1
Monday 26 Aug 2019 14:42
مجالس عزاء کیخلاف ایف آئی آر تشیع کیخلاف اقدام تصور کیا جائیگا

تشیع ایک وحدت کا نام ہے، گروہ بندی کی خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں، فیصل آباد کانفرنس میں علامہ ساجد نقوی کا خطاب

بحرین میں کرائے کے قاتل بھیجنے والوں کی مثال مودی جیسی ہے
تشیع ایک وحدت کا نام ہے، گروہ بندی کی خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں، فیصل آباد کانفرنس میں علامہ ساجد نقوی کا خطاب
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امام بارگاہ بوستان زہرا (ع) فیصل آباد میں تحفظ و فروغ عزاداری کانفرنس سے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ زیارات سے واپسی کے بعد اس اجتماع کے شرکاء کی زیارت نصیب ہوئی، میرے نزدیک علامہ محسن نجفی اور علامہ ریاض حسین نجفی کی سرپرستی میں منعقد ہونیوالا یہ پروگرام قابل قدر ہے، اسی طرح پروگرام کے انتظامات کے سلسلے میں جے ایس او کے جعفریہ اسکاوٹس کی کوششیں بھی قابل تحسین ہیں، ہمیں امید ہے کہ موجودہ حالات کو بہتر بنانے میں یہ اجتماع موثر ہو سکتا ہے۔ علامہ ساجد کی خطاب کے چیدہ چیدہ نکات حسب ذیل ہیں:

کسی کی مخالفت میں اجتماع ہماری حکمت و دانش کیخلاف ہے:
اس اجتماع کے متعلق جن اداروں نے شکوک و شبات کا اظہار کیا ہے وہ جانچ پڑتال کیلئے سمجھدار لوگوں کو لگائیں، اس اجتماع کا مقصد کسی سے محاذ آرائی نہیں، پھر میری شرکت تو ہر جگہ ہوتی ہے، تو جو مخالفین ہوتے بھی ہیں وہ راضی ہو جاتے ہیں، یہ پروگرام تشیع کی رہنمائی کیلئے ہے، جو دلچسپی رکھتے ہیں، تشیع اب اس مقام پہ پہنچ چکا ہے کہ ہم کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ کسی کیخلاف پروگرام کریں کیونکہ ہمارا کردار صرف پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہے، اس لیے ہم اپنی توانائی کو بے محل استعمال کرنا حکمت و دانائی کیخلاف سمجھتے ہیں۔

کشمیر اور فلسطین کے حق میں پرخلوص اور موثر آواز ہماری ہے:
انہوں نے کہا کہ جب بھی امت مسلمہ کیلئے مشکل وقت آئیگا اسوقت ہمارا رول دنیا کے سامنے آئیگا، دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں بشمول تحریک آزادی کشمیر کیلئے ہم نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، آج بھی فلسطین کیلئے کوئی پر خلوص اور طاقتور آواز بلند ہوتی ہے تو وہ ہماری صفوں سے ہی ہوتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جن کرایے کے لوگوں کو گلی کوچوں سے اٹھا کر ہمارے خلاف مامور کیا گیا، ایسی نسل کیخلاف ہم نے کوئی اجتماع نہیں کیا، نہ ہی یہ اجتماع کسی کیخلاف ہے۔

تشیع ایک عالمی وحدت کا نام ہے:
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی اس میں کوئی صداقت ہے کہ شیعوں میں گروہ بندی اور فرقہ سازی ہو رہی ہے، یہ جھوٹ پر مبنی رپورٹیں ہیں، تشیع اب ایک مقام پر پہنچ چکا ہے، دنیا کے اندر تشیع ایک وحدت ہے، پاکستان کے اندر تشیع ایک وحدت ہے، جاہل اور نادان لوگ اگر کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس سے ذرہ بھر فرق نہیں پڑتا۔

پاکستان میں تشیع کو کمزور کرنیوالے ذلیل ہوئے:
انکا کہنا تھا کہ دنیا کی بڑی قوتوں اور طاقتوں نے کثیر سرمایہ لگا کر پاکستان میں تشیع کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ خود ذلیل ہو گئے اور تشیع سربلند اور سرفراز موجود ہے، اس لیے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ ایک نمائندہ اجتماع ہے جسکا مقصد رہنمائی فراہم کرنا ہے، اس سے حکمرانوں تک پاکستان بھر کی نمائندہ آواز جائیگی۔ ہماری حکمت عملی ایسی تھی کہ جس سے پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، آج ہمارا دشمن کہیں نظر نہیں آئیگا، انشا اللہ نہ کسی کو آئندہ جرات ہو گی، ہمارے اقدامات کیوجہ سے آج پارلیمنٹ میں ایسا سوراخ بھی نہیں ملے گا، جس سے تشیع کیخلاف ایک پرزہ پھینکنے کی گنجائش ہو، کسی سیاسی گروہ میں جرات میں نہیں کہ تشیع کیخلاف آواز بلند کرے۔

عزاداری کے اہداف اور رسوم دو اہم پہلو ہیں:
انہوں نے کہا کہ عزاداری کے دو پہلو ہیں، مجھ سے پہلے تمام بزرگوں نے جو خطاب کیے ہیں وہ بڑے قیمتی ہیں، میں اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا، وہ آپ کیلئے بڑا فکری اور علمی و عملی سرمایہ ہے،  عزاداری کا ایک پہلو اس کے اہداف و مقاصد ہیں، وہ وہی ہیں جن ہستیوں کی ہم عزاداری منا رہے ہیں جو انکے مقاصد تھے، اس پیغام کو اور زیادہ وسیع تر انداز میں پھیلانے کی ضرورت ہے، عام آدمی جس تک کسی سچ بولنے اور علم سے روشناس کروانے والے کی رسائی نہیں ہے، انتظام کیجیے کہ یہ پیغام اس بے چارے آدمی تک پہنچے، اس عام آدمی سے گلہ نہ کیجیے، اگر اسکو گمراہ کیا جا رہا ہے تو اسے گمراہی سے بچانے کیلئے بندوبست کیجیے، ہمیں اپنا دائرہ وسیع کر کے ان کمزور اور بے وسیلہ لوگوں تک پہنچنا چاہیے، جو علماء تک پہنچ کر معلومات حاصل نہیں کرسکتے۔

مراسم عزاداری کے متعلق حکومت کو تنبیہ:
انہوں نے کہا کہ دوسرا پہلو ہے عزاداری کی رسمیں، یہاں بھی یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان بنانے میں ہمارا کردار ہے، میں نے یہ بات کہنی چھوڑ دی ہے، مجھے یہ بتانے کی ضرروت نہیں ہے، اگر کسی کو نہیں پتہ تو بتائے کہ کس مرحلے پہ پاکستان میں ہمارا رول نہیں رہا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں، پاکستان کو بنانے میں، پاکستان کو چلانے میں، پاکستان کو بچانے میں کونسا ایسا مرحلہ ہے جہاں ہمارا رول نہیں ہے، یہ تاریخ ہے کہ پاکستان کو بنایا کس نے، پاکستان کا خزانہ جب خالی تھا تو اسکو بھرا کس نے، پاکستان بچایا کس نے، والئی نگر تک یہ سلسلہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سب کچھ سے ہٹ کر میں پاکستان کا ایک شہری ہوں، آئین، قانون اور عدالت مجھے حق دیتے ہیں، میں جب چاہوں، جہاں چاہوں عزاداری منا سکتا ہوں۔

مجھے کوئی روک نہیں سکتا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ پچھلی حکومتوں نے مجالس عزاء پر ایف آئی آرز کاٹیں، یہ مجلس عزاء پر نہیں پورے تشیع پر ایف آئی آرز ہیں، میں نہیں مانتا ایسی ایف آئی آر کو۔ انہوں حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں واضح کر رہا ہوں کہ ایسے غیر قانونی کام مت کرو، ملک کی داخلی سلامتی کو خطرے میں مت ڈالو، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک بانی مجلس کو محرم سے پہلے عزاداری کے جرم میں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابل مذمت ہے، میرا مطالبہ ہے کہ جس افسر نے یہ کام کیا ہے اس کو سبکدوش کیا جائے، جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، اسے آزاد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی باتیں، جب کشمیر کی گھبیر صورتحال ہے، ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔

بحرین میں کرائے کے قاتل بھیجنے والوں کی مثال مودی جیسی ہے:
میں یہاں یہ بات کرنے پر مجبور ہوں کہ تم کہتے ہو کہ مودی نے کشمیر میں آبادی کا تناسب خراب کرنے کیلئے کرفیو لگا دیا ہے، تو پھر ہوشیار رہو اور ایسے کام پاکستان میں تم بھی نہ کیا کرو۔ میں نے تمہیں متوجہ کیا تھا کہ بحرین کی شیعہ آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے تم نے پاکستان سے لوگ بھیجے تھے، جنکو میں جانتا ہوں، تم بھی ایسے کاموں سے باز آ جاؤ، ہم لعنت بھیجتے ہیں مودی پر، ہم ہر لمحہ کشمیریوں کیساتھ ہیں، تم نے جو بحرین میں کیا وہ وہاں کیسے درست تھا تمہارے نزدیک، میں نے حکمرانوں کو کہا تھا، ان کے سامنے کہا تھا، یہاں سے قاتل بھرتی کر کے بحرین بھیجے گئے، میں نے روکا تھا کہ ایسے کام مت کرو، یہ ملک کی سلامتی کیخلاف ہے، ایسی عادت مت ڈالو لوگوں کو، ہم نے ایسا کام کبھی نہیں کیا جو ملک کی سلامتی کیخلاف ہو۔

انہوں نے کہا کہ عزاداری میں بھی کبھی کوئی خلافِ قانون کام نہیں کیا، اسی طرح عزاداری کیخلاف کوئی خلاف قانون پابندی بھی برداشت کرنیکے لیے تیار نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلی حکومت کو بھی کہا تھا کہ ہمارے خلاف غیر قانونی اقدامات مت کرنا، ورنہ دھرنے اور ریلیاں جو پچھلی حکومت کیخلاف ہوئے، انہیں تم بھول جاؤ گے، اور موجودہ حکومت نے بھی وہی اقدامات کیے تو ہمارا احتجاج اسوقت تک ختم نہیں ہوگا، جب تک مقصد حاصل نہیں ہوگا، ہم پر امن ہیں، لیکن محرم میں ایسی کوئی پابندی جو آئین اور قانون کیخلاف ہے اسے قبول نہیں کرینگے، اس کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے اور اس قربانی کا تعین ہم نے کرنا ہے۔

ذکر مصائب کا بیان:
اپنے خطاب کے آکر میں انہوں ذکر مصائب بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے بڑی بڑی قربانیاں موجود ہیں، کربلا میں کونسی قربانی موجود نہیں ہے، وہ قربانی جو زینیبؑ سلام اللہ علہیا نے دی، جب لق و دق صحرا میں پڑی تھی لاش حسینؑ ابن علیؑ کی، اعلان ہوتا ہے کہ کون ہے جو حسین علیہ السلام کے جسم اطہر کی بے حرمتی کرے، مشرق کے گھوڑے مغرب میں اور مغرب کے گھوڑے مشرق میں چلے، اس انداز میں چلے کہ سینے کی ہڈیاں پشت کی ہڈیوں سے جاملیں، جب بہن آئی بھائی کی لاش پر، تو پہچان نہیں سکی، کہا کہ میرے بھائی حسینؑ آپ ہیں؟، میری ماں زہراؑ کے بیٹے آپ ہیں، توحید شناس باپ کی توحید شناس بیٹی نے بھائی کی لاش اٹھا کر آسمان کی طرف رخ کیا اور کہا کہ اللہم تقبل منا ہذا القربان، ہم اہلبیتؑ کی قربان قبول فرما۔

کانفرنس کی کارروائی پر ایک نظر:
کانفرنس کا انعقاد جامعۃ الکوثر کے سربراہ علامہ محسن نجفی اور جامعۃ المنتظر کے سربراہ علامہ ریاض حسین نجفی کی سرپرستی میں عمل میں آیا اور علامہ قاضی مرتضیٰ اور علامہ افضل حیدری نے اجلاس کے انتظامات اور پروگرام کی کاروائی کی ذمہ داری انجام دی۔ جعفریہ اسکاوٹس نے سیکورٹی، نظم و ضبط اور پانی اور طعام کے انتظامات انجام دیئے۔ اجتماع کے دوران نماز باجماعت ادا کی گئی، علماء، شعراء اور شیعہ عمائدین نے اجتماع سے خطاب کیے، حاضرین اور شرکاء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ پنڈال کو بڑے منظم انداز میں سجایا گیا تھا۔ کانفرنس کی دونوں نشستوں میں کثیر تعداد میں لوگ شریک رہے، پنجاب کے مختلف اضلاع سے قافلوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا، پہلی نشست میں استقبالیہ کلمات غلام مرتضیٰ رضوی نے ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے مہمان نہیں سید الشہداء علیہ السلام کے مہمان ہیں۔ بعد ازاں مولانا مفتی عابد حسین، عزاداری کمیٹی کے رکن مولانا قاضی مرتضیٰ، حیدر آباد سے مولانا کرم علی حیدری، اسلام آباد سے مرزا حسین صابری، مولانا نسیم حیدر، مولانا سبطین سبزواری، مولانا اصغر یزدانی، مولانا اعجاز حسین شاکری، مولانا افضل حیدری، مولانا شفا نجفی، مولانا اظہر عباس شیرازی نے خطاب کیا، نماز ظہر اور وقفہ طعام ہوا۔

دوسری نشست کے آغاز میں کلیہ اہل بیتؑ کے شعبہ تحفیظ کے طلاب نے تواشی پیش کیے۔ مولانا عامر عباس ہمدانی نے دوسری نشست کے افتتاحی کلمات ادا کیے۔ دوسری نشست کی نقابت کے فرائض مولانا افضل حیدری نے انجام دیئے۔ اس دوران علامہ ساجد نقوی پنڈال میں تشریف لائے اور علامہ افتخار حسین نقوی نے خطاب کیا۔ اس کے بعد ملتان سے آئے ہوئے شاعر زوار بسمل نے کلام پیش کیا۔ بعد ازاں کوٹ ادو سے مولانا اقبال حسین خان، آئی او کے سابق چیئرمین لعل مہدی خان، جے ایس او کے مرکزی صدر ذیشان عباس نے جعفریہ اسکاوٹس کا شکریہ ادا کیا، اور مولانا حافظ کاظم رضا نقوی، آئی او کے چیئرمین سید سجاد نقوی، جامعۃ الکوثر کے مولانا شیخ انور علی، علامہ تقی نقوی، علامہ محسن نجفی اور سب سے آخر میں شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے خطاب کیا۔ علامہ ساجد علی نقوی کے خطاب سے پہلے مولانا ظفر شہانی نے قراردادیں پیش کیں: 

کہ یہ اجتماع علماء کی سرپرستی میں وطن عزیز کی سرحدوں کے دفاع کا عزم بالجزم کرتا ہے، اجتماع کشمیر، فلسطین اور یمن کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کرتا ہے، ہر جارح اور ظالم قوت کی مذمت کرتا ہے، محرم الحرام میں حکومت عدم معلومات کی بناء بعض علاقوں میں علماء پر پابندیاں لگانے کا ناجائز سلسلہ بند کرے، حکومت اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے بیرونی طاقتوں سے بے نیاز ہو کر کشمیر کے مسلمانوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، اجتماع اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے پھیلائے گئے انحراف کے خلاف علماء کی سرپرستی میں جد و جہد کا عہد کرتا ہے، اجتماع عزاداری امام حسین علیہ السلام کی فکری، نظریاتی اور عملی ترویج کا عہد کرتا ہے، حکومت محرم میں عزاداری کی حفاظت یقنی بنائے، اجتماع کانفرنس کے انعقاد پر علماء اور بزرگان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہم امام بارگاہ بوستان زہرا (ع) کی انتظامیہ، خدمات انجام دینے والے رضا کاروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

کانفرنس کی آخری نشست میں خطاب کرتے ہوئے مولانا افضل حیدری نے کہا کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ بزرگان کچھ نہیں کر رہے اس لیے ہمیں میدان میں آنا پڑا، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کئی سالوں سے یہ کوششیں جاری ہیں، نصریت کیخلاف بشارت عظمیٰ کانفرنسوں اور دین فہمی سیمینارز کے ذریعے اضلاع میں یہ کوششیں جاری رہیں گی، ہم ایک ایک گھر تک یہ پیغام پہنچائیں کہ حقیقی حسینیت کیا ہے، جن لوگوں نے یہ کہا وہ اپنا کام ضرور کریں لیکن یہ نہ کہیں اور کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ کانفرنس کے آغاز میں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ کسی تنظیم سے مخصوص پروگرام نہیں بلکہ اس کی سرپرستی تمام لوگوں کے استادوں نے کیا ہے، یہاں کوئی غیر ذمہ دارانہ تقریر تو کجا نعرہ بھی نہیں لگایا جائیگا۔ پروگرام کو سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ کانفرنس کی کوریج ڈرون کیمرے سے کی گئی۔
خبر کا کوڈ : 812693
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش