2
Tuesday 20 Aug 2019 21:24

واقعہ غدیر خم کے چند اہم پیغامات (حصہ دوم)

واقعہ غدیر خم کے چند اہم پیغامات (حصہ دوم)
تحریر: جعفر وفا

3)۔ ولایت علی علیہ السلام دین کے اکمال کا مظہر
حجاز میں اسلام کے آغاز سے ہی کفار اور مشرکین یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد یہ دین بھی ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے ابتدا میں جنگ کے ذریعے اسلام ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا شکار ہونے کے بعد اسلام کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کرنا شروع ہو گئے۔ اس بار بھی وہ پیغمبر اکرم ص اور ان کے مخلص اور باوفا ساتھیوں کی استقامت اور شجاعت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اب ان کی آخری امید رسول اکرم ص کو شہید کر دینے یا ان کی وفات کا انتظار کرنے پر استوار تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب دین مبین اسلام کا بانی دنیا میں نہیں رہے گا اور اس کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے تو یقیناً اس کا لایا ہوا دین بھی ختم ہو جائے گا۔ ان کی نظر میں نعوذ باللہ نبی اکرم ص نے حکومت اور اقتدار کے حصول کیلئے نبوت اور اسلام کا ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ لہذا وہ سوچتے تھے کہ جب رسول خدا ص ہی دنیا میں نہیں رہیں گے تو مسلمانوں کا اقتدار بھی ختم ہو جائے گا۔
 
لیکن جب واقعہ غدیر خم رونما ہوا اور پیغمبر اکرم ص نے خدا کی جانب سے اپنے سپرد کی گئی ذمہ داریاں امام علی علیہ السلام کے حوالے کیں اور انہیں اپنے بعد اسلامی معاشرے کا سرپرست اور ولی مقرر کر دیا تو کفار اور مشرکین کی اس آخری امید پر بھی پانی پھر گیا۔ امام علی علیہ السلام ولایت کے مقام پر فائز ہونے سے پہلے ہی مسلمانوں کے درمیان شجاعت، علم اور تقوی کے لحاظ سے معروف تھے۔ خداوند متعال نے غدیر خم میں امام علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کئے جانے کے بعد یہ آیت نازل فرمائی:
"الْیوْمَ یئِسَ الَّذِینَ کـفَرُوا مـِن دِیـنِکمْ" (سورہ مائدہ، آیت 3)
ترجمہ: "آج کفار آپ کے دین سے مایوس ہو گئے ہیں۔"
غدیر خم کے واقعے نے ثابت کر دیا کہ امام علی علیہ السلام کی ولایت دین کا اکمال اور خداوند متعال کی عظیم نعمت کی تکمیل تھا۔ یہ عظیم نعمت درحقیقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولایت تھی جس کی تکمیل امام علی علیہ السلام اور ان کی نسل سے باقی گیارہ معصوم اماموں کی ولایت کی صورت میں ہوئی۔
 
4)۔ غدیر خم، اتحاد بین المسلمین کا محور و مرکز
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم میں امام علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کرنے کے بعد سب کو علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا حکم دیا۔ آپ ص نے اس موقع پر فرمایا:
"أَلا وَ إِنِّی قَد بایَعتُ اللهَ وَ عَلیٌ قَد بَایَعنِی و أَنا آخِذُکُم بِالبَیعَةِ لَهُ عَن الله عـَزَّ وَ جَلَّ: إِنَّ الَّذینَ یُبایِعُونَکَ إِنَّما یُبایِعُونَ اللَّهَ یَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَیْدیهِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّما یَنْکُثُ عَلی نَفْسِهِ وَ مَنْ أَوْفی بِما عاهَدَ عَلَیْهُ اللَّهَ فـَسَیُؤْتیهِ أَجْراً عَظیما" (الاحتجاج، جلد 1، صفحہ 158)
ترجمہ: "اے لوگو، آگاہ رہو کہ میں نے خدا کی بیعت کی ہے، علی نے میری بیعت کی ہے اور اب میں خدا کے حکم سے علی کی امامت کیلئے تم سے بیعت لوں گا: اے پیغمبر، جو افراد تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں درحقیقت خدا کی بیعت کرتے ہیں اور خدا کی طاقت سب پر حاوی ہے۔ پس جو بھی بیعت توڑے گا خود کو ہی نقصان پہنچائے گا اور جو خدا سے کئے گئے عہد پر استوار رہے گا خدا اسے عظیم اجر عطا فرمائے گا۔"
 
خم کے میدان میں موجود تمام حاضرین نے رسول خدا ص کے حکم پر علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی ان سے عہد کیا کہ ان کے مطیع رہیں گے اور ان کے خلاف محاذ آرائی نہیں کریں گے اور ان سے منہ نہیں موڑیں گے۔ اس بیعت کا مقصد امت مسلمہ کی باگ ڈور امام علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دینا تھی کیونکہ علی علیہ السلام کے فیصلے خدا کی مرضی کے مطابق انجام پاتے تھے اور علی علیہ السلام کی بیعت درحقیقت خدا کی بیعت تھی۔ اہلسنت کے معروف مفسر فخر رازی اس بارے میں کہتے ہیں:
"من اتخذ علیا امـاماً لدیـنه فـَقَدِ اسْتمسکَ بِالْعُرْوَةِ الوثْقَی فی دینهِ ونَفْسِهِ" (مفاتیح الغیب، جلد 1، صفحہ 182)
ترجمہ: "جس نے بھی دین میں علی کو امام قرار دیا درحقیقت اس نے اپنے دین اور اپنے وجود کیلئے انتہائی مضبوط رسی کو تھام لیا۔"
پس رسول خدا ص نے مسلمانوں کو امام علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا حکم دے کر درحقیقت علی علیہ السلام کی صورت میں مسلمانوں کو اتحاد اور وحدت کا مرکز فراہم کر دیا تھا۔ یوں واقعہ غدیر خم کسی خاص اسلامی فرقے سے مخصوص نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ سے متعلق ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 811723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش