0
Friday 16 Aug 2019 07:55

یمن کی بندر بانٹ

یمن کی بندر بانٹ
اداریہ
یمن کے جنوبی علاقے عدن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فورسز کے درمیان گذشتہ چند دنوں سے گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات کا بظاہر پلڑا بھاری نظر آرہا ہے، کیونکہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ معزول و مفرور صدر منصور ہادی اور ان کی نام نہاد کابینہ کے اراکین اور ان کے بعض اہم فوجی کمانڈر ریاض کے درباروں میں دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں۔ عدن میں صدر ہاوس اور معاشیق پیلس متحدہ عرب امارات کی حامی فورسز کے قبضے میں آچکا ہے، سعودی عرب کے حامی گروپ کو الاصلاح جیسی انتہاء پسند تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل تھی، لیکن اس جماعت کی جنوب یمن میں جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ القاعدہ اور داعش مزاج کے لوگ ہیں، جنہیں عوام کی اکثریت یمن سمیت کئی ممالک میں بری طرح مسترد کر چکی ہے۔ یمن کے جنوبی علاقوں میں ہونے والی اس جنگ کے حوالے سے ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر یہ جنگ انصار اللہ اور یمن کے مظلوم عوام کی خلاف شروع کی تھی، لیکن اب ایسی کونسی جوہری تبدیلی آگئی ہے کہ دو انتہائی قریبی اتحادی یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے مدمقابل آکر قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔

سرسری اور فی البدیہ تجزیہ تو یہ ہے کہ شکست خوردہ ٹیم کے کھلاڑی آپس میں دست بگریباں ہو جاتے ہیں، لیکن اگر اس مسئلے کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یمن پر حملے کے وقت متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں کے اپنے اپنے مفادات تھے، اب جبکہ یمن کے مجاہدین بالخصوس انصاراللہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں تو یہ جنگ آل سعود اور متحدہ عرب امارات کے لئے ایک ایسی ہڈی میں تبدیل ہوگئی ہے، جو نہ نگلی جاسکتی ہے اور انہ اگلی۔ اس ہنگامی صورتحال میں دونوں یمن کی تقسیم پر قائل ہوگئے ہیں، لیکن اس تقسیم کے نتیجے میں اب  اپنے اپنے مفادات کے لئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات متحدہ یمن کو 1990ء سے پہلی کی صورت حال یعنی شمالی اور جنوبی یمن کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ جنگ کی موجودہ صورتحال کے تحت شمالی یمن میں سعودی اتحاد کی پوزیشن صفر ہے، جبکہ جنوبی یمن یعنی عدن میں انہیں کچھ ملنے کا امکان نظر آرہا ہے۔

اس لئے جنوبی یمن کی الحدیدہ بندرگاہ، سکوٹرا جزیرہ، باب المندب اور عمان سے ملنے والا سرحدی علاقہ اپنی اسٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے اتنا اہم ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کے لئے ہر خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی نگاہیں باب المندب اور اسکوٹرا پر مرکوز ہیں جبکہ سعودی عرب عمان سے ملحقہ سرحد سے نئی پائپ لائن بنانے کے چکر میں آبنائے ہرمز کی اہمیت کو کم کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں، انہیں یمن سے کوئی سروکار نہیں، چاہے یہ ملک ایک بار پھر تقسیم ہوکر شمالی اور جنوبی یمن میں تبدیل ہو جائے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان عدن کی حالیہ جنگ نے دونوں کے حقیقی مقاصد کو اجاگر کر دیا ہے، جبکہ دوسری طرف عالم اسلام اور عالم عرب کے حقیقی حامی رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای یمن کی تقسیم کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کر رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے انصاراللہ یمن کے وفد سے حالیہ ملاقات میں متحدہ یمن کے قائم رہنے پر تاکید کی ہے اور اس کی تقسیم کو سازش سے تعبیر کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 810908
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش