0
Saturday 31 Aug 2019 21:32

جدید مرثیہ نگاری کا سفر

جدید مرثیہ نگاری کا سفر
تحریر: توقیر کھرل
 
ابتدا میں مرثیہ نگاری ادبی صنف نہ تھی، اس لئے بگڑے شاعر کو"مرثیہ گو" کہا جاتا تھا۔ اب مقبول صنف ہی نہیں بلکہ ادب کا قیمتی سرمایہ بن چکا ہے۔ مرثیہ میں یہ عظمت و وقار میر انیس اور مرزا دبیر کے دم سے ہی ہے۔ اردو میں مرثیہ نگاری عربی اور فارسی سے زیادہ جاذب اس وقت ہوگئی جب اردو کے شاعروں نے اس کے ارتقائی سفر کا آغاز کردیا اور اس لئے کہا گیا کہ ہندوستانی زبانوں میں مرثیہ اپنی ہیئت کی مثال نہیں رکھتا۔ مرثیہ میں ایسے کردار و واقعات کو شامل کیا گیا جو محسوسات انسانی کو زیادہ متاثر کرتے تھے، جیسا کہ بہن کا بھائی کی محبت میں قربان ہونا، کمسن جوانوں کا حق کے لئے جہاد کرنا، اکبر جیسے جوان کا باپ کے سامنے برچھی کا پھل کھانا، دودھ پیتے بچوں کے گلے پہ تیر کا لگنا، ایسے واقعات کو شامل کیا گیا جس سے نفسیاتی اور انسانی پہلو زیادہ نمایاں ہوئے۔ اس لئے مرثیہ خوانی میں ہر مذہب و ملت کے افراد کو روحانی اور اخلاقی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ اس ارتقائی سفر میں میر انیس نے کلیدی کردار ادا کیا اور مرثیہ کی ایسی صنف بنا دی جو ایک طرف رزمیہ اور ساتھ اخلاقی تعلیم کا ذریعہ بن گیا۔

ریحان اعظمی کے لکھے ہوئے مرثیے جو نوحہ خواں ندیم سرور پڑھتے ہیں، وہ بھی رزمیہ مرثیے ہیں جس میں تلوار، گھوڑے کی تعریف اور داؤ پیج مرثیہ کے سب حصے شامل ہوتے ہیں۔ مرثیہ نگاری کے سفر میں انقلابیت کا عنصر شامل ہوا تو سب سے پہلے جدید مرثیہ نگاری میں واقعہ کربلا کے تعلق سے پیدا ہونے والی کڑک دار آواز اور انقلابی لہجے کی گھن گھرج جوش کے یہاں سنائی دیتی ہے۔ جدید مرثیہ نگاری سے مراد رلانا نہیں بلکہ پیغام حسینیت سے جگانا ہے، امامِ حسین نے شمشیر کے سائے میں نعرہ حق بلند کیا اور اپنی جان دے دی، یہی جدید مرثیہ نگاری کے شاعروں کا موضوع ِ سخن ہے۔ جوش بھی اپنے اولین مرثیہ میں مسدس کی اسی ہیئت کے اسیر نظر آتے ہیں، جسے میر انیس اور مرزا دبیر نے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ جوش کے بعد ان کے شاگرد ڈاکٹر ہلال نقوی نے جدید مرثیہ نگاری میں عصر کربلا کو کربلائے عاشورا سے منسوب کیا ہے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی، ملیح آبادی کے مرثیے سن کر مرثیہ گوئی کی جانب آئے۔ مرثیہ میں جناب نسیم امروہوی کی بھی شاگردی اختیار کی اس لئے جوش ملیح آبادی نے ڈاکٹر ہلال نقوی کے مرثیہ میں انقلابی اور آفاقی پیغام کے ابلاغ کو ان الفاظ میں سراہا ہے کہ میں اس صنفِ سخن یعنی مرثیے کے میدان میں ان کی روایت شکنی کی داد دیتا ہوں۔ انہوں نے لوگوں کو رلایا نہیں بلکہ جگایا ہے۔

جوش نے پہلی بار" تازہ کربلا" اور" عزم حسین" جیسے علائم و رموز کا استعمال کیا بہرحال جوش نے اردو میں مرثیہ کو نئی فکر اور نئی روح سے آشنا کیا، لیکن جوش ملیح آبادی جدید مرثیہ نگاری میں عصر جدید کے طرز فکر کے بانی سید آل رضا کو قرار دیتے ہے۔ سید آل رضا کی شاعری کا موضوع انسانیت اور مقصد حسین رہا۔ ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی اپنی کتاب مرثیہ کے سفر میں رقم طراز ہیں کہ جدید مرثیہ نگاری میں نجم آفندی، نسیم امروہی کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن راجہ محمود آباد امیر حسن کا نام بھی شامل ہے۔ مرثیہ نگاری کی عظمت کا سفر رکا نہیں اور اب یہ سفر جدید مرثیہ گوئی میں شامل ہو چکا ہے، مرثیہ گوئی میں میر انیس نے مرثیہ میں رزمیہ اشعار کے ساتھ ساتھ لہجے اور اشاروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بہتر کیا۔ ماہنامہ "روحانی دنیا لکھنو " میں منقول ہے کہ ایک بار میر انیس مجلس میں مرثیہ پڑھ رہے تھے کہ پاس سے راہ گیر گزر اور دریافت کیا۔ کیا ہوا ہے؟ کسی نے بتایا کہ انیس مرثیہ پڑھ رہے ہیں اور محبان اہلبیت ماتم کر رہے ہیں وہ شخص چلایا ۔۔سبحان اللہ۔۔۔۔میر صاحب واہ کیا پڑھ رہے ہو اور ماتم کرنے لگا۔

دور حاضر میں بھی ندیم سرور اپنی آواز میں سوز میں بہتری کے خواہش مند رہتے ہیں۔ انیس بھی ندیم سرور کی طرح اپنے سننے والوں کے سامنے اپنی آواز کی مدد سے ان دیکھے مناظر پیش اور ان کے دلوں میں جذبات کو پیدا کرتے تھے۔ مرزا انیس بھی لہجے، آواز، چشم و ابرو کے اشارے سے مرثیہ پڑھتے تھے جس کا سامعین پر بھی اثر پڑتا تھا، واقعات انیس میں مرزا علی نے لکھا ہے کہ میر کی مجلس میں میانے کی چوبوں سے سر ٹکرانا اور سر و سینہ کو ایسے پیٹنا جیسے ماتمی دستے والے ماتم کرتے ہیں، کھڑے ہو کر داد دینا اور وجد میں آجانا معمول تھا۔ مرثیہ ابتداء سے انیس تک موضوع اور ہیئت میں ارتقا کا سفر کرتا رہا، مرثیہ میں کربلا کے ہر کردار کو الگ اہمیت اور حیثیت دینے کے بعد انیس تک آتے آتے درجہ کمال پاگیا۔
 اور بقول انیس
عمر گزری ہے، اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
جدید مرثیہ نگاری اور سوز و لہجے کے امتزاج سے دور حاضر میں دستہ امامیہ کے جدید مرثیہ گو عاطر حیدر، احمد ناصری، علی صفدر کے علاوہ علی دیپ، فرحان علی وارث اور آصف رخا خان جدید مرثیہ نگاری کی مدد سے جدید مرثیہ گوئی کے سفر کو بام عروج پہنچا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 813904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش