1
Tuesday 6 Aug 2019 23:18

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز
تحریر: سید نعمت اللہ

1987ء میں امریکی صدر رونلڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے سربراہ میخائیل گورباچف کے درمیان درمیانی رینج کے جوہری میزائلوں کی روک تھام سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا تھا جو INF کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے 500 سے 1 ہزار کلومیٹر رینج کے تمام جوہری اور معمولی میزائل اور ان کے وار ہیڈز نیز 1 ہزار سے 5500 کلومیٹر رینج کے درمیانی رینج کے میزائل مرحلہ وار ختم کئے جانے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مئی 1991ء تک اس معاہدے کی روشنی میں تقریباً 2692 میزائل تباہ کر دیے گئے اور دس برس تک دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کی انسپکشن بھی کی جاتی رہی۔ اب یہ معاہدہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 فروری کے دن روس کے میزائل ایس ایس سی 8 پر اعتراض کرتے ہوئے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ معاہدے کی رو سے انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے 6 ماہ کی مہلت بھی حاصل تھی لیکن وہ اپنے فیصلے پر برقرار رہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ وہ اس بارے میں نیا معاہدہ تشکیل دینا چاہتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو ایسے نئے معاہدے کیلئے مناسب موقع میسر ہے اور نہ ہی دور دور تک اس کا امکان پایا جاتا ہے۔
 
یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ مذکورہ بالا معاہدہ نہ تو لانگ رینج کے بیلسٹک میزائلوں پر پابندی عائد کرتا تھا اور نہ ہی سمندر سے جنگی کشتی یا سب میرین کے ذریعے فائر ہونے والے مڈل رینج کے میزائلوں کو ممنوعہ قرار دیتا تھا۔ لہذا یہ معاہدہ صرف خاص نوعیت کے جوہری میزائلوں کو ممنوعہ قرار دیتا تھا لیکن اسی حد تک ممنوعیت اسلحہ کی ریس کو کافی حد تک روکنے کیلئے موثر ثابت ہو رہی تھی۔ یہ معاہدہ براعظم یورپ جیسے علاقوں خاص طور پر مشرقی یورپ کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت یہ خطہ سرد جنگ کے دوران ایک طرف ان جوہری میزائلوں کے سائے تلے تھا جو امریکہ نے سوویت یونین سے مقابلے کے بہانے وہاں نصب کر رکھے تھے اور دوسری طرف سوویت یونین کے میزائلوں کی زد میں تھا۔ آئی این ایف معاہدہ ایسے میزائلوں کی روک تھام میں موثر تھا جو اس سبز براعظم کیلئے شدید خطرہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن گذشتہ امریکی صدر براک اوباما کے دور میں اس علاقے میں میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کئے جانے اور اس کے مقابلے میں روس کی جانب سے اسکندر میزائل نصب ہونے کے بعد دوبارہ سرد جنگ والی صورتحال لوٹ آئی تھی۔
 
اب جبکہ درمیانی رینج والے میزائلوں کی روک تھام کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے دونوں عالمی طاقتوں کو مختلف قسم کے میزائل تیار کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ لہذا تقریباً تین عشرے گزر جانے کے بعد براعظم یورپ دوبارہ جوہری میزائلوں کی زد میں آ چکا ہے۔ اس مسئلے کا ایک اور پہلو بحر میت سے مربوط ہے جسے سرد جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کی ریس کے زمانے میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی۔ لیکن گذشتہ تین عشروں کے دوران چین کی طاقت میں خاطرخواہ اضافہ ہو جانے کے بعد صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ چین نے اپنی جوہری اور میزائل صلاحیتوں میں آئی این ایف کو نظرانداز کرتے ہوئے بہت زیادہ اضافہ کیا ہے اور امریکہ اس معاہدے کا پابند رہ کر چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض مخالفین کا کہنا تھا کہ امریکہ سمندر اور ہوا سے فائر ہونے والے میزائلوں کے ذریعے چین کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔
 
اب ڈونلڈ ٹرمپ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین اور بھارت جیسی نئی میزائل طاقتوں کو بھی شامل کر کے نیا معاہدہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آئی این ایف کے خاتمے کے بعد اس کام کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی پیچیدہ شخصیت کے تناظر میں کم از کم ان کی مدت صدارت میں ایسا نیا معاہدہ تشکیل پانا ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے سیاسی اور فوجی حکام کی جانب سے بحر میت کے بڑھتے ہوئے دورے اور آسٹریلیا کی جانب سے جنوبی چین کو نشانہ بنانے کیلئے امریکہ کو ڈارون جزیروں میں میزائل نصب کرنے کی اجازت دینے سے انکار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی نیا معاہدہ کرنے کی بجائے جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز کرنے کے درپے ہیں۔ البتہ جوہری ہتھیاروں کی یہ نئی دوڑ ماضی کی سرد جنگ کے زمانے کی طرح صرف براعظم یورپ اور دو بلاکس کے درمیان رقابت تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا دائرہ انتہائی وسیع ہو گا۔
 
خبر کا کوڈ : 809252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش