0
Monday 19 Aug 2019 14:20

"تکمیلِ عشق" (افسانہ)

"تکمیلِ عشق" (افسانہ)
تحریر: بنت الہدٰی
 
ہر منظر سے مخاطب ہونا آسان نہیں مگر یہ کہ خود کو اس میں اتار لیا جائے۔۔۔
کینوس پر سنہرا رنگ پھیرتے ہوئے میں بہت دور جاچکی تھی۔۔۔ 
صحرا کا منظر مجھے اپنے ساتھ پینٹنگ کے اندر لے آیا تھا۔۔۔
اڑتے ہوئے ریت کے ذرّات جب یکجا ہوکر ٹہرتے تو چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے کی شکل میں آجاتے۔۔۔
ایک ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا اونچائی سے دکھنے والا منظر مختلف نہ تھا۔۔
تا حدّ نگاہ ریت اور بلندی پر نیلا آسمان۔۔۔
چار سو پھیلا سکوت اور گہری خاموشی۔۔۔
اسی کو صحرا کہتے ہیں نا۔۔۔
ہر گز نہیں! 
صحرا کی ریت پر قدم جمائے تو محسوس ہوا صحرا سمندر سے کہیں زیادہ گہرائی رکھتا ہے۔۔
 
کئی صدیوں پرانے ریگستان کا ہر ذرّہ خود میں ایک داستان تحریر کئے ہوئے ہے۔۔ 
میں نے برش ہاتھوں میں لئے ریت کے ذروں پر لکھی تاریخ کو کھولا۔۔۔ 
صحرا میں چھپی داستانیں ظاہر ہونے لگی۔۔ 
ہر راز افشاں ہوگیا۔۔
مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔۔
کہ ایک تاریخ ایسی بھی تھی جسے میدان  خم میں رقم کیا گیا تھا۔۔
یہاں پہنچتے ہی مشرق سے آنے والی ہوائیں خوشی سے جھومنے لگی۔۔۔
تصویر میں بنے ریت کے ذرّے  ہواؤں سے بغلگیر ہوئے اور دائرے کی صورت میں رقص کرنے لگے۔۔
صحرائی ریت کا ہر ذرّہ اٹھ اٹھ کر ہوا کے ساتھ گردش کرنے لگا
ہوا اور ریت کے ذرو کا مسحور کردینے والا رقص قابل دید تھا۔۔۔
ہوائیں خوشی سے سرشاد مجھے اپنے حلقے میں لے آئی۔۔۔ 
 
میں نے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا
 اطراف میں گردش کرتی صحرائی ریت نے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
"خاموشی کا حسن اس کے شور میں ہے۔"
پھر ایک فلسفہ۔۔! 
مجھے صحرا سے یہی شکوہ ہے وہ عامیانہ کم اور فلسفیانہ زیادہ ہے۔۔۔
"سننے کی کوشش کرو۔۔۔ یہ خاموشی اپنے اندر کئی آوازوں کو لئے ہوئے ہے۔۔"
"کیسی آوازیں۔۔۔ ؟ تم کیسے سن سکتے ہو۔۔۔؟"
"میں نے محسوس کیا ہے۔۔"
"کیسے کرلیتے ہو محسوس۔۔۔؟"
"کیا تم محسوس نہیں کرسکتی۔۔۔۔؟"
ریت کے کچھ ذرے میری طرف بڑھے
 
"مجھے شور سنائی نہیں دیتا۔۔ خاموشی مجھ سے کلام نہیں کرتی۔۔ تم ہی بتاوں نا یہ کیا کہتی ہے؟"
فرمان جاری ہوا ہے کہ یہی رک کر انتظار کیا جائے۔۔۔ 
آگے بڑھ جانے والوں کو پیچھے بلایا جائے
اور پیچھے رہ جانے والوں کو آگے لایا جائے۔۔۔
کیسا انتظار۔۔۔؟
عشق تکمیل چاہتا ہے۔۔۔ اور تکمیل تب ہی ممکن ہے جب نہ افراط ہو اور نہ تفریط۔۔۔
میرے تجسس میں اضافہ ہوا۔۔۔ 
برش کو کینوس پر پھیرتے ہوئے دل میں اک خواہش اٹھی۔۔
مجھے بھی تکمیل عشق کا منظر دیکھنا ہے۔۔
صحرا میرے دل کے حال سے واقف تھا۔۔۔ اس نے ہوا سے التجا کی مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلے۔۔۔
 
ہوائیں شاہانہ مزاج رکھتی ہیں۔۔ وہ ہر وقت گردش میں رہتی ہیں۔۔ خود کو میرے اندر لے آئی۔۔
ویسے ہی جیسے پینٹنگ کرتے ہوئے صحرا کی ریت مجھ میں سما گئی تھی اور میں نے محسوس کیا۔۔
میں ان سے جدا نہیں۔۔ یہ تو پہلے سے مجھ میں موجود تھی۔۔
میں اپنے آپ میں ایک مکمل کائنات ہوں۔۔۔
خود کو ہواؤں کے خول میں لئے میں مقام عشق پر پہنچی۔۔۔
کاروان در کاروان لوگ یہاں آ رہے تھے۔۔۔ گرمی کی شدت میں بھی لوگوں کے چہرے پر سکون اور طمانیت دیکھ کر میں خود سے مخاطب ہوئی۔۔۔
محبت کیا تخیلق کرسکتی ہے۔۔۔؟
وہ سب کچھ جو وہ خلق کرنا چاہے۔۔۔
صحرا نے جواب دیا
جیسے۔۔؟
 
ہوا کے ایک جھونکے نے زمین پر بچھی ریت کو آسمان کی سمت اچھالا
اور میرا رخ آسمان کی جانب ہوا۔۔
صحرا کی چلچلاتی دھوپ میں آسمان پر سفر کرتے ایک بادل نے دو دھندلے مگر جھلملاتے چہروں پر سایہ کیا۔۔۔
اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔۔۔
ہوائیں مجھے میری منزل تک لے آئی تھی۔۔
اور میں نے وہ سب سن لیا جسے صحرا کے ذرّات اپنے اندر چھپائے تھے۔۔۔
ان ذرّوں پر لکھی تاریخ مکمل داستان تھی۔۔۔ 
یہاں خاموشی مجھ سے ہمکلام تھی۔۔۔
اور
آسمان کی طرف بلند ہوتے ہوئے دو ہاتھ۔۔ 
عشق کی تکمیل کا منظر پیش کررہے تھے۔۔
تصویر مکمل ہوتے ہی میں خود کو کینوس سے باہر لے آئی مگر آنکھیں وہی رہ گئی ان ریت کے ٹیلوں میں کہیں۔۔۔ 
جہاں موجود ہر ذرّے پر لکھی تاریخ اپنی داستان رکھتی ہے۔۔۔
مگر ہر داستان مکمل نہیں ہوتی۔۔
انہی میں سے ایک آج بھی ادھوری ہے
اپنی تکمیل کی منتظر۔۔۔

کینوس پر بنی تصویر مکمل ہوتے ہوئے بھی ادھوری تھی۔۔۔
کیا پینٹنگ مکمل کرنا چاہتی ہو؟
صحرا نے پھر سرگوشی کی۔۔۔
میں مضطرب ہوگئی۔۔۔
کیوں نہیں۔۔۔ میں اپنی آنکھیں اسی لئے تمہارے پاس چھوڑ آئی ہوں۔۔۔
عنقریب۔۔۔ عنقریب
داستان دہرائی جائیگی۔۔۔
عشق ایک بار پھر کامل ہوگا۔۔۔
کہ اس کا وعدہ برحق ہے۔۔۔
صحرا نے خوشی کی نوید دی اور پھر سے کینوس میں پلٹ گیا۔۔
صحرا کی خاک آنکھوں میں لگائے
میں نئے رنگ اور نئے منظر کی منتظر ہوں۔۔
کہ ریت کے سنہرے ذرے پر لکھی آخری داستان مکمل ہو
اور تکمیل عشق کا دن
 میری ہر ادھوری تصویر کو مکمل کردے۔
خبر کا کوڈ : 811433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش