QR CodeQR Code

جنوبی یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتے اختلافات

3 Aug 2019 21:20

اسلام ٹائمز: اگرچہ ابوظہبی اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس نے یمن میں پسماندگی ریاض کو اعتماد میں لے کر اختیار کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ اقدام سعودی عرب کے فائدے میں نہیں ہے۔


تحریر: علی احمدی

گذشتہ چند ماہ سے یمن میں طاقت کا توازن صنعا کے حق میں بھاری ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سعودی عرب اپنے اتحادی ممالک پر اپنی مرضی کے فیصلے نہیں تھونپ سکتا جس کے نتیجے میں ہم سعودی عرب کے اصلی اتحادی متحدہ عرب امارات کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات یمن سے اپنے فوجیوں کے جزوی انخلا کے اعلان کے بعد اب اپنے اس فیصلے کے ثمرات تیزی سے حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات یمن کے مغربی اور جنوبی ساحلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اب بھی یمن کے خلاف فوجی جارحیت جاری رکھنے پر مصر دکھائی دیتا ہے لہذا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے اتحادی کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ متحدہ عرب امارات یمن کے شمالی اور مغربی علاقوں سے پیچھے ہٹنے کے بعد اپنی نئی حکمت عملی لاگو کرنے کیلئے بہت جلدی میں نظر آتا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے تحت متحدہ عرب امارات فوجی طریقہ کار ترک کر کے سیاسی طریقہ کار اختیار کرے گا۔
 
اگرچہ ابوظہبی اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس نے یمن میں پسماندگی ریاض کو اعتماد میں لے کر اختیار کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ اقدام سعودی عرب کے فائدے میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ فیصلہ سعودی عرب کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ سعودی عرب بری طرح یمن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ سعودی حکام نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمن سے پیچھے ہٹنے پر مبنی یکطرفہ اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور یمن میں طاقت کا توازن صنعا کے حق میں بھاری ہونے کے باعث سعودی عرب شدید مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ لہذا سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کی خالی جگہ پر کرنے کیلئے عدن میں بڑے پیمانے پر سپاہی بھرتی کرنا شروع کر دیے ہیں۔ سعودی عرب اس علاقے میں نئے فوجی اڈے تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ابتدا میں دو فوجی اڈے تعمیر کئے جائیں گے جن میں سے ایک عدن کے مشرق میں العریش کے علاقے جبکہ دوسرا عدن کے مغرب میں واقع صلاح الدین کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔
 
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی حکام کیلئے کڑی آزمائش کا آغاز ہو چکا ہے۔ ابوظہبی کے ولیعہد کے مشیر عبدالخلیق عبداللہ نے ٹویٹر پر ایک سنسنی خیز پیغام جاری کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: "آج کے بعد کسی قسم کا کوئی اتحاد نہیں پایا جاتا۔" یہ موقف سعودی عرب کے حمایت یافتہ سابق یمنی حکمرانوں کی شدید ناراضگی اور غصے کا بھی باعث بنا ہے۔ سعودی حکمران ہر قیمت پر یمن کے خلاف فوجی جارحیت جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی طاقت کے زور پر یمنی فورسز کو جھکایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات خلیج عدن اور آبنائے باب المندب کے ساحلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ متحدہ عرب امارات یمن میں اپنے مطلوبہ اہداف مقامی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل کرنا چاہتا ہے جو درحقیقت اس کیلئے پراکسی وار انجام دیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات انصاراللہ یمن سے بھی مذاکرات کے ذریعے سیاسی ڈیل انجام دینے کی کوشش کرے گا۔ متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش نے کہا ہے: "حوثی متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کو یمن میں خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے مناسب راہ حل تک پہنچنے کیلئے اعتماد سازی کی کوشش سمجھیں۔"
 
اس وقت یمن کے جنوبی صوبوں میں متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ ملیشیا 90 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے جبکہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے اور مزید بڑھانے کیلئے ان کی تعداد 1 لاکھ 20 ہزار تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں اپنی حمایت یافتہ فورسز کو دو بریگیڈز میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ یمن میں متحدہ عرب امارات کے تیزی سے اٹھتے قدم سیاسی عمل کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن اس کی نئی حکمت عملی کے راستے میں شدید رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ متحدہ عرب امارات کو شمالی یمن میں موجود سیاسی قوتوں اور سعودی حکام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ سعودی عرب بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی یمن میں متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط بنانے کی کوشش کرے گا۔


خبر کا کوڈ: 808722

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/808722/جنوبی-یمن-میں-سعودی-عرب-اور-متحدہ-امارات-بڑھتے-اختلافات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org