0
Tuesday 27 Aug 2019 10:00

امریکی ثالثی۔۔۔ تھپڑ سے نہیں صاحب، پیار سے ڈر لگتا ہے

امریکی ثالثی۔۔۔ تھپڑ سے نہیں صاحب، پیار سے ڈر لگتا ہے
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے پیشکش کی تھی کہ وہ کشمیر کے ایشو پر ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ ٹرمپ کے بقول انہیں مودی نے بھی ثالثی کیلئے کہا تھا، مگر بھارت سرکار کھڑے پاوں ہی مکر گئی اور واضح کہہ دیا کہ ہم نے امریکہ کو ثالثی کیلئے نہیں کہا۔ انڈیا کا موقف ہے کہ کشمیر ہمارا اندرونی معاملہ ہے، اسے ہم خود حل کر لیں گے۔ اب  فرانس میں جی سیون کے اجلاس میں بھی ٹرمپ مودی ملاقات ہوئی ہے، جس میں دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور تجارتی معاملات پر بھی بات چیت کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ گذشتہ شب پاکستان سے بھی مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوئی تھی۔ دونوں ممالک کو مل کر مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا اور مجھے امید ہے ایسا ممکن بھی ہے، تاہم دونوں ممالک کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے دستیاب ہوں گا۔

ٹرمپ وائٹ ہاوس میں بیٹھ کر تو بہت اچھل رہے تھے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کرکے اسے حل کروائیں گے، کیونکہ دونوں وزرائے اعظم، مودی اور عمران سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں، مگر فرانس میں پہنچ کر ان کی ٹون تبدیل ہوگئی اور یہاں وہ بھارتی موقف کے ہم نوا بن گئے کہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کا ہے، یہ خود حل کریں، یہ اگر کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں نے یہ مسئلہ حل کرنا ہوتا تو یہ کب کا حل ہوچکا ہوتا، اتنی تاخیر نہ ہوتی۔ یہ مسئلہ یہ دونوں ملک حل کر ہی نہیں سکتے۔ اس مسئلے کے حل میں برطانیہ کردار ادا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ پیدا کردہ ہی اسی کا ہے۔ مگر برطانیہ روز اول سے تماش بین کا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ اب امریکہ اس معاملے میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ امریکہ کا ہدف بھی کشمیر کی آزادی نہیں بلکہ وہ مقبوضہ لداخ میں اپنا بیس کیمپ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے، تاکہ وہ چین پر نظر رکھ سکے۔

امریکہ ہو یا برطانیہ، ان دونوں ملکوں کے دل میں کبھی بھی مسلمانوں کا درد نہیں رہا۔ بلکہ مسلمانوں کو عتاب میں دیکھ کر یہ دونوں خوش ہوتے ہیں اور اس مقصد کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ پہلے شیعہ سنی کو لڑایا گیا اور آج کل ایم آئی سکس شیعہ کو شیعہ سے اور سنی کو سنی سے لڑانے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔ ادھر دہلی میں اسرائیلی سفارتخانہ آج کل بہت زیادہ فعال ہے، مودی کو کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کا مشورہ بھی اسرائیلی ہی لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے کشمیر کو انڈیا میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ یہاں انڈیا سے لاکر ہندو آبادی کو بسایا جائے اور مسلمانوں کے آبادی کے تناسب کو متاثر کرکے عالمی برادری کو مطمئن کیا جائے۔ کشمیر کے انڈیا میں انضمام سے یہاں ہندو آباد کئے جائیں گے۔ جب نئی ہندو آبادی کشمیر کی اصل مسلم آبادی کی نسبت زیادہ ہو جائے گی تو مودی کشمیر میں ریفرنڈم کا اعلان کر دے گا۔ اس ریفرنڈم میں زیادہ ووٹ انڈیا کے حق میں پڑیں گے، یوں انڈیا عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور دنیا کو کہہ سکے گا کہ کشمیری عوام نے انڈیا کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ دے دیا ہے۔

کشمیر میں لاگو کیا گیا یہ اسرائیلی پلان دراصل کشمیر کو غزہ بنانے کی سازش ہے۔ اس سے جہاں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متاثر ہوگی، وہیں وہ انڈیا کی غلامی میں آجائیں گے۔ انڈیا کی غلامی میں آنے سے ان کیساتھ بھی وہی سلوک ہوگا، جو اب مسلمانوں کیساتھ انڈیا میں ہو رہا ہے کہ گائے لے جانے پر بھی قتل کر دیا جائے اور بے گناہی کے ثبوتوں کے باوجود مقتول مجرم اور قاتل باعزت بری قرار پائے گا۔ کشمیر میں اس وقت تسلی بخش صورتحال یہ ہے کہ 95 فیصد کشمیری متحد ہیں اور مودی کے فیصلے کو مسترد کرچکے ہیں۔ حتیٰ نیشنل کانفرنس (جسے بھارت نواز کہا جاتا ہے) اس کے گڑھ صورہ میں عوام کی رائے تبدیل ہوچکی ہے اور اس وقت جب پوری وادی میں خطرناک قسم کی خاموشی ہے، صورہ سب سے گرم محاذ بنا ہوا ہے۔ صورہ میں جمعہ کے روز سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ انڈین فورسز کو شہر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا، نوجوانوں کی لاٹھی بردار ٹولیاں شہر میں گشت کر رہی ہیں۔ رات کے اوقات میں اگر فورسز شہر میں داخل ہونے کی کوشش بھی کرنے لگیں تو یہ نوجوان دکانوں کے شٹر بجا کر پوری آبادی کو آگاہ کر دیتے ہیں، جس سے فورسز پسپا ہو جاتی ہیں۔

صورہ کے نوجوانوں کی بھارتی فوج کیساتھ متعدد چھڑپیں بھی ہوچکی ہیں اور جھڑپوں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے آنسو گیس شیل اور پیلٹ گن استعمال کی جا رہی ہے۔ انتخابی حلقہ بندی کے حساب سے صورہ گاندر بل کے حلقے کا حصہ ہے۔ یہ نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ کا علاقہ ہے، جو عمر عبداللہ کا بیٹا ہے۔ مگر یہاں صورتحال تبدیل ہو جانے سے عبداللہ خاندان کئی سالوں سے الیکشن نہیں لڑ رہا۔ اس علاقے میں نیشنل کانفرنس کے موجودگی کے باوجود انڈیا مخالف جذبات زیادہ بڑھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب پورے کشمیر پر ایک خوفناک خاموشی طاری ہے، صورہ کے جناب صاحب اور آنچار علاقوں کی آبادی بھارتی فورسز کیساتھ براہ راست ٹکراؤ میں مصروف ہے۔ مظاہرے جاری ہیں اور ’’ہم کیا چاہتے، آزادی‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ بیداری عبداللہ خاندان کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گی۔ لیکن دوسری جانب مودی کی طرف سے کشمیر کے انڈیا میں انضمام کی کوشش نے دہلی سرکار کیلئے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

کشمیر کی آزادی بہت قریب دکھائی دے رہی ہے۔ وہ دن دہلیز پر کھڑا ہے، جب کشمیری بھی آزاد فضاوں میں سانس لے سکیں گے اور پاکستان کی تکمیل ہوگی۔ مگر اس مقصد کے حصول کیلئے ایک جنگ ہوتی ضرور نظر آرہی ہے۔ مودی کی ناقص پالیسی انڈیا کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل رہی ہے۔ اس میں چین اور پاکستان دونوں کو محتاط انداز میں چلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ چین اور پاکستان کے مدِمقابل صرف انڈیا نہیں بلکہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کا ’’ثلاثہ‘‘ ہے۔ یہ تینوں دنیا کے شاطر ترین دماغ ہیں۔ امریکہ وہ ہے کہ جس کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے پاکستان کو امریکہ کے اس دوستانہ دھوکے میں نہیں آنا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا تھپڑ تو قابلِ برداشت ہے مگر اس کا پیار خطرناک ہوتا ہے۔ اسی لئے امریکہ کی دشمنی سے نہیں، اس کے پیار سے ڈرو، یقیناً کامیابی تمھارے قدم چومے گی۔
خبر کا کوڈ : 812860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش