5
1
Saturday 3 Aug 2019 08:43

شہید حسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(2)

شہید حسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

یہ ایک منطقی سوال ہے کہ پاکستان کے دور دراز علاقے پارہ چنار کے دور افتادہ گاؤں پیواڑ میں پیدا ہونے والے عارف الحسینی کے قلب و ذہن میں تشیع کی اجتماعی صورتحال کو بہتر بنانے کا نظریہ اور سوچ کیسے پروان چڑھی۔ آج انقلاب کو چالیس برس بیت چکے ہیں اور ایران کے اسلامی انقلاب نے عالم تشیع کی حقانیت کو دنیا بھر سے منوا لیا ہے۔ اس کے باوجود منبر و محراب پر براجمان اکثر خطباء و علماء کو امت مسلمہ اور ملت تشیع کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں اور وہ قوم کو سطحی اور معمولی نوعیت کے اختلافات میں الجھا کر سستی شہرت کے حصول کے ساتھ ساتھ مادی مفادات سمیٹ رہے ہیں۔ نجف و قم میں زمانہ طالب علمی میں ملت تشیع کے لئے سوچ و فکر کرنا اور ملت مظلومہ کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا بلاشبہ خدائی عطا تھی۔ البتہ قرآن و حدیث سے بھی یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ دین کے علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اجتماعی ذمہ داریوں کا شعور بھی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ایک حقیقی طالب علم اور مکتب امام صادق کا سچا پیروکار تحصیل علم کے بعد گوشہ نشینی اور غیر جانبداری کے اندھیروں میں گم نہیں ہوسکتا۔

علم نور ہے اور نور کا کام اندھیروں کا خاتمہ اور اجالوں کو رواج دینا ہوتا ہے۔ علم کا نور ہدایت کے چراغوں کو روش کرکے معاشرے سے جہالتوں کی تاریکیوں کو ختم کرتا ہے۔ علم دین کا طالب علم اگر رشد و ہدایت اور تبلیغ دین سے بے بہرہ ہو تو وہ اور تو سب کچھ ہوسکتا ہے، علم دین کا طالب علم نہیں ہوسکتا۔ شہید علامہ عارف الحسینی بھی چونکہ دین اسلام کے حقیقی طالب علم تھے، لہٰذا انہوں نے ہمیشہ انفرادی تزکیہ کے ساتھ ساتھ اجتماعی رشد و ہدایت کے سلسلے کو بھی جاری و ساری رکھا۔ دیکھا گیا ہے کہ کچھ افراد اس وقت اجتماعی زندگی میں سرگرم عمل ہوتے ہیں، جب ان کو کوئی منصب یا عہدہ ملتا ہے، لیکن دین مبین اسلام کا حقیقی عالم دین کسی دعوت کا انتظار نہیں کرتا، وہ اپنے فریضے کا ادراک کرکے اس پر عمل درآمد کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ علامہ عارف الحسینی نے بھی اسی روش کو اپنایا اور اسلامی انقلاب کے تازہ طلوع ہونے والے خورشید کی کرنوں سے اپنے ملک و قوم کو منور کرنے کا عزم بالجزم کیا۔

قیادت سے پہلے کی شہید کی سرگرمیوں کا ہم نے ہلکا سا اشارہ کیا تھا، یہاں پر شاید اس بات کا ذکر بھی مناسب ہو کہ شہید عارف الحسینی نے اپنی تحقیقاتی ٹیم کو جو امور سونپے تھے، ان میں ایران کے تعلیمی اداروں کے نصاب کا مکمل اردو ترجمہ اور نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کے باقاعدہ کورس کی تیاری بھی شامل تھی۔ شہید کی ٹیم میں شامل ایک فعال فرد کے بقول شہید کی قیادت سے پہلے ہی ایران کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے کورس ترجمہ کر لیا گیا تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آنے والے نوجوانوں کے گروہ کے لئے ایک مکمل تربیتی پروگرام اور اس میں پڑھائے جانے والے کورس کو بھی حتمی شکل دے دی گئی تھی۔ کراچی میں فعال "الجہاد" نامی انقلابی گروہ جس میں علماء، پروفیسر، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء شامل تھے، شہید عارف الحسینی سے قیادت سے پہلے مربوط تھے۔

"الجہاد" جس کا قیادت کے بعد شہید عارف الحسینی نے نام تبدیل کرکے غالباً "ادارہ تبلیغات اسلامی" رکھ دیا تھا، ایک وفد لے کر زیارات کے لئے ایران کے دورے پر آئے تو شہید عارف الحسینی کی ٹیم نے ان کے لئے زیارات کے ساتھ ساتھ ایک مکمل نظریاتی اور تربیتی پروگرام ترتیب دیا تھا، شہید حسینی کے ذکر کے اس موقع پر "الجہاد" کے بانی افراد منجملہ مرحوم محمد علی راشدی اور پروفیسر عیسٰی نقوی کی خدمات کو نہ سراہنا ناشکری ہوگی۔ الجہاد کراچی کے ان گمنام مجاہدین نے انقلاب کے فوراً بعد اسلامی انقلاب کو پاکستان میں متعارف کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ الجہاد کے یہ گمنام سپاہی انقلابی سرگرمیوں میں سب سے آگے رہتے، لیکن انہوں نے کبھی نام و نمود یا اپنی تنظیم کی شہرت کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ وہ تمام نظریاتی تنظیموں کا ساتھ دیتے اور حتیٰ خود جو امور انجام دیتے، اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش نہ کرتے۔ (الجہاد کے بانی اراکین میں سے کسی فرد کو اس تنظیم کے عروج و زوال پر ضرور لکھنا چاہیئے)

شہید عارف الحسینی نے قیادت سے پہلے تشیع میں نوجوانوں کی تربیت کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ آپ نوجوان انقلابی علماء کو بھی ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے کوشاں رہتے۔ شہید عارف الحسینی بہت سے امور میں خود سامنے نہ آتے، لیکن ان کی ٹیم مکمل دلجمعی کے ساتھ ساتھ شہید حسینی کے ویژن اور حکمت عملی کے ساتھ اپنے امور کو انجام دیتی رہتی۔ شہید حسینی قیادت سے پہلے نہ صرف قم میں سرگرم رہتے بلکہ پاکستان بالخصوص پارہ چنار میں ان کی دینی اور مذہبی سرگرمیاں جاری رہتیں، اس حوالے سے قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین کا تاریخی دورہ پارہ چنار ہے، جس میں شہید عارف الحسینی ان کے دوش بدوش مختلف عوامی پروگراموں میں نظر آتے ہیں۔ اس دورے کی کئی تصاویر بھی موجود ہیں، جس میں شہید عارف الحسینی مفتی جعفر حسین کے شانہ بشانہ پارہ چنار کے مختلف علاقوں میں جا کر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔ پارہ چنار کے معروضی حالات اور اس علاقے کی تشیع کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بھی آپ کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں تھیں، یہاں تک کہ آپ کو اپنے مطالبات منوانے  کے لئے کئی دن جیل میں بھی گزارنے پڑے۔

ایک دور وہ تھا، جب قیادت کو سنگین ذمہ داری سمجھا جاتا تھا، لہٰذا اس کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا تھا، ہمارے علماء نماز جماعت کی امامت کرانے میں بھی بعض اوقات احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں مامون حضرات کی نمازوں کی ذمہ داری بھی ان پر نہ آن پڑے۔ شہید حسینی کا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد قم اور پارہ چنار آنا جانا رہتا تھا، وہ اجتماعی امور کی بلواسطہ نگرانی بھی کرتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ٹیم یا گروپ کا قائد بنا کر پیش نہیں کیا، وہ کام پر یقین رکھتے تھے، نام سے پرہیز کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ علامہ عارف حسین الحسینی نے قم اور تہران میں جو دفتر اور منصوبہ بندی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ اپنی ذات یا قائد بننے کے لئے ہے۔ ریاکاری، جاہ طلبی اور قیادت کے مرتبے پر فائز ہونے کا خیال شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ وہ یہ سارا کام اپنا الہیٰ فریضہ سمجھتے ہوئے قوم و ملت کے لئے انجام دے رہے تھے اور یوں بھی اس وقت علامہ مفتی جعفر حسین زندہ تھے۔

ہم جو یہ کہتے ہیں کہ وہ قیادت کی تیاری کر رہے تھے تو اس سے موجودہ دور کی قیادتوں کا تصور سامنے آجاتا ہے، لہٰذا یہ دعویٰ منفی اور ناقابل قبول نظر آتا ہے کہ وہ قائد بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ البتہ اس بات کو یوں سمجھا جائے کہ وہ قیادت کے لئے تمام ممکنہ وسائل فراہم کر رہے تھے۔ حقیقی قائد وہی ہوتا ہے، جو اپنی قوم کو ایک آئیڈیالوجی، ویژن، حکمت عملی اور منصوبہ بندی دے۔ شہید حسینی نے اس کام کو قیادت سے پہلے ہی شروع کر رکھا تھا، وہ عوام بالخصوص نوجوان نسل کی تربیت اور تنظیمی کیڈر تشکیل دے کر پاکستان میں اسلامی تحریک کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ شہید حسینی سے پہلے کسی اور شخص نے قم میں رہ کر اس طرح کی منصوبہ بندی کا سوچا بھی نہیں تھا۔ قم کے علماء کی اکثریت ماضی میں اور آج بھی پاکستان میں ایک بڑا دینی مدرسہ بنانے کا خواب دیکھتی ہے اور ان کا ھم و غم تقریباً یہی ہوتا ہے۔

جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ جب سے پاکستان میں قائدین کی تعداد بڑھی ہے، اب بعض طلباء کے ذہن میں ایک بڑے مدرسے کے ساتھ ساتھ ایک نئی تنظیم بنانے کا خیال بھی پرورش پانا شروع ہو جاتا ہے، تاکہ پاکستان میں نئی تنظیم بنا کر قائد و رہبر کی صورت میں دینی فریضہ ادا کیا جائے۔ شہید حسینی کو جب 1984ء میں بھکر میں قائد ملت جعفریہ بنایا گیا تو خود ان کے بقول ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں قائد بنا دیا جائیگا۔ شہید حسینی کی ملتان میں ایک تقریر اس کی گواہ ہے، اتفاق سے اس تقریر کی ایک ویڈیو فلم بھی میسر ہے۔ مجھے جب تک شہید عارف الحسینی کی قیادت سے پہلے کی قم کی سرگرمیوں کی اطلاعات نہیں تھیں، مجھے ان کی قیادت اور مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کی طرف سے ان کا نام قائد کے طور پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی سپریم کونسل میں پیش کرنا ایک اتفاق یا دوسرے لفظوں میں معجزہ نظر آتا تھا۔

لیکن جب میں نے قم میں ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیوں کا سرسری مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مولانا صفدر حسین مرحوم کو شہید حسینی اور ان کے رفقاء کار کی دینی و مذہبی سرگرمیوں کا کسی حد تک علم تھا، لہٰذا انہوں نے شہید قائد کا نام قیادت کے لئے پیش کیا کہ یہ لوگ پہلے سے پاکستانی تشیع کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں، لہذا یہ بہتر انداز سے قومی امور کو اسلامی انقلاب سے ہم آہنگ ہوکر آگے بڑھا سکتے ہیں۔ قیادت کے لئے شہید عارف الحسینی کا نام پیش کرنے کے حوالے سے ملت تشیع کی فعال اور انتھک شخصیت مرحوم وزارت نقوی کا نام سامنے آتا ہے، اسی طرح اس بات کو بھی سب قبول کرتے ہیں کہ قائد بنانے میں سب سے بنیادی کردار مولانا صفدر حسین مرحوم کا ہے۔ احساسات و جذبات سے ہٹ کر کیا مرحوم وزارت نقوی یا علامہ صفدر حسین نجفی جیسی جہاندیدہ شخصیات سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بغیر کسی آگاہی اور ملاقات کے ایک غیر معروف فرد کو ملت تشیع کا قائد بنا دیں، وہ بھی ایسی صورت حال میں جب تشیع اسلام آباد کنونشن میں اپنی طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرچکی ہے اور ضیاء آمریت پاکستان کے بزرگ اور معروف علماء کو اعتماد میں لئے بغیر ایک قائد ملت جعفریہ راولپنڈی میں بنا چکی تھی۔
خبر کا کوڈ : 808661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ماشاء اللہ راشد بھائی انتہائی مفید اور تاریخی سیر پر مشتمل آرٹیکل ہے، تاریخ کی قلمبندی میں بھی مفید رہے گا۔ ایسے موضوعات کو جاری رکھیں اور اس موضوع کو بھی مکمل کریں۔
با عرض معذرت راشد صاحب: آپ کے کالم میں جہاں بہت سی معلومات ہیں، وہیں بعض مقامات پر کلمه حق یراد بها الباطل ہے، آپ نے پهر بهی نہیں بتایا که تهران یا قم شهید کا قیادت سے قبل کہاں دفتر تها اور اسکی ٹیم کے افراد کون تهے؟! ایرانی اسکول اور یونیورسٹیز کے کورس کی کتب کا جو شهید نے ترجمه کرایا، وه کہاں دستیاب ہے اور کس ناشر نے چھاپ کیا تھا جبکه انقلاب کے چالیس سال گزرنے کے باوجود اب تک بهی بقول خود ایرانی علماء کے اسکول کالج کا نصاب اب بهی اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کے مطابق نه تو نافذ هوا ہے اور نه ہی تدوین هوا ہے اور ان کا تعلیمی کورس فرانس کے مطابق چل رہا ہے، جیسا که همارا پاکستان میں برطانیہ کے مطابق!!! باقی رها یه که شهید عالم بزمانه تهے اس میں کوئی شک نہیں اور امام صادق کا هر حقیقی شاگرد عالم بزمانه هوتا ہے اور اسکی شرایط میں سے ایک اهم شرط یہی ہے اور تاریخ گواه ہے که شیخ صدوق، مفید، طوسی، حلی، شهید اول و ثانی و مجلسی سے لیکر امام خمینی، امام خامنه ای، شهید صدر، خوئی، موسی صدر، حسن نصر الله، صفدر نجفی، شهید حسینی، شیخ محسن و سید ساجد نقوی تک مدارس دینیه کے طلباء ساده زندگی بسر کرنے کے ساتھ حالات و شرایط زمان سے مکمل آگاه رہے ہیں اور حالات کا مقابله شرایط زمانی و مکانی کے مطابق کیا ہے اور یه طالب علم قیادت و رهبری کے پیچھے نہ تھے بلکہ قیادت ان کے پیچھے تھی اور یه جو آپ نے کہا کہ آج کے طلبه تنظیم بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں، متاسفانه یه سوچ بهی اچهی یا بری خود تنظیم، پاکستانی اداروں ۔۔۔ سے نکل کر طلبه بننے والوں میں ہے اور آپ اور آپ جیسے تنظیمی افراد نے اپنی مرضی کا عالم بنانے کے لیے جن افراد کو مدارس اور حوزه میں داخل کرایا، تاکه یه افراد عمامه... پہن کر آپ لوگوں کی خواهش کے مطابق فعالیت کریں اور اس قسم کے طلبه تهذیب نفس کیے بغیر اور مقدمات پڑھے بغیر عمامه سر پر رکھ لیتے ہیں اور خود لیڈر ببنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ آخر میں پهر معذرت خواه ہوں، هدف جسارت نہیں بلکه طلبگی مباحثه ہے، اگر فرصت ملی تو کسی نسشت میں اس بارے تفصیلی بات ہوگی۔ اسلام ٹائم کا بهی شکریه.
اگر سید وزارت حسین نقوی اور علامه سید صفدر حسین نجفی کی شهید قائد کے بارے بصیرت پر آپ کو اس قدر اعتماد ہے تو علامه سید ساجد نقوی کو بهی تو علامه سید صفدر نجفی اور سید وزارت حسین نقوی ہی نے انتخاب کیا تها اور یه دونوں آخر دم تک موجوده قیادت کے ساتھ وفادر رہے اور سید وازت نقوی صاحب تو ابهی تازه مرحوم هوئے ہیں اور آخر تک وه علامه سید ساجد نقوی کے نه فقط حامی تهے بلکه عهده دار بهی تهے تو آپ حضرات کس بنا پر موجوده قیادت کی مخالفت پر کمر بسته هوۓ ہیں اور قوم میں انتشار کا باعث۔؟!!!
Iran, Islamic Republic of
آپ مصنف کی تحریر سے زیادہ ان کی ذات سے اختلاف رکھتے ہیں، لہذا اس تبصرے نے آپکی مخالفت کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے۔ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے لیکن اگر ذہن پر تعصب کا غلبہ ہو تو علمی مباحثہ ممکن نہیں ہوتا۔ بہرحال راشد صاحب کو آپکے منطقی سوالات کا (اگر ہیں) ضرور جواب دینا چاہیئے۔
Iran, Islamic Republic of
تجزیئے کی بجائے آپ نے اپنی خواہشات کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ شہید حسینی اور علامہ ساجد کو مولانا صفدر یا وزارت نقوی نے نہیں تحریک کی سپریم کونسل نے قائد چنا تھا۔ جن لوگوں نے علامہ ساجد سے اختلاف کیا تھا، وہ انکے انتخاب سے مربوط نہیں بلکہ اسکی وجہ کچھ ایسی ناقابل بیان حقیقتیں تھیں، جو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔
منتخب
ہماری پیشکش