2
0
Monday 19 Aug 2019 09:34

مسئلہ کشمیر پر دوست اور دشمن واضح ہوگئے

مسئلہ کشمیر پر دوست اور دشمن واضح ہوگئے
تحریر: نادر بلوچ

انگریز اس خطے سے جاتے ہوئے ہمیں مذاہب، مسالک، تہذیبوں، علاقوں اور زبانوں میں تقسیم کر گیا اور ساتھ میں ایسے لوگ بھی ہم پر مسلط کر گیا، جو ان تقسیموں پر راضی ہیں اور انہی تقسیموں پر ان کی دال روٹی چل رہی ہے۔ سرحد کے آر اور پار دونوں سائیڈوں پر یہ تقسیم عام ہے، دونوں سائیڈز پر اقلیتیں اور کمزور طبقات غیر محفوظ ہیں۔ بداعتمادی اور نفرت کی فضا دونوں سائیڈوں پر تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ملتی ہے اور یہی اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کسی نے کیا خوب ہی کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اقتدار اعلیٰ کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ ہی اصل چیز ہوتی ہے، جس کے بل بوتے پر حکومتیں بنتیں اور ٹوٹتی ہیں۔ مسلکوں، مذاہب، تہذیبوں، علاقوں اور مختلف زبانوں میں بٹے عام عوام کا فقط اتنا ہی عمل دخل ہوتا ہے کہ وہ صرف ووٹ ہی کاسٹ کرسکتے ہیں، سرمایہ دار افراد انہی تقسیموں کے باعث اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، افلاس، تنگدستی اور جہالت ہے، لیکن دونوں اطراف کے ایک خاص طبقے نے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر عوام کو تقسیم کر رکھا ہے، تاکہ وہ ان سے سوال ہی نہ کرسکیں، جو سوال کرے اسے غدار قرار دیکر ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا جائے یا پھر پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیں یا زبان بند کر دیں، اگر عوام باشعور ہو جائیں تو وہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان سے وصول کیا جانے والا ٹیکس کہاں صرف ہو رہا ہے؟، کیوں دفاع اور دیگر مسائل کے نام پر ان کے حصے پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، 72 برسوں سے یہ درینہ مسائل کیوں حل نہیں کر پائے؟، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہ درینہ مسائل مل بیٹھ کر حل کر لیے جائیں تو اس خاص طبقے کا کیا بنے گا؟، بس اسی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے، ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ کشمیر ایسا مسئلہ ہے، جو دنوں میں حل ہوسکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو لاکھوں نہیں کروڑوں انسانی کی ترقی ممکن ہے۔

پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہ پانچ ارب انسانوں کو ملانے والا ملک ہے۔ خود بھارت پاکستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشائی ممالک تک رسائی ممکن بنا سکتا ہے، تیل اور گیس کے ذخائر تک پہنچ سکتا ہے اور اپنے عوام کی خدمت کرسکتا ہے، یہ پانچ ارب انسان آپس میں مل سکتے ہیں، مگر کچھ طبقات یہ چاہتے ہی نہیں، اس کے علاوہ کچھ عالمی طاقتیں بھی اسی پر راضی ہیں، تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کرسکیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے پوری وادی کو آگ اور خون کی دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے، پوری وادی دو ہفتوں سے کرفیو کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، انٹرنیٹ، موبائل سروس اور ٹیلی ویژن سروس تک معطل ہے، عوام اشیاء خورد و نوش تک نہیں خرید سکتے، جبکہ بی جے پی کی جانب سے اس فیصلے پر ایسے ردعمل دکھایا جا رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، اب تو وزیر دفاع ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے، جس سے پانچ ارب انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

اس ایشو کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے، مگر وہی بات کہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس، عالمی ادارے طاقتور ملکوں کی ڈھال بن چکے ہیں، انہی کے دفاع کیلئے یہ ادارہ بنایا گیا ہے، یہاں حق، سچ اور اصول کسی اور بلا کا نام ہے۔ مودی نے ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ بنا دیا اور اس سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکا نے خود یہی کام فلسطین میں کیا ہے تو پوچھے گا کون۔؟ سچ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان ہوتی ہے، پتہ چلتا ہے کہ کون مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور کون فقط زبانی جمع خرچ کر رہا ہے، مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے بہت واضح ہوگیا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں پاکستان کے حقیقی دوست ممالک کون ہیں۔

تل ابیب، واشنگٹن اور نئی دلی اسٹریجیک اتحادی ہیں اور سعودی عرب سمیت ریاض کے زیر اثر تمام عرب ممالک اسرائیل، بھارت اور امریکا کے ہی حقیقی اتحادی ہیں اور انہی کے مفاد کا ہی دفاع کریں گے۔ کشمیر پر چین، روس، ترکی اور ایران کے موقف نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے حقیقی اتحادیوں کو پہچانے اور اپنی خارجہ پالیسی کی سمت کو درست کرلے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ امریکی دشمنی سے نہیں دوستی سے ڈرو، وزیراعظم عمران خان نے ڈونلڈٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر بغلیں بجائیں لیکن کشمیر پر امریکا کے موقف نے واضح کر دیا کہ امریکا اور بھارت دونوں کے مفادات ایک ہیں، اب بھارت اس کا اتحادی ہے نہ کہ پاکستان۔

اہم سوال یہ ہے کہ کشمیر پر جواہر لال نہرو کیا موقف رکھتے تھے، اس پر خود بھارت کی معروف مصنفہ اور لکھاری ارون دھتی رائے سارا ریکارڈ سامنے لے آئیں، جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بابائے بھارت کشمیر پر کیا موقف رکھتے تھے۔؟ ارون دھتی رائے کے فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق 27 اکتوبر 1947ء کو جواہر لال نہرو نے وزیراعظم پاکستان کے نام ٹیلی گرام لکھا، جس میں بھارتی وزیراعظم نے واضح کیا کہ ’’کشمیر میں ایمرجنسی کا تعلق ریاست تک رسائی نہیں، یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی بھی متازعہ علاقے کا معاملہ لوگوں کی مرضی کے مطابق طے کیا جائے گا۔" 31 اکتوبر 1947ء کو وزیراعظم پاکستان کے نام لکھے گئے ٹیلی گرام میں پنڈٹ لال نہرو نے کہا کہ ’’کمشیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مہاراجہ حکومت کی درخواست پر ہوا، ایسی ریاست جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس کے الحاق کا فیصلہ کشمیر کے عوام  ہی کرسکتے ہیں۔‘‘

2 نومبر 1947ء کو ریڈیو پر نشر ہونے والے پیغام میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ’’بحران کی صورتحال میں ہم کشمیری عوام کی رائے جانے بغیر حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے، آخری فیصلہ کشمیریوں نے ہی کرنا ہے۔‘‘ 3 نومبر 1947ء کو نشر ہونے والے اپنے خطاب میں جواہر لال نہرو نے کہا کہ ’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ کشمیر کی قسمت کا آخری فیصہ بلآخر وہاں کے لوگوں نے ہی کرنا ہے۔‘‘ جواہر لال نہرو نے 21 نومبر 1947ء کو وزیراعظم پاکستان کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ ’’وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ جیسے ہی امن قائم ہوگا، کشمیر کا الحاق عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کے ذریعہ ممکن بنایا جائے گا۔‘‘ 25 نومبر 1947ء کو بھارتی آئین ساز اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کہا کہ ’’کشمیر کا حق خودارادیت کا فیصلہ غیر جانبدار ٹربیونل یعنی اقوام متحدہ کے ذریعہ ہی ممکن بنائیں گے۔‘‘ 5 مارچ 1948ء کو بھارتی آئین ساز اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ’’ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیروں کے حق خودارادیت اور ان کی مرضی کے فیصلے کو تسلیم کریں گے، کشمریوں کو آزادانہ طور پر شفاف ووٹنگ کا حق دینے کے ہم پابند ہیں۔"

16 جنوری 1951ء کو اپنی پریس کانفرنس میں جواہر لال نہرو نے کہا کہ ’’بھارت نے متعدد بار اقوام متحدہ کے ساتھ چلنے اور کشمیریوں کو ان کی اظہار رائے کی آزادی دینے کا کہا ہے، ہم نے ہمیشہ کشمیریوں کے نظریات کو قبول کیا ہے اور ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کے فیصلے کو قبول کریں گے، ریفرنڈم کی ہماری ہی تجویز تھی، جو ہم نے اقوام متحدہ میں پیش کی، حتمی فیصلہ کشمریوں نے خود کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنے کے خواہش مند ہیں، پاکستان اور بھارت پہلے ہی اس بات پر اتفاق رائے کا اظہار کرچکے ہیں، دنیا کا کوئی بھی ملک کشمیریوں کو ان کی مرضی کے بغیر کسی فیصلے پر مجبور نہیں کرسکتا۔"

6 جولائی 1951ء کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی رپورٹ میں نہرو نے کہا کہ ’’کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا ہوگا، کشمیری زمینیں بکاو مال نہیں، اس کا انفرادی وجود ہے اور اس کے لوگ حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، کشمیریوں کی جدوجہد نے لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر لیا ہے۔‘‘ 11 ستمبر 1957ء کو اقوام متحدہ کے نمائندے کو لکھے گئے خط میں نہرو نے کہا کہ ’’ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے ادارے کے ذریعے حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں، لیکن اس کیلئے ہم آہنگی اور ماحول کو جلد از جلد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

نہرو کے متعدد بیانات اور خطابات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ ہی کشمیر پر حق خود ارایت کو تسلیم کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کی حیثیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ذریعہ ہونا باقی ہے۔ اب اچانک انتہا پسند نریندر مودی نے آئین کی شق 370 ختم کرکے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی ہے، ظاہر ہے اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے، مقبوضہ وادی میں وہ طبقات جو دو قومی نطریہ کے مخالف تھے، وہ بھی اب پچھتا رہے ہیں، اب بھی بھارت کے پاس وقت ہے کہ وہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے اور خطے کو ترقی اور امن کے راستے پر گامزن کرے، اللہ نہ کرے، اگر اس ایشو پر جنگ ہوئی تو اس کے نتائج دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 811311
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

علی انور
Pakistan
بڑی اچھی تحریر اور اچھا تجزیہ ہے، تاہم بار بار پانچ ارب کی بات نے الجھا دیا کہ دنیا کی آبادی تو 7 کا ہندسہ چھو رہی ہے۔ 7 سے کس علاقے کے 2 ارب کو مائنس کر دیا۔ جو 5 ارب رہ گئی آبادی۔
ذرا وضاحت کی جائے۔ میرے خیال میں شاید فاضل لکھاری نے شمالی اور جنوبی امریکہ کی آبادی نکالی ہو۔ جو کسی حد تک ہم سے ہٹ کر ہے۔
Iran, Islamic Republic of
انڈیا، چین، افغانستان، مشرق وسطیٰ کے ممالک اور وسط ایشیائی ممالک تک پاکستان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو ان ممالک کے لوگوں کو ملا سکتا ہے، حتیٰ بنگلہ دیش بھی بھارت کے راستے پاکستان اور پاکستان سے آگے باقی ممالک سے مل سکتا ہے، ان ممالک کی کل آبادی ملائیں تو تقریباً اتنی ہی ہے جتنی بتائی گئی ہے۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم مقام پر واقعہ ہے اور اسکو درپیش مسائل بھی اسکی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ہی ہیں، بھائی نے امریکا کا نام لیا ہے تو اسکی کل آباد 33 کروڑ سے زیادہ نہیں، جبکہ ہم فقط چین اور انڈیا کی آبادی کا حساب لگائیں تو تین ارب سے زائد آبادی ہے، پاکستان کنکٹیویٹی کا حب ہے۔
ہماری پیشکش