0
Saturday 31 Aug 2019 14:44

سیکولر حکومتوں کی اصل حقیقت

سیکولر حکومتوں کی اصل حقیقت
تحریر: نادر بلوچ

سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے۔ سیکولر نظریہ جن ریاستوں میں نافذ ہے، وہاں پر حکومتی اور ریاستی مشنیری کے عملی اقدامات سیکولرازم نظریہ سے کہیں دور دکھائی دیتے ہیں، سیکولر اسٹیٹ کا مغرب میں حلیہ کچھ اور نظر آتا ہے اور برصغیر یعنی بھارت اور بنگلہ دیش میں اس کی عملی شکل کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ مغربی ممالک میں مذہب لوگوں کا ذاتی معاملہ تصور ہوتا ہے، اس کا حکومت یا ریاستی اداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نہ ہی ریاست اور ریاستی ادارے مذہب کے معاملے میں مداخلت کرتے ہیں جبکہ بھارت بظاہر تو سیکولر اسٹیٹ کہلاتا ہے، لیکن بی جے پی حکومت کے اقدامات ہندو ازم کے پرچار اور اس نظریہ کو برتر بنانے کی چغلی کھاتے نطر آتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور ریاست آسام سے متعلق مودی سرکار کے حالیہ اقدامات نے ہندوستان کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

اسی طرح بنگلہ دیش اور ملائشیا کی بات کریں تو بظاہر یہ اسلامی ممالک ہیں، لیکن یہاں پر بھی مغرب کے قریب قریب صورتحال نظر آتی ہے، ان دونوں ممالک میں بھی مذہب عام فرد کا ذاتی معاملہ تصور ہوتا ہے، جس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ فرد کیا کرتا ہے، کیا نہیں، یا کیا کھاتا ہے کیا پیتا ہے، اس کا ریاست سے واسطہ نہیں ہے۔ آپ ملائیشیا میں مسجد میں آرام سے نماز پڑھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی کسی جوئے خانے میں جاکر آرام سے جوا بھی کھیل سکتے ہیں اور بند کمروں میں بیٹھ کر شراب پی سکتے ہیں، جگہ جگہ مساج سنٹر عام نظر آتے ہیں، ملائشیا کے ہوٹلز میں بنے سوئمنگ پولز کو دیکھ کر آپ کو گمان ہوتا ہے جیسے آپ کسی اسلامی ملک میں نہیں بلکہ یورپ کے کسی سیکولر ملک میں کھڑے ہیں، مذہبی رہنماء مسجد کی حد تک واعظ و نصحیت کرسکتے ہیں، لیکن باہر سڑکوں پر ریلیوں کی شکل میں اجتماع نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی کو روک کر اپنے نظریہ کا پرچار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود ریاست کے اندر سیکولر نظریہ نافذ ہے، یہاں بھی مذہب فرد کا نجی معاملہ بن گیا ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں پر 80ء کی دہائی سے لیکر اب تک ریاستی سطح پر جو اقدامات اٹھائے گئے اور ان اقدامات کے نتیجے میں جو انتہاء پسندانہ سوچ پرموٹ ہوئی اور جہادی کلچر عام ہوا، اس نے عام افراد کو بہت متاثر کیا ہے، اب لوگ مذہبی ریاست سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اگر ملک میں مذہبیوں کی حکومت قائم ہو بھی جائے، یہ تو لوگوں کیلئے یہ کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہوگا، اسی لیے پاکستان میں یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں مسلکی یا مذہبی پاکستان نہیں بلکہ جناح اور اقبال کا پاکستان کا چاہیئے، جہاں سب کو پرامن زندگی گزارنے اور اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اعمال کی بجاوری میں آزادی حاصل ہو۔ جہاں کافر کافر کی صدائیں نہ گونجیں، جہاں لوگ ایک دوسرے کے نظریئے کا احترام کریں، جہاد کا اعلان فقط ریاست کا اختیار ہو، نجی جہادی تنظیمیں کام نہ کریں۔

ایران میں اقلیتوں سے ریاست کے سلوک سے متعلق دو دہائیوں سے تہران میں قیام پذیر ڈاکٹر راشد عباس سید سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’ایران کے آئین میں اقلیتوں کو تمام انسانی اور مذہبی آزادیاں دی گئی ہیں۔ اقلیتوں کی پارلیمنٹ میں بھی واضح نمائندگی ہے، اس کے علاوہ تہران میں چرچوں اور گوردواروں کی آزاد مذہبی سرگرمیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، البتہ چاردیواری کے اندر۔ ایرانی سکھ شہری بھی تہران کی تجارتی سرگرمیوں میں کافی آزاد ہیں، شیراز میں یہودیوں کی مذہبی سرگرمیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ کی خبریں کبھی داخلی یا خارجی میڈیا میں نظر سے نہیں گزریں، اقلیتوں کے حوالے سے عام ایرانیوں میں کسی طرح کی حساسیت موجود نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد عباس کے اس جواب سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جہاں سیکولر ریاستیں ہیں، وہاں پر اقلیتیوں کو مکمل تحفظ حاصل نہیں، التبہ اسلامی ریاست میں سب کو مکمل طور پر بہت حد تک آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگیاں گزار سکیں۔
خبر کا کوڈ : 813753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش