر آتا ہے، اگر اس دعوے میں حقیقت ہے تو یہ اقدام نہ صرف عمران خان کی حکومت بلکہ ملکی سالمیت کے حوالے سے پریشان کن ہے، جس پر حکومت اور ریاستی اداروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس حوالے سے حقائق منظر عام پر آنے چاہئیں کہ آیا مولانا فضل الرحمان کو کوئی بیرونی سپورٹ حاصل ہے یا نہیں اور اگر سپورٹ ہے تو اس کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہیں۔
خبر کا کوڈ : 808227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اسکول کالج کے لڑکے لڑکیاں اگر سیاسی جلسوں میں شرکت کریں تو کوئی اعتراض نہیں هوتا بلکه فخر کیا جاتا ہے!!! اور اگر مدراس دینیه کے نوجوان طلبه جلسے جلوسوں میں شرکت کریں تو اس پر پر اعتراض کیوں؟!!! کچھ دن پہلے قادری اور نیازی نے اسلام آباد دهرنا میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو لا کر رقص و ڈانس کی محفلیں سجائیں۔۔۔۔ اور تین چار مهینه تک خواتین، بچیوں اور لڑکے لڑکیوں کے ہمراہ دهرنا دیا اور پارلیمنٹ کی دیواروں پر هر قسم کے کپڑے لٹکاۓ، اس پر زیدی صاحب جیسے کالم نگار کہاں تھے اور کیوں اعتراض نه کیا؟!! اس مسلمان ملک میں صرف دینی طبقه کی سیاسی فعالیت پر اعتراض، پابندی اور قدغن کیوں؟!!! اس انتقامی احتساب کے دور میں بهی مولانا اور مذهبی سیاسی کسی ایک راهنما پر بهی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، مولانا بقول آپ کے هر حکومت کا حصه رهے، لیکن نه خیانت کی اور نه کوئی خرد برد اور نه قانون کو ہاتھ میں لیا جبکه لبرل سیاسی راهنمائوں اور جرنیلوں نے ملک توڑا، قانون توڑا، آمریت لگائی، کرپشن اور خیانت کی.....!!! لهذا لکهنے سے پہلے ذرا غور و فکر کریں۔
ہماری پیشکش