5
0
Monday 5 Aug 2019 06:41

شہید علامہ عارف الحسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(3)

شہید علامہ عارف الحسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(3)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

آج شہید کی شہادت پر لکھنے کو دل کر رہا تھا لیکن جس موضوع کو چھیڑ بیٹھا ہوں، اسے نامکمل چھوڑنا مناسب نہیں، کیونکہ دوستوں کی ایک بڑی تعداد تعریف و تنقید کے پھول برسا رہی ہے، لہذا شہادت کے موضوع کو اگلی کسی قسط پر چھوڑتا ہوں۔ البتہ پانچ اگست کی رات ہمیشہ پرانے زخموں کو تازہ کر دیتی ہے۔ شہید اور شہید کے ہم سفر مرحوم اور زندہ دوستوں کی تصاویر ایک فلم کی طرف ذہن مین چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر سال جب یہ یاد زیادہ تڑپاتی ہے تو پرنم آنکھوں سے قلم لے کر کاغذ پر ٹوٹے پھوٹے الفاط میں اپنے احساسات و جذبات کو تحریر کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ خدا کرے کہ اس سال بھی کوئی قابل استفادہ تحریر لکھنے میں کامیاب ہو جائوں۔ قیادت سے پہلے کی شہید حسینی کی زندگی پر جب قلم اٹھایا تو پہلے مرحلے میں ذاتی یاداشتوں سے استفادہ کیا، لیکن بعد میں شہید کی قیادت سے پہلے اور بعد کی ٹیم کے ایک دو افراد سے بھی کچھ معلومات حاصل کیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں ایک بین الاقوامی ادارہ "نہضت ہای آزادی بخش" یعنی "آزادی پسندوں کی تحریکیں" تشکیل پایا، اس میں تقریباً ان تمام ممالک کے افراد شامل تھے، جہاں اسلامی تحریکیں کمزور یا مضبوط وجود رکھتی تھیں۔ ان ممالک کی تنظیموں کو منظم کرنے کے لیے تہران میں ایک بہت بڑی عمارت لی گئی اور اس میں ان تنظیموں کے الگ الگ دفاتر بنائے گئے، ان دفاتر میں ایک دفتر پاکستان کا بھی تھا، جس میں شہید حسینی کی ٹیم کا ایک فرد آفس انچارج کی حیثیت سے مستقل رہتا تھا جبکہ قم و تہران سے مختلف افراد اس دفتر میں اپنی تنظیمی سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ جن چند کاموں کا میں نے گذشتہ کالموں میں ذکر کیا، ان میں اکثر امور اس دفتر یا قم کے مدرسہ رسالت میں انجام پاتے تھے۔ انقلاب کی جن بڑی شخصیات سے شہید حسینی کے تعلقات تھے، ان میں آیت اللہ شہید مطہری اور شہید بہشتی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جن سے شہید حسینی نے علمی کے ساتھ ساتھ تنظیمی استفادہ بھی کیا۔ یہ موضوع اپنی جگہ پر کافی اہم ہے، اس کو بھی تاریخ کا حصہ بننا چاہیئے۔

شہید حسینی کے ایک قریبی ساتھی کے بقول شہید حسینی نے قم میں وفاق علماء شیعہ نامی علماء کی تنظیم بنانے میں سرگرم کردار ادا کیا تھا، لیکن بعد میں کچھ اختلافات باہمی دوری کا باعث بنے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جب پاکستان میں شہید عارف الحسینی کا قائد کی حیثیت سے انتخاب ہوا تو قم میں سینیئر طلاب میں گومگو کی حالت تھی، یہی وجہ ہے کہ جب وفاق العلماء شیعہ قم کی طرف سے اجتماع منعقد ہوا تو کئی طلباء کو اس  بات کا علم نہیں تھا کہ یہ جلسہ علامہ عارف الحسینی کی حمایت میں ہوگا یا مخالفت میں۔ دورغ بر گردن راوی کی مخصوص اصطلاح و ترکیب کا سہارا لیتے ہوئے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ اس اجتماع میں شرکت کرنے والے مدرسہ رسالت کے اس وقت کے ایک طالبعلم نے مجھے خود بتایا تھا کہ جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علامہ حسینی کو قائد بنا دیا گیا ہے تو مدرسہ رسالت کے روح روان اور شہید عارف الحسینی کے انتہائی قریبی ساتھی علامہ جواد ہادی نے آہ بھر کر کہا کہ یہ کام بہت جلد ہوگیا، کاش قدرے تاخیر سے ہوتا۔

بہرحال مدرسہ رسالت کے اس سابق طالبعلم کے مطابق مدرسہ رسالت کے چند طلباء نے خفیہ میٹنگ کی اور آپس میں عہد کیا کہ اگر یہ جلسہ قائد کی مخالفت میں ہوا تو ہم اس جلسے کو نہیں ہونے دیں گے اور جونہی اس اجتماع میں علامہ عارف حسین الحسینی کی مخالفت کا اعلان ہوگا تو ہم شور شرابا کرکے جلسہ خراب کر دیں گے۔ قم کے طلباء کے اس جلسے میں جو غالباً وفاق علماء شیعہ کے پلیٹ فارم سے ہو رہا تھا، علامہ عارف حسین الحسینی کی مکمل تائید کا اعلان کیا گیا اور طلباء ایک ممکنہ انتشار سے محفوظ رہے۔ اس جلسے کی روداد سناتے ہوئے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جلسے کے طے شدہ مقررین میں کسی کو علامہ عارف الحسینی کے بارے میں اتنی معلومات نہ تھیں کہ وہ اس پر روشنی ڈالتے، لہذا علامہ جواد ہادی نے شہید عارف الحسینی کا مفصل تعارف کرایا۔

میں جو موقف لے کر آگے بڑھ رہا ہوں، وہ یہ تھا کہ شہید عارف حسین الحسینی اتنی گمنام شخصیت نہ تھے کہ نجف و قم کے بزرگ علماء ان سے متعارف نہ ہوں، البتہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے بعد بزرگ علماء کی موجودگی میں ان کا قائد بننا ضرور اچھنبے کی بات تھی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بھکر کے جس اجتماع میں شہید عارف الحسینی کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی سپریم کونسل نے قائد منتخب کیا، اس کے بعض اراکین نئی عبا اور نیا عمامہ پہن کر آئے تھے کہ قیادت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آجائے گی۔ بھکر کنونشن میں آپ کی قیادت کے اعلان کے ساتھ بعض شرکاء نے کسی اور عالم دین کا نام بھی سامنے لانے کی کوشش کی، لیکن آئی ایس او کے نوجوانوں نے ایسے جوش و جذبے سے شہید حسینی کے نام کے نعرے بلند کیے کہ کمزور آوازیں جوانوں کے نعروں کی گونج میں گم ہوگئیں۔ آج کی قسط کا اختتام اس پر کرتا ہوں کہ شہید عارف الحسینی نے قیادت کو باقاعدہ قبول کرنے سے پہلے قصر زینب میں شریک تمام علماء سے حضرت زینب کی ضریح کی شبیہ پر ہاتھ رکھ کر عہد لیا تھا کہ تمام علماء اس عظیم اور دشوار ذمہ داری میں ان کا ساتھ دیں گے۔ جن علماء نے بعد میں عہد کرنے کے باوجود ایفائے عہد نہیں کیا، اگر انہوں نے ابھی تک توبہ نہیں کی تو اس پانچ اگست کے دن یہ اقدام ضرور انجام دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 808946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید عدنان
Germany
جزاک اللہ۔ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ خصوصاً شھید حسینی کی قیادت سے پہلے کی فعالیت پہلی دفعہ منظر عام پر آئی ہے۔
اپنے انقلابی اور ابوذرانہ انداز کو جاری رکھیں، تنقید و طنز کے نشتر قابل اعتناء ناں سمجھیں۔ نظریات کی بجائے شخصیات کی محبت میں گرفتار افراد کے لئے حقائق اکثر اوقات قابل تحمل نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے شور مچاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کا بھی شکریہ جس نے حقائق سے بھرپور تحریر کو پلیٹ فارم دیا۔
ادراه نهضت های آزادی بخش میں خود شهید کی کیا ذمه داری تهی؟! اور وه فرد کون تها، جس کو شهید نے معرفی کیا تها اس اداره میں؟!!! شهید کی ٹیم کتنے افراد پر مشتمل تهی؟!! قم میں مدرسه رسالت کب تاسیس هوا اور اس کا موسس کون تها؟!!! مولانا جوادی هادی تو شهید کے خود علاقه سے تھے اور شهید کا شاگرد تها بقول خود ان کے!!! آپ ایک طرف سے دعویٰ کرتے ہیں که شهید خود کو قیادت کے لیے آماده کر رہے تھے، ٹیم اور دفتر قم تهران بنا رکها تها اور حتی وفاق علماء شیعه کی تاسیس میں شهید کا اساسی کردار تها تو دوسری طرف لکهتے ہیں کہ شهید جب قائد بنے تو شهید کو قم کے طلبه کے درمیان کوئی جانتا تک نه تها اور شهید کا تعارف مولانا جواد هادی «شهید کے شاگرد» نے کرایا؟!!! یه کیسی اجتماعی سیاسی شخصیت تهی، جس کو اسکے شاگرد کے علاوه کوئی جانتا تک نه تها؟!! خود کو معلوم ہے کیا لکھ رہے ہو؟!!! ایک تحریر میں اس قدر تضادات اور بدون دلیل و سند دعوے اور مبالغه آرائی!! کاش شهید کی محبت کا دم بهرنے والے بهی حضرت امام خمینی رحمۃ الله علیه کے اداره نشر آثار کی طرح ایک ادراه قائم کرتے، تاکه جهوٹی، من گهڑت اور سچی بات کی پرکھ هوتی۔
Iran, Islamic Republic of
NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW NEW
شھید قائد کی 31 ویں برسی کے تعلق سے جو سلسلے وار مضمون اسلام ٹائمز میں شائع ہو رہا ہے، اس میں بلاشبہ کچھ ابہامات ہیں کہ جن پر مفصل قلم فرسائی اور مستندات کی ضرورت ہے، تاہم میں قائد شھید علامہ عارف حسین حسینی کی شہرت اور گمنامی کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا کہ حوزہ علمیہ قم ميں جو شخص جتنا زیادہ اسلامی انقلاب سے ہماھنگ تھا، وہ آپ کی شخصیت سے اتنا ہی زیادہ آشنا تھا اور جو جتنا زیادہ دور اور نامانوس تھا، وہ اتنا ہی قائد کی شخصیت اور کاموں سے ناواقف تھا۔ قم میں وفاق کے پلیٹ فارم سے کام کرنے والے افراد کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی تھی، کچھ لوگ قائد کو اچھی طرح سے جانتے پہچانتے تھے اور کچھ بالکل ناواقف تھے، چنانچہ راشد نقوی صاحب کی تحریر میں اس حوالے جس چیز کو تضاد بتایا جا رہا ہے، وہ دراصل تضاد نہیں ہے بلکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے حوزے میں مقیم طلاب پاکستان واضح طور پر دو الگ الگ سوچ اور فکر کے تحت مشغول علم تھے، ایک طبقہ اسلامی انقلاب اور اس کے نظریات کو اپنے اندر سمو کر آگے بڑھ رہا تھا اور دوسرا طبقہ اسلامی انقلاب سے نامانوس اور فطری طور پر انقلابی سرگرمیوں سے دور تھا، اس طرح کے سست عناصر کو اس قسم کی سرگرمیوں سے بھی کسی قسم کی دلچسپی نہیں تھی، چنانچـہ جیساکہ عرض کیا گیا، طلاب کا ذمہ دار اور فرض شناس طبقہ اور سینیئر طلاب قائد شہید کی شخصیت سے پوری طرح واقف بھی تھے اور ان کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔
Iran, Islamic Republic of
آپکی رائے میں یقیناً وزن ہے کیونکہ اس دور کے حالات و واقعات کا تو ہمیں علم نہیں، لیکن آج بھی قم کے طلباء کی ایک بڑی تعداد انقلاب، امام خمینی اور رھبر کے نظریات سے ہم آہنگ تو ایک طرف آشنا بھی نہیں ہے، وہ یا تو خطیب یا کسی مدرسہ کا مدرس بننے کو ہی دین کی خدمت سمجھتے ہیں۔ راشد صاحب سے لاکھ اختلاف کے باوجود انکی قومی خدمات اور ملی تاریخ سے آگاہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انقلابی سے آپ کی مراد کیا ہے، بغیر درس پڑھے صرف گلے میں چفیه ڈال کر زور زور سے نعرے لگانا؟!!! امام خمینی رضوان الله تعالیٰ علیه جہاں طلبگی دور میں ایک اچهے محنتی طالب علم تهے، وہیں حوزه علمیه میں اعلیٰ پایه استاد تهے۔ امام کے شاگرد آیه ا.. سبحانی کے باپ فوت هوئے تو پرده کے پیچھے باپ کی میت رکھ کر درس پڑھایا اور درس کے آخر میں شاگردان سے کہا کہ جس کا اور کوئی درس نه هو، جنازه میں شرکت کرے۔ امام کی فکر کو درست پہچاننا ہے تو ان کو شاگردان مانند آیت ا... سبحانی سے پہچانیں، نه که هر ایرے غیرے سے اور استعمار بهی اگر خوف زده ہے تو حقیقی درس خوان علماء، مدارس دینیه اور طلباء سے ڈرتا ہے۔ عالم نما خود کو سپر انقلابی سمجهنے والوں سے خود شیعه قوم کو خطره ہے، استعمار کو نہیں۔
ہماری پیشکش