2
Monday 5 Aug 2019 19:16

کیا امریکہ افغانستان سے نکلنے والا ہے؟

کیا امریکہ افغانستان سے نکلنے والا ہے؟
تحریر: علی محسنی

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت طالبان سے مراعات لے کر افغانستان سے اپنی فورسز واپس لانے کے قریب ہے۔ یہ مراعات جنگ بندی اور دوبارہ القاعدہ سے اتحاد نہ کرنے کے وعدے کے ساتھ ساتھ گذشتہ 18 برس سے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کیلئے ابتدائی امن معاہدے پر مشتمل ہوں گی۔ حال ہی میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ڈان لیموٹ، جان ہیڈسن اور پامیلا کانسٹیبل نے اپنی رپورٹس میں لکھا ہے: "یہ معاہدہ جو طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست اور وسیع مذاکرات پر مجبور کرے گا اس ملک میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یوں افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار سے کم ہو کر 8 یا 9 ہزار تک رہ جائے گی۔ یہ تعداد تقریباً اس وقت کی تعداد کے برابر ہو گی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھا تھا۔ یہ امن منصوبہ افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان طویل مذاکرات کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔ زلمے خلیل زاد گذشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کیلئے اس عہدے کیلئے چنے گئے تھے۔"
 
لیموٹ، ہیڈسن اور کانسٹیبل کی اس مشترکہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "امریکی حکام کو توقع ہے کہ یہ معاہدہ ستمبر میں منعقد ہونے والے آئندہ افغان صدارتی الیکشن سے پہلے پہلے حتمی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے طالبان رہنما اس معاہدے کی حتمی منظوری میں تاخیر کر دیں اور یہ اہم چیلنج باقی رہ جائے۔" افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھتے ہیں: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہم مذاکرات کے اس دور میں طالبان سے حتمی معاہدہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔" ہفتہ 3 اگست سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہو چکا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے مزید لکھا: "طالبان نے ایسی علامات ظاہر کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی ایک اچھا معاہدہ انجام پانے کیلئے تیار ہیں۔" اس کے باوجود زلمے خلیل زاد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان مذاکرات کا حقیقی مقصد امن معاہدے کا حصول ہے نہ اس ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں معاہدے کا حصول۔
 
بہرحال، بعض امریکی اور افغانی حکام اس منصوبے کے بارے میں بدبین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ طالبان کی حسن نیت کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہیں۔ وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ کس طرح طالبان کے موقف اور وعدوں کی سچائی کے بارے میں یقین حاصل کر سکتا ہے؟ لیکن اگر کوئی معاہدہ انجام پا لیتا ہے تو یہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کی طرف اہم قدم ثابت ہو گا۔ امریکہ کے ایک اہم ذریعے نے نام ظاہر نہ ہونے کی شرط پر بتایا: "ہم تقریباً 80 سے 90 فیصد راستہ طے کر چکے ہیں لیکن باقی 10 یا 20 فیصد راستہ گویا بہت زیادہ طویل محسوس ہو رہا ہے۔" واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹرز لکھتے ہیں کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس معاہدے کے بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کیا لیکن ایک مختصر ٹیلی فونک مکالمے میں کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے مذاکرات کس وقت انجام پائیں گے۔ زلمے خلیل زاد نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے: "ہم امیدوار ہیں۔ اگر سب کچھ درست انداز میں آگے بڑھے تو کامیابی کا حصول ممکن ہے۔"
 
امریکہ کے دو دفاعی عہدیدار کہتے ہیں: "افغانستان میں امریکی فوجیوں کے کمانڈر جنرل آسٹن میلر اس معاہدے کی نسبت امیدوار ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ داعش اور القاعدہ کے خلاف سرگرم فورسز کی حفاظت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔" جنرل آسٹن میلر گذشتہ برس ہی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی افغانستان میں جنگ کی آگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے معروف چینل اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "کوئی بھی فریق فوجی طاقت کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لہذا ہمیں سیاسی راہ حل کی طرف جانا ہو گا۔" البتہ بعض امریکی حکام اس بابت پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ طالبان ہر گز خود کو القاعدہ سے مکمل طور پر جدا نہیں کر پائیں گے۔ البتہ وہ اس بات پر امید ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کے ذریعے مذاکرات کی کامیابی کا امکان بڑھایا جا سکتا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 809042
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش