QR CodeQR Code

کشمیر سے ہے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ

5 Aug 2019 22:50

اسلام ٹائمز: میری نظر میں بھارت کا یہ اقدام ریاست کشمیر پر ایک اور حملہ ہے، اس حملے کی نوعیت فوجی نہیں بلکہ سیاسی اور تزویراتی ہے۔ کشمیری عوام تو یقیناً اس حملے کی راہ میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہیں، اب پاکستان کو بھی اس مسئلے کو حقیقی معنوں میں عالمی فورمز پر اٹھا کر اسکے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ ہم بھارت کے سامنے کمزوری، سستی، کاہلی اور کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے کا رویہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ سید علی گیلانی کی ٹویٹ جس میں انھوں نے مسلمانوں کو مدد کیلئے پکارا ہے، کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اب پاکستان کو اس جنگ کو اسی کے محاذ پر لڑنا ہے۔ ہمارے اندر یہ جنگ لڑنے اور اقوام عالم کو اس مسئلہ کی حقیقت نیز سنگینی کے بارے میں آگاہ کرنے کیلئے کافی دلائل موجود ہیں۔


تحریر: سید اسد عباس

دنیا کے دو پیچیدہ سیاسی مسائل جو گذشتہ ستر سے زائد برسوں سے اقوام عالم کے لیے ایک معمہ بنے ہوئے تھے، کے بارے میں ایک جیسا رویہ حیران کن اور تشویشناک ہے۔ دونوں مسائل کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے تقریباً ملتے جلتے اقدامات وقوع پذیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، ایک جانب مسئلہ فلسطین کی سیاسی حیثیت کو یکسر ختم کرتے ہوئے اسے ایک معاشی مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری جانب کشمیر کے ریاستی تشخص کو ختم کرکے اسے ہندوستان کا ملحقہ علاقہ بنانے کے لیے اقدام ہو رہے ہیں۔ ایک جانب صہیونی لابی مسلمانوں کے علاقے پر اپنے قبضے کو مستحکم اور قانونی قبضہ بنانے کو چلی ہے اور دوسری جانب ہندو سامراج کشمیر کی زمین کو مسلمانوں سے ہتھیانے کی سبیل کرچکا ہے۔

ان دونوں مسائل میں ایک فرق بھی ہے، فلسطین کے آزاد حیثیت کے دعویداروں کو ایک ایک کرکے خریدا جا چکا ہے اور اب وہ اس صدی کے سودے کا حصہ ہیں، جس میں فلسطینی ریاست کا وجود سرے سے ختم ہونے کو ہے۔ فلسطینی پناہ گزین جہاں جہاں بستے ہیں، ان کے منہ میں وہاں کی مقامی حکومتوں کے تعاون سے مراعات اور ترقی کی چوسنی ڈالی جائے گی۔ صدی کے سودے میں کہیں تذکرہ نہیں ہے کہ ان فلسطینیوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا جائے گا۔ اس سودے میں اسرائیل میں قائم غیر قانونی یہودی آبادیوں کو بھی قانونی حیثیت دی جا رہی ہے اور ان کے خاتمے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ یروشلم، گولان کی پہاڑیاں اور وہ علاقے جہاں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، سب کے سب قانونی طور پر اسرائیلی علاقے شمار کروائے جانے کی سعی کی جا رہی ہے۔

فلسطینی اپنی آبادی کے علاقوں میں میونسپیلٹی بنائیں، گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھائیں، نالیاں صاف کریں، شناختی کارڈ اور اس طرح کی دستاویزات جاری کریں، تاہم ان کو وہ اختیارات قطعاً حاصل نہیں ہوں گے، جو کہ ایک آزاد ریاست کے باشندوں کو حاصل ہوتے ہیں، شاید صہیونیوں کا خیال ہے کہ اگلے ستر برسوں میں فلسطین دنیا کے دیگر شہروں کی مانند ایک شہر کے طور پر معروف ہوگا، یہاں کوئی سیاسی مسئلہ تھا، اس کے عوام کے حقوق کو غصب کیا گیا، شاید کسی کو یاد نہ رہے۔ فلسطین کے برعکس کشمیر کی صورتحال مختلف ہے، کشمیر کے لیے حق خودارادیت اور آزادی کا دعویدار ملک پاکستان نہ تو آج تک اپنے اس اصولی موقف سے پیچھے ہٹا ہے اور نہ ہی کشمیر کے بارے کسی سودے بازی کا حصہ بنا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی لوک سبھا اور حکومت نے ایک ایسا اقدام کیا، جو کہ کشمیر کے مسئلہ میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔

آج یعنی 5 اگست 2019ء کے روز بھارت سرکار نے کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے وفاق کے تحت لے آیا۔ حالانکہ کشمیر عالمی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑی تو اقوام متحدہ نے ثالثی کرتے ہوئے سنہ 1948ء میں تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں، جن میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور یہ تجویز دی گئی کہ انہیں رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔

آرٹیکل 370 تھا کیا؟
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں پاکستان اور انڈیا دونوں سے اپنی اپنی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں اور کشمیر کے متنازعہ علاقے کے الحاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔ بی بی سی اردو نے کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل 370 اور اس کی شق 35 اے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ: تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم بعد ازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس صورتحال میں انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیئے گئے۔ تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر سنہ 1951ء میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔ انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔

یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خود مختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں، اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کرسکتی تھی۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہوگیا ہے، جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔ اس قانون کی تحت جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927ء سے 1932ء کے درمیان مرتب کیے تھے اور انہی قوانین کو سنہ 1954ء میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔ یہ آرٹیکل بھارت کے قانون میں ایک رکاوٹ تھا، جس کے سبب وہ اپنی بھرپور کاوش کے باوجود کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلی لانے کے قابل نہ تھے۔ کشمیر سے آنے والے احباب یہ بتاتے ہی کہ بھارت کی بھرپور خواہش ہے کہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کیا جائے۔ اسی طرح دیگر مختلف حربوں کے ذریعے وہ کشمیری ریاست کی حیثیت، ثقافت اور روایات کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ وہاں کے طلبہ کو بھارت کے مختلف اداروں میں تعلیم کے لیے بھیجا جاتا رہا، تاکہ ان کو تحریک آزادی سے دور کرکے بھارتی نظریات کا حامل ایک مسلمان بنایا جاسکے۔

میری نظر میں بھارت کا یہ اقدام ریاست کشمیر پر ایک اور حملہ ہے، اس حملے کی نوعیت فوجی نہیں بلکہ سیاسی اور تزویراتی ہے۔ کشمیری عوام تو یقیناً اس حملے کی راہ میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہیں، اب پاکستان کو بھی اس مسئلے کو حقیقی معنوں میں عالمی فورمز پر اٹھا کر اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ ہم بھارت کے سامنے کمزوری، سستی، کاہلی اور کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے کا رویہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ سید علی گیلانی کی ٹویٹ جس میں انھوں نے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ہے، کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اب پاکستان کو اس جنگ کو اسی کے محاذ پر لڑنا ہے۔ ہمارے اندر یہ جنگ لڑنے اور اقوام عالم کو اس مسئلہ کی حقیقت نیز سنگینی کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے کافی دلائل موجود ہیں۔ کشمیری مسلمان پاکستان سے الحاق چاہتا ہے اور اسے ایسا کرنے سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔ اقوام عالم نے ان کے اس حق تسلیم کیا ہے، پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے کشمیری مسلمانوں سے رشتے کا پاس کرتے ہوئے ان پر ہونے والے اس حملے کا بھرپور جواب دینا ہے۔ یہ تکمیل پاکستان اور تحفظ پاکستان کے لیے کشمیروں کی نہیں بلکہ ہماری اپنی جدوجہد ہے۔


خبر کا کوڈ: 809079

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/809079/کشمیر-سے-ہے-رشتہ-کیا-لاالہ-الا-اللہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org