QR CodeQR Code

بلی تھیلے سے باہر

24 Aug 2019 08:47

امریکی جب تک عراق پر قابض رہے، القاعدہ اور الرافدین غیر محسوس طریقے سے امریکی ایجنڈے پر کام کرتے رہے، اسی دوران امریکہ نے القاعدہ، الرافدین اور صدام کی بعث پارٹی کی اہم شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کوشش کو کامیاب بنانے کیلئے جس یونیوسٹی کا انتخاب کیا گیا، اسکا نام "بوکا جیل" تھا۔


اداریہ
داعش کے سرغنہ اور نام نہاد نظام خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اس نے اپنے ایک اور جانشین کا اعلان کر دیا ہے۔ داعش گروہ اپنے خلیفے کا انتخاب کرتا ہے یا نامزدگی، اس بارے میں تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں، لیکن میڈیا میں یہ خبر تواتر سے آرہی ہے کہ ابوبکر بغدادی کا نائب یا جانشین عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کا ایک اعلیٰ فوجی افسر ہے۔ ڈکٹیٹر صدام بعث پارٹی سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے بعث پارٹی کی رکنیت ضروری تھی۔ بعث پارٹی ایک غیر مسلم عفلکی کے نظریات پر استوار ایک قوم پرست عرب اور سیکولر افکار و نظریات کی جماعت ہے۔ شروع شروع میں بعث پارٹی نے تمام عرب ممالک میں اپنی فعالیت کا آغاز کیا تھا، لیکن آخر میں اس کا وجود صرف عراق اور شام تک محدود ہو کر رہ گیا۔ شام کی موجودہ حکمران پارٹی بھی اپنے آپ کو بعث پارٹی سے جوڑتی تھی، لیکن صدام نے اس پارٹی پر اپنا تسلط پیدا کرکے دوسرے عرب ممالک کو اس پارٹی سے دور کر دیا تھا۔

صدام کے سقوط کے بعد جب امریکیوں نے عراق پر اپنا تسلط قائم کیا تو اس نے مختلف زاویوں سے عراق پر تسلط قائم رکھنے کی منصوبہ بندی کی، ان سازشوں میں ایک انتہاء پسند مذہبی گروہ مضبوط کرنا تھا، تاکہ عراق میں سنی شیعہ فرقہ واریت کو پوا دے کر بعد میں "لڑائو اور حکومت کرو" کے یونیورسل قول پر عمل درآمد کرسکیں۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کی شیعہ جماعتوں کا میدان میں آنا ایک فطری عمل تھا، کیونکہ عراق میں شیعہ آبادی ساٹھ فیصد سے زائد تھی اور صدام کی آمریت میں سب سے زیادہ شیعہ جماعتوں کو کچلا گیا تھا۔ عراقی شیعہ جماعتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے عراق میں امریکیوں نے جو مختلف سازشیں رچائیں، ان میں القاعدہ اور اس طرح کی دوسری انتہاء پسند سلفی نظریات کی جماعتوں کو بلواسطہ اور بلاواسط مضبوط کرنا تھا۔ اس کام کے لیے سعودی عرب اور ترکی نے اپنے کندھے پیش کیے۔ امریکی جب تک عراق پر قابض رہے، القاعدہ اور الرافدین غیر محسوس طریقے سے امریکی ایجنڈے پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران امریکہ نے القاعدہ، الرافدین اور صدام کی بعث پارٹی کی اہم شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے جس یونیوسٹی کا انتخاب کیا گیا اس کا نام "بوکا جیل" تھا۔

اس جیل میں القاعدہ، الرافدین، بعث اور بعض دیگر ناموں سے سرگرم انتہاء پسند سلفی و وہابی نظریات کے گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا گیا۔ اس جیل میں موجود ایک بڑا نام ابوبکر بغدادی بھی تھا، جسے اس جیل میں دس ماہ تک رکھا گیا۔ ابوبکر بغدادی کا پورا نام ابراہیم بن عواد بن ابراہیم بن علی بن محمد البدری تھا۔ وہ 1971ء میں عراق کے شہر سامراء میں پیدا ہوا اور بعض صحافتی رپورٹوں کے مطابق اس نے صدام یونیورسٹی عراق سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ابوبکر بغدادی کا سامراء سے بوکا اور وہاں سے موصل اور شام تک خلافت کا سفر عجیب و غریب تضادات سے بھرا ہوا ہے، لیکن جب اس نے موصل میں اپنی خلافت کا اعلان کیا تو داعش کی تشکیل پر نظر رکھنے والے محققین کا یہ کہنا تھا کہ ابوبکر بغدادی کو صدام کی بعث پارٹی آگے لا رہی ہے۔ بعض نے اسے صدام کا سابق فوجی کمانڈر تک کہا تھا۔ آج جب یہ خبر سامنے آئی کہ ابوبکر بغدادی نے صدام کے ایک سابق فوجی افسر کو اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا ہے تو داعش کی بلی تھیلے سے باہر میائوں میائوں کرتے نظر آنے لگی۔ اس اعلان کے بعد خلافت بھی خطرے میں نظر آرہی ہے۔


خبر کا کوڈ: 812321

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/812321/بلی-تھیلے-سے-باہر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org