QR CodeQR Code

امت مسلمہ اور ہماری خارجہ پالیسی

25 Aug 2019 18:04

اسلام ٹائمز: ایران اور ترکی نے پاکستان کی حمایت کی، اسکی وجہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی سے زیادہ ان دونوں ممالک کی اپنی خارجہ پالیسی کے اصول ہیں۔ اگر ترکی اور ایران کی موجودہ قیادت ایسا نہ کرتی تو ہمیں تعجب ہوتا، کیونکہ وہاں کی حکومتوں نے جدید تصور ریاست کے مفاداتی نظام سے اوپر امت مسلمہ کے تصور کو رکھا ہے کہ ہم نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کیلئے آواز اٹھانی ہے۔ اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے بعد بھی ہر سو خاموشی ہی خاموشی کیوں ہے؟ اس پر بڑی سطح کی ڈیبیٹ کی ضرورت ہے۔ اسکی کئی وجوہات ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہے کیا؟ خارجہ امور چلانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اسکا نقصان ہونا تھا، جو ہوا اور آج کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے کہ دنیا ہمیں کیوں چھوڑ گئی ہے۔؟


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ہندوستانی استعمار کے حالیہ جارحانہ اور انسانیت کش اقدامات کے خلاف اہل کشمیر اور اہل پاکستان سراپا احتجاج ہیں۔ ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بیس سے زیادہ دن گذر چکے ہیں اور پوری وادی دنیا سے کٹی ہوئی ہے، اہل کشمیر جان ہتھیلی پر رکھ کر تحریک آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سنگین حالات میں ہم اہلیان پاکستان اس بات کی امید رکھتے ہیں اور ہماری ریاست بھی امید رکھتی ہے کہ مسلمہ امہ، ہم ہر مشکل میں جس کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، وہ ہماری مدد کو آئے گی۔ عملی طور پر کچھ نہ بھی کیا جائے تو بیانات کی شکل میں تو ساتھ دیں گے۔ اکثر مواقع پر جب پاکستان کو کسی بھی  عملی اقدام کی توقع کم رہی، مگر سفارتی مدد حاصل رہی۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور ایران و ترکی کو چھوڑ کر ہر طرف کاٹ کھانے والی خاموشی ہے۔

بالا کوٹ حملے کے بعد ہی جارحانہ سفارتکاری کا آغاز کر دینا چاہیئے تھا ۔ پاکستان پر باقاعدہ حملہ ہوا تھا، مگر دنیا نے کوئی ردعمل نہیں دیا تھا۔ یہ تو جب ہم نے انڈیا کے جہازوں کو گرا کر اور ان کا پائلٹ گرفتار کرکے دنیا کو بتایا کہ ہم کمزور نہیں ہیں تو مسلمان ممالک بھی متوجہ ہوئے تھے اور سچی بات ہے، اس سے پہلے دنیا کا میڈیا  یک طرفہ رپورٹنگ کر رہا تھا، یہاں تک کہ نام نہاد مسلم میڈیا کے بڑے نام بھی انڈین میڈیا کی مسلم شاخیں لگ رہے تھے، مگر جیسے ہی جہاز گرایا گیا، تب ان کی رپورٹنگ کا انداز تبدیل ہوگیا۔ اس سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ غریب اور کمزور کا کوئی نہیں ہے، ہر کوئی طاقتور کے ساتھ ہے۔

ایک دور تھا کہ دنیا میں اخلاقیات کی اہمیت تھی، لوگ نظریئے کی قدر کرتے تھے اور نظریاتی بنیادوں پر کمزور اور محکوم کی حمایت کرتے تھے۔ اس میں مفادات کی قربانی بھی دے دی جاتی تھی، اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ ایک تو دنیا نظریاتی تقسیم کا ہی شکار تھی اور دوسرا بڑی تعداد میں ریاستیں استعماری قوتوں سے آزاد ہوئی تھیں، اس لیے وہ کمزور ہونے کا مطلب اچھی طرح جانتی تھیں۔ اب عرصہ ہوا نظریاتی دور ختم ہوچکا، سرمایہ درانہ نظام نے دنیا کو پوری طرح اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔ اب ہر تعلق کی بنیاد سرمایہ درانہ نظام کے اصول ہیں اور وہ صرف اور صرف مفاد کے تحفظ کا نام ہیں۔ ہر ملک اپنے سفارتکاروں کی تربیت کرتا ہے کہ تمہارے لیے سب سے مقدم تمہارا مفاد ہے، یہ اصول ظاہری طور پر ٹھیک لگتا ہے، مگر ملکوں کے تعلقات میں اگر صرف مفادات کو بنیاد بنایا جائے تو ہر طاقتور ظالم کا ساتھی بننا پڑے گا۔

عرب امارات نے مودی کو سب سے بڑا سول ایوارڑ دیا اور سعودی عرب اس سے پہلے دے چکا ہے۔ جیسا کہ سننے میں آیا ہے، کویت اور انڈونیشیا جیسے مسلمان ممالک نے بھی ہمارے خلاف ووٹ دیئے ہیں، اس کو امت کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے جدید ریاست کے پروردہ مفادات کے اسیر لیڈروں کی رائے کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔ مسلمان ممالک کیوں خاموش ہیں؟ اس کی وجہ بھی مفادات ہیں، ہر کوئی اس زعم میں ہے کہ ہم اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ چودہ سو سال بعد عربوں نے مندر ہندوں کی محبت میں نہیں، اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنائے ہیں۔

یہاں لوگوں نے بہت سوالات اٹھائے کہ امہ کہاں ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے، مگر بدنیتی پر مبنی ہے۔ امت اپنی جگہ موجود ہے، قومی ریاست کے مفادات کے تحفظ کا حلف اٹھانے والوں کا کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز نہ اٹھانا سمجھ میں آتا ہے۔ امت مسلمہ معاشرے کا نام ہے، وہ اپنی جگہ قائم ہے، حکمران جو مرضی بیان دیں، مسلمانوں کے دل اہل کشمیر کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مسلمان چاہے عرب دنیا کا ہو یا افریقہ کا، ہر جگہ جیسے ہی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سنتا ہے تو فوراً اس کی مذمت کرتا ہے اور ان کے لیے پریشان ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب بتا رہے تھے کہ ہم امریکہ سے غالباً مراکش آرہے تھے، میرے ساتھ ایک امریکی سکالر تھا، سفر کے دوران ہم امہ کے تصور پر بات کر رہے تھے، وہ کہہ رہا تھا کہ امہ کا کوئی عملی وجود نہیں ہے۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسی بات نہیں ہے، مگر وہ نہیں مان رہا تھا۔

جب ہم ائرپورٹ پر اترے تو اس کے پاس امریکی پاسپورٹ تھا، وہ آرام سے سپیشل راستے سے گذرنے لگا اور مجھے لائن میں لگنا پڑا، جب وہ جا رہا تھا تو میری طرف دیکھ کر آنکھوں آنکھوں میں ہی یہ بتا رہا تھا کہ دیکھو یہ تمہارا اسلامی مملک ہے،  جہاں میں سپیشل پروٹوکول میں جا رہا ہوں اور تم لائن میں کھڑے ہو۔ کہتے ہیں جب میں ائر پورٹ سے باہر نکلا تو وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہم نے ٹیکسی لی، ٹیکسی والے نے بیٹھتے ہی ان سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ امریکی نے امریکہ کا بتایا،  اس نے واجبی سا ردعمل دیا، جب میں نے پاکستان کا بتایا تو اس نے فوراً حترام کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ اس وقت میں نے امریکی اسکالر سے کہا یہ امہ ہے، جو ہر مسلمان ملک میں موجود ہے۔ یہی امہ بین الاقوامی مسلم بھائی چارہ تشکیل دیتی ہے، جس کی بنیاد مذہب ہے۔ جہاں جہاں جدید ریاست کے نظم نے مسلمانوں کو جکڑ رکھا ہے، وہ اسی نظام کو فالو کرتے ہیں، جس کی بنیاد مغرب کے سیکولر تصور پر قائم ہے، جس میں مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آج ہم جس ردعمل سے پریشان ہیں کہ ہمارے مسلمانوں بھائیوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، اس کی بنیاد یہی نظریہ ہے۔

ایران اور ترکی نے پاکستان کی حمایت کی، اس کی وجہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی سے زیادہ ان دونوں ممالک کی اپنی خارجہ پالیسی کے اصول ہیں۔ اگر ترکی اور ایران کی موجودہ قیادت ایسا نہ کرتی تو ہمیں تعجب ہوتا، کیونکہ وہاں کی حکومتوں نے جدید تصور ریاست کے مفاداتی نظام سے اوپر امت مسلمہ کے تصور کو رکھا ہے کہ ہم نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانی ہے۔ اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے بعد بھی ہر سو خاموشی ہی خاموشی کیوں ہے؟ اس پر بڑی سطح کی ڈیبیٹ کی ضرورت ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہے کیا؟ خارجہ امور چلانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اس کا نقصان ہونا تھا، جو ہوا اور آج کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے کہ  دنیا ہمیں کیوں چھوڑ گئی ہے۔؟

ہمیں جماعتی، اداراتی مفادات سے بلند ہو کر پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی بنایا ہوگی۔ اس کی بنیاد مضبوط معیشت ہے، دنیا میں کیا، محلے میں بھیک مانگنے والے کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام عناصر کو مل کر طے کرنا ہوگا اور ذمہ داریوں کو باہم تقسیم کرنا ہوگا، اس کے بعد ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ مثلا اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وزارت دفاع وہ چلائے تو ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر ان کی بات کو اہمیت دی جائے، اسی طرح دیگر ریاستی  معاملات سیاستدانوں کو چلانے دیئے جائیں اور ان پر اعتماد کیا جائے۔ ایک دوسرے کو بدنام کرنے اور ناکام کرنے سے ریاست کا نقصان ہوتا ہے اور آج صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی مسلمان ملک بھی ہماری حمایت کرنے کو تیار  نہیں ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرح کوئی چارٹر ریاستی امور چلانے کے لیے بنانا پڑے گا۔


خبر کا کوڈ: 812618

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/812618/امت-مسلمہ-اور-ہماری-خارجہ-پالیسی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org