0
Wednesday 28 Aug 2019 21:21

پاراچنار کا محرم

پاراچنار کی طرح محرم دنیا میں شاید ہی کہیں ہو
پاراچنار کا محرم
تحریر: ایس این حسینی

محرم الحرام آنے میں صرف چند ہی دن باقی ہیں۔ جو عالم تشیع ہی نہیں، عالم اسلام بھی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کے لئے غم بھرے آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کا ایک بحر خروشاں لیکر آرہا ہے۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ تاہم یہ مہینہ ایرانی سال کے پہلے مہینے فروردین، افغانی سال کے پہلے مہینے حمل اور انگریزی سال کے پہلے مہینے جنوری وغیرہ کی طرح خوشیاں اور عید نہیں لارہا، بلکہ یہ مہینہ دنیا کے اکثر ممالک کے مسلمانوں کے لئے اپنے ساتھ غم ہی غم لانے والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں مسلم دنیا بالخصوص عالم تشیع کالے کپڑے پہن کر دنیا پر اپنے اندرونی احساسات و جذبات کو آشکار کرتے ہیں۔ شیعہ مسلمان برج ولایت کے تیسرے ستارے مولا امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں ہر سال امام بارگاہ میں مجالس برپا کرتے ہیں، جبکہ بعض ایام خصوصاً 10 محرم کو جلوس عزا نکال کر سڑکوں پر آجاتے ہیں اور سڑکوں پر کئی کئی گھنٹوں اور کئی کئی کلومیٹر تک ماتم اور سینہ زنی کرتے ہوئے یزید حقیقی نیز یزید وقت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔

دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو، جس میں کہیں کوئی احتجاج نہ ہو، تاہم عاشور کا احتجاج کچھ انوکھے رنگ کا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ دنیا بھر میں ایک ہی دن پر ہونے والے اس احتجاج میں ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیںِ بلکہ کروڑوں افراد شرکت کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر احتجاجات میں مظاہرین اکثر دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، جبکہ یہاں لوگ اپنے جسم ہی کو نشانہ بنا کر اپنے سینے پر ماتم کرتے ہیں۔ اپنے سینوں پر مارنے کے باوجود معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، جنہیں یہ ہضم نہیں ہوتا۔ تاہم اس حوالے سے رہبر کبیر امام خمینی کا یہی جملہ کافی ہے کہ تمہارے سینوں پر پڑنے والے ہاتھ دراصل استعمار کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ ان طمانچوں سے استعمار کو کل جتنی تکلیف تھی، آج اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ استعمار کو ان طمانچوں کی تڑاق کی آوازیں محرم سے کئی ہفتے پہلے ہی سنائی دیتی ہیں اور یہ آواز ریموٹ کی طرح دور ہی سے اپنا اثر دکھا کر انکے چہروں پر نمودار ہو جاتی ہے۔ استعمار کے منہ پر طمانچوں کے اس موسم کی 1381ویں سالگرہ آنے میں صرف دو یا تین دن باقی ہیں۔ دنیا بھر میں محرم الحرام اور عاشورائے حسینی کی یاد جس انداز سے منائی جاتی ہے، اس سے صرف نظر کرکے میں صرف پاراچنار میں عاشورا کی شان و شوکت کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

پاراچنار میں محرم
میں نے ملکی سطح پر بلکہ ملک سے باہر بھی کئی مقامات پر محرم کی مجالس دیکھی ہیں، تاہم جو لطف و مزہ عزاداری کا آپ کو پاراچنار میں حاصل ہوگا، وہ دنیا کے کسی مقام پر نہیں ہوگا۔ یہاں کیا ہوتا ہے، محرم آنے سے بارہ یا کم از کم چھ دن پہلے یعنی عید غدیر یا عید مباہلہ کے بعد سے خوشی پر مبنی تمام سرگرمیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ عید مباہلہ سے لیکر 9 ربیع الاول تک یہاں شادی کی کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ گاڑیوں اور گھروں میں میوزک، گانے بجانے کی مکمل طور پر چھٹی ہو جاتی ہے۔ خیال رہے کہ جو لوگ سرے سے میوزک سنتے نہیں، ان کی بات نہیں کر رہا بلکہ جو میوزک کو اپنی غذا سمجھتے ہیں، وہ لوگ اڑھائی مہینے میوزک سے توبہ کر لیتے ہیں۔ یکم محرم یا کم از کم تین محرم سے لیکر 13 محرم الحرام تک ہر امام بارگاہ میں دو وقت مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ کرم پاراچنار میں ایک اندازے کے مطابق 200 سے زائد امام بارگاہ ہیں۔ ہر امام بارگاہ میں پہلی مجلس دن دو بجے سے لیکر چار بجے تک جبکہ دوسری مجلس رات کے کھانے کے کچھ دیر بعد شروع ہوکر گیارہ اور بارہ بجے کے قریب ختم ہوجاتی ہے۔

چھٹی اور ساتویں محرم کی درمیانی شب یعنی شب ہفتم کو خواتین شہزادہ قاسم علیہ السلام کی رسم مہندی کے طور پر مناتے ہوئے ہر امام بارگاہ میں مٹھائی، ٹافیاں اور دوسری میٹھی چیزیں تقسیم کرتی ہیں۔ ساتویں محرم سے لیکر 12 بلکہ 13 محرم تک تقریباً ہر امام بارگاہ میں استعمار کے چہروں پر طمانچوں کا سلسلہ یعنی سینہ زنی شروع ہو جاتی ہے۔ ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں محرم کو مرکزی امام بارگاہ پاراچنار سے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ جو مقررہ راستوں سے ہوکر رات گئے واپس امام بارگاہ پہنچتے ہیں۔ جلوس میں مجال نہیں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی جائے۔ ہنسنا یا کوئی بھی خلاف ادب سرگرمی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ جلوس میں شامل ملنگ پہلے تمیز سے انہیں منع کریں گے، نہیں تو جا کر اسے زبردستی جلوس سے نکال باہر کریں گے۔ جلوس میں ہسنی مذاق اور بے ادبی ہی کی بنا پر 1991ء میں اربعین کی شب جیل روڈ پاراچنار میں ملنگ لوگوں اور ایف سی کے مابین ہاتھا پائی ہوئی۔ جس کے بعد بٹانی ملیشیا کے افراد نے جلوس پر فائرنگ کرکے 5 افراد کو شہید جبکہ درجنوں دیگر کو شدید زخمی کر دیا تھا۔

روز عاشور
10 محرم الحرام یعنی عاشور کے دن اکثر امام بارگاہوں میں صبح نو دس بجے جلوس برآمد ہوکر گیارہ بارہ بجے تک اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ جس کے بعد مرکزی جلوس میں شرکت کرنے کی غرض سے یہ تمام عزادار شہر کا رخ کر لیتے ہیں، جبکہ بڑے بڑے دیہات کے مرکزی امام بارہوں میں جلوس عموماً بعد از ظہر شبیہہ ذولجناح کے ساتھ برآمد ہوکر سینہ زنی اور زنجیر زنی ہوتی ہے اور یوں تقریباً 3 یا 4 بجے عصر کو عزاداری ختم ہو جاتی ہے۔

مرکزی جلوس
مرکزی جامع مسجد پاراچنار میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے فوراً بعد ذوالجناح برآمد ہوکر زنجیر زنی اور سینہ زنی سے جلوس کا آغاز ہوتا ہے۔ جلوس مرکزی امام بارگاہ کے جنوبی گیٹ سے برآمد ہوکر شنگک روڈ، ڈنڈر روڈ، نظر بندی چوک اور زیڑان روڈ سے ہوتا ہوا ہزارہ قبرستان پہنچ جاتا ہے۔ ہزارہ قبرستان میں عموماً سیکرٹری انجمن حسینیہ قوم کو ایک اہم پیغام دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی عالم دین مصائب پڑھتا ہے۔ کچھ نوحے اور سینہ زنی کے بعد جلوس واپسی کی راہ اختیار کر لیتا ہے اور پی اے بنگلہ، گورنر بنگلہ پیواڑ روڈ، پیواڑ اڈہ، جیل روڈ پنجابی بازار وغیرہ سے ہوتا ہوا جلوس تقریباً مغرب کے بعد مشرقی گیٹ سے امام بارگاہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ نماز مغربین عموماً راستے میں ادا کی جاتی ہے۔ مرکزی امام بارگاہ میں مجلس شام غریباں سن کر محرم کا سب سے بڑا احتجاج تو ختم ہو جاتا ہے، تاہم اس کے بعد بھی 13 محرم تک روٹین کے مطابق دو مجالس منعقد ہوتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 813157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش