0
Sunday 25 Aug 2019 12:46

واقعه کربلاکی عظمت اور همه گیری کا راز (1)

واقعه کربلاکی عظمت اور همه گیری کا راز (1)
تحریر: مولانا فدا حسین ساجدی

انسانی تاریخ پر نگاه ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے که اس میں ہزاروں واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن امتداد زمانه کی زد میں آ کر ان میں سے اکثر تاریخ کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہاں بعض واقعات ایسے بھی ہیں جن کو تاریخ نے ایک مہربان ماں کی طرح اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے اور نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچایا ہے اور انسانوں نے ان واقعات کو تمام جزئیات کے ساتھ کبھی فراموش نہیں کیا۔ لہٰذا ایک سوال تمام صاحبان فکر کے لئے پیدا ہوتا ہے وه یه که ان واقعات میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے بعض کی عظمت، ہمه گیری اور ہمیشگی کی کیا وجه ہو سکتی ہے؟ جس کی بنا پر تاریخ کبھی ان کو  اپنے دامن سےجدا نہیں کرنا چاہتی ہے۔ انہی واقعات میں سے ایک اہم واقعه، کربلا کا واقعه ہے، یه واقعه 61 ہجری  کو سرزمین عراق کے طف نامی جگه پر وقوع پذیر ہوا اور امام حسین (علیه السلام) اپنے قلیل اصحاب اور ساتھیوں کے ساتھ ظلم، کفر اور اس دور کی سامراجی حکومت کے مدمقابل کھڑے ہو گئے اور بے مثال شجاعت اور دلیری کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور انسانی و اسلامی اقدار کو ہمیشه کے لئے زنده اور تابنده کرگئے.

ایک طرف واقعه کربلا رونما ہوئے سینکڑوں سال گذر گئے ہیں اور دوسری طرف دشمن اور عالمی سامراج کی طرف سے اس عظیم نہضت کو ختم کرنے کی پرزور کوشش ہوئی ہے۔ اس کے باوجود نه صرف اس واقعه کی عظمت اور وسعت میں کمی آئی؛ بلکه روز بروز  اضافه ہو رہا ہے اور دنیا کے ہر آزاد سوچ رکھنے والے انسان کے دل میں  اپنی جگه بنا لی ہے۔ واقعه کربلا کی ہمه گیری کی دلیل یه ہے که دنیا کے ہر طبقه فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپ کی ذات اور کردار سے برملا عقیدت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں، بقول جوش ملیح آبادی
کیا صرف مسلمانوں کے پیارے ہیں حسین  
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

معروف مصنف تھامس کارلائل کربلا کے عظیم واقعه کے بارے میں لکھتا ہے، "کربلا کے المیه سے ہمیں سب سے بڑا سبق یه ملتا ہے که امام حسین (علیه السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو خدا پر کامل یقین تھا، آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا که حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے، اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وه کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا"۔

انڈین نیشنل کانگرس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا کہنا ہے، "کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے، جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا، نه ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے"۔ اس حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے، "امام حسین (علیه السلام ) صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہو سکتیں اور امام حسین (علیه السلام) آج بھی انسانیت کے رہنماؤں میں بلند مقام رکھتے ہیں"۔ ڈاکٹر سہنا کا کہنا ہے، "اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں که دنیا کے شہیدوں میں امام حسین (علیه السلام) کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے"۔  مہاراج یوربند سرنٹور سنگھ کہتے ہیں، "قربانیوں کے ذریعه تہذیبوں کا ارتقاء ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین (علیه السلام ) کی قربانی نه صرف مسلمانوں کے لئے بلکه پوری  انسانیت کے لئے ایک قابل فخر کارنامه کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جان دے دی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔
 
اس واقعه کی جاودانگی اور ہمه گیری کے راز کو پہچاننے کی ضرورت ہے، اس واقعه کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے سے یه بات واضح ہو جاتی ہے که اس واقعه کی عظمت اور ہمه گیری کی وجه وه فطری اصول ہیں، جن پر یه واقعه استوار ہے، اور جو بھی حادثه فطری اصول پر مبنی ہو وه کبھی انسانوں کے ذہن سے محو نہیں ہوتا اور سب لوگ خواسته یا نخواسته اس واقعه سے خود کو مربوط رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجه ہیں  که امام حسین (علیه السلام) کی یاد اور ان کے ذکر کی مجالس کسی ایک خطه، یا مذہب، یا قوم سے خاص نہیں ہے، بلکه جب محرم کا مہینه آتا ہے، ہر کوئی اپنی بضاعت کے حساب سے اس میں حصه لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ع۔ل پویڈ لکھتے ہیں، حسین (علیه السلام) نے یه درس دیا که دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، محبت وغیره پائے جاتے ہیں که جو قابل تغییر نہیں ہیں، اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وه دنیا میں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کرلے گا۔

گذشته صدیوں میں کچھ افراد ہمیشه جرات، غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں، اور یهی وجه ہے که آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے۔ حسین (علیه السلام) بھی ان افراد میں سے تھے، جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زنده رکھا۔ ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنکھ اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں، محمد (صلی الله علیه وآله) نے جو انسانیت کے لئے بہترین اصول پیش کئے تھے، حسین (علیه السلام) نےاپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زنده کردیا۔ ان پر ہدایت کی مہر لگادی۔ حسین (علیه السلام) کا اصول اٹل ہے۔ (امام حسین غیروں کی نظر میں) اس مقاله میں مختصر انداز میں ان فطری اصول کی طرف اشاره کرنے کی کوشش ہوئی ہے، جن کی وجه سے واقعه کربلا انسانی تاریخ کے تمام واقعات سے الگ پوری انسانیت کے لئے خاص عظمت اور اہمیت کا حامل بن گیاہ ہے۔

 1۔ للاهیت 
انسان کے اندر بےشمار ایسی صفات پائی جاتی ہیں، جو لامحدود ہیں یعنی انسان کی بہت ساری نفسانی ضروریات ایسی ہیں جو باہر والی محدود چیزوں سے پوری نہیں ہوتی ہیں۔ یا یه که انسان اپنے اندر یه احساس کرتا ہے که اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی یہاں سے معلوم ہوتا ہے که انسان کے وجود سے باہر ایک ایسی ہستی ہے جو لامحدود ہے اور صرف وہی انسانوں کی لامحدود ضروریات کو پوری کرسکتی ہے وه الله کی ذات ہے۔ الله کے بارے میں تھوڑی سی شناخت انسان کے اندر پائی جاتی ہے اور سبھی فطری طور پر الله سے آشنا ہوتے ہیں۔ اگرچه اس شناخت کے مراتب اور مراحل مختلف ہی کیوں نه ہوں۔ اسی طرح الله کی محبت سارے انسانوں کے دلوں میں فطری طورپر ہوتی ہے اسی لئے ہر وه عمل جو الله کے لئے ہوتا ہے اور الله کی راه میں انجام پاتا ہے اس کام سے انسانوں کو ذاتی طور پر لگاؤ ہوتا ہے۔ امام حسین (علیه السلام ) کا قیام الله کی خوشنودی کی خاطر تھا اور آپ نے خدا کی راه میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔

تو آپ کا یه عظیم کارنامه ہمیشه کے لئے جاودان ہو گیا اور جب بھی امام حسین (علیه السلام) کا ذکر آتا ہے ہر وه انسان جس کا ضمیر پاک ہو اس کے دل میں ایک پاک جذبه پیدا ہوتا ہے اور ہر کوئی اس عظیم سانحه کے حوالے سے  فطری طور پر اظہار عقیدت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کسی کام کا الله کی خوشنودی اور رضایت کے لئے ہونا ہی فطری اصول میں شمار ہوتا ہے اور جو بھی عمل اس اصل پر مبنی ہو وه ہمیشه کے لئے جاودان ہو جاتا ہے۔ انگلستان کے مشہور اسکالرو ناول نگار چارلس ڈکسن کہتے ہیں که میں نہیں سمجھتا که حسین (علیه السلام) کو کوئی دنیاوی لالچ تھی یا اگر ایسا ہوتا تو اپنا سارا خاندان بچے اور خواتین کو کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یه ثابت کرتا ہے که حسین (علیه السلام ) نے فقط اسلام اور رضائے الٰہی کے لئے قربانی دی۔

2۔ سامراج دشمنی
انسان فطری طور پر عدل و انصاف کا خواہان اور ظلم و ناانصافی کا مخالف ہے، اسی وجه سے جو بھی ظلم و ستم کا رویه اپناتا ہے، اور ظالمانه انداز میں دوسروں پر راج کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس شخص  سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے۔ حتٰی که اگر خود ظلم کرنے والے سے پوچھا جائے تو وه اپنے عمل کو ظلم سے تعبیر کرنے اور اپنے آپ کو ظالم کہلانے سے انگار کرے گا اور اس کے لئے توجیہات پیش کرے گا۔ امام حسین (علیه السلام) کے قیام  کے اسباب میں سے ایک سامراج دشمنی تھی۔ اسی وجه سے پوری دنیا کے سارے امن پسند اور پاک سرشت افراد اس قیام کو اپنی ضمیر کی آواز سمجھ کر اس عظیم کارنامه کو اپنی مشعل راه قراردیتے ہیں۔ جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے "حق تو یه ہے که اسلام کا یه بہادر میدان کربلا میں شجاعت کے جوہر نه  دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمد (صلی الله علیه و آله) کے دین کا نقشه کچھ اور نظر آتا، وه کبھی اس طرح که نه قرآن ہوتا اور نه اسلام ہوتا، نه ایمان، نه رحم و انصاف، نه کرم و وفا، بلکه یوں کہنا چاہیئے که انسانیت کا نشان تک دکھائی نه دیتا۔ ہر جگه وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔ انسان فطری طور پر امن پسند اور سکون کی زندگی کا طلبگار ہوتا ہے۔

اس کے مقابل سامراجی نظام انسانی زندگی میں بہت ساری مشکلات وجود میں لاتا ہے اور چین کی زندگی اس سے چھین لیتا ہے اور اس نظام میں انسانی حقوق کی رعایت نہیں ہوتی ہے، اور ظالم حکمران اپنے شخصی مفاد کی خاطر عوام کے حقوق کو پائمال کرتے ہیں، اسی وجه سے انسانی تاریخ میں ہمیشه اکثر لوگ سامراجی نظام کے مخالف رہے ہیں، لیکن مختلف اسباب کی بنا پر اس مخالفت کا اظہار ممکن نہیں تھا، ایسی حالت میں جب کوئی عظیم ہستی فطری اصول کے تحت قیام کرتی ہے اور اپنے دور کے سامراجی نظام کے خلاف برسرپیکار ہوتی ہے تو وه شخص ہر دل عزیز بنتا ہے، اور اس کا کارنامه انسانی تاریخ کا ایک بہترین عمل سمجھا جاتا ہے۔ امام حسین (علیه السلام) قیام کے شروع ہی میں ظالم نظام اور اس دور کے سامراج  کی مخالفت میں صدا بلند کی، اور دنیا کے تمام صاحبان فکر و نظر کو دعوت عمل دی۔ آپ نے فرمایا، پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد ہے که جو شخص کسی حاکم کو دیکھے که وه ظلم و جور کرتا ہے، محرمات الهیه کو حلال سمجھتا ہے، خدائی عہد و پیمان کو توڑ چکا ہے، سنت رسول (ص) کی مخالفت کرتا ہے اور بندگان خدا کے بارے میں معصیت کا طرز اختیار کئے ہوئے ہے اور پھر وه شخص ان باتوں سے چشم پوشی اختیار کرکے اس کی مخالفت نه کرے تو الله تعالی اسے بھی اسی بادشاه کے ساتھ محشور کرے گا۔ گرچه اس دور کے حالات کی وجه سے امام (علیه السلام) کا ساتھ دینے والوں کی تعداد نہایت کم تھی لیکن روز بروز اس  قیام کی عظمت  بڑھتی جا رہی ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 812562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش