1
0
Monday 2 Sep 2019 17:22

سعادت الکونین فی مناقب امام حسین رضی اللہ عنہ

سعادت الکونین فی مناقب امام حسین رضی اللہ عنہ
تحریر: ثاقب اکبر
 
امام حسین علیہ السلام محبوب خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی نسبت سے ساری امت کو محبوب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ان کے حضور محبتوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور اسلام کے لیے ان کی عظیم قربانی کو دین مبین کی بقا کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ہم اسلام ٹائمز کے ناظرین کی خدمت میں اہل سنت کے متعدد اکابر و نامور علماء کی امام حسین علیہ السلام سے محبت کے اثبات کے لیے ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا تعارف پیش کرچکے ہیں۔ پیش نظر سطور میں ہم معاصر شخصیات میں سے ایک ایسی شخصیت کی کتاب کا تعارف پیش کر رہے ہیں، جو بلند مرتبہ صوفی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ خاندان حضرت سلطان العارفین سلطان باہوؒ سے نسبت کی وجہ سے پاکستان کے عامۃ المسلمین میں ایک خاص محبوبیت رکھتا ہے۔ خود حضرت سلطان العارفین ؒکے بعض اشعار امام حسین علیہ السلام کے بارے میں زبان زدخاص و عام ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
جیکر دین علم وچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھاراں ہزار جو عالم آہا، اوہ اگے حسینؑ دے مردے ہو
جے کجھ ملاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ہو
جیکر مندے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بند کردے ہو
پر صادق دین تنھاندے باھو جو سر قربانی کردے ہو
 
’’سعادت الکونین فی مناقب امام حسین رضی اللہ عنہ‘‘ پیر محمد خالد سلطان القادری سروری کی تصنیف ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اور اس کے ٹائٹل پر بھی لکھا ہے کہ یہ ’’فضائل و مناقب سید امام حسین رضی اللہ عنہ" پر مشتمل کتاب ہے، جو پہلی مرتبہ جنوری 2015ء میں شائع ہوئی، ہمارے پیش نظر اس کی اشاعت دوم کا نسخہ ہے، جو فروری 2016ء میں شائع کیا گیا۔ اسے الصالحین پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ پیر محمد خالد سلطان قادری عصر حاضر کی معروف اور بلند مرتبہ مذہبی شخصیات میں سے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ جماعت اہل سنت کے ناظم اعلیٰ بھی ہیں۔ پیر صاحب نے انتساب لکھتے ہوئے بھی حضرت سلطان باہوؒ کا یہ خوبصورت مصرع لکھا ہے:
سچا عشق حسین علی دا سر دیوے راز نہ بھنے ہو
 
کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
صحیح اور مستند روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح حضرت مام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے، کس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا، کس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے جنت سے کپڑے آتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا، اس کی مثال ملنا محال ہے۔(ص 6و7)
 
امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پیر خالد سلطان صاحب نے جن روایات کی طرف اس پیراگراف میں اشارے کیے ہیں، ان کی تفصیل کتاب کے اندر مختلف مواقع پر موجود ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں خوبصورت منقبتیں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ چند شعر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
حسین کیا ہے! تمام غیرت کی ایک آواز غازیانہ
حسین کیا ہے! یزیدیت کے بدن پہ عبرت کا تازیانہ
حسین وہ ہے کہ جیت جس کو، ادب سے جھک کر سلام کرلے
حسین وہ ہے جو نوک نیزہ پہ، خود خدا سے کلام کرلے
یزیدیوں کو یہ وہم کیوں ہے، کہ صرف اک دن حساب ہوگا
حسین سے جو جہاں بھی الجھے وہیں پہ خانہ خراب ہوگا
(ص14)
 
پیر صاحب نے سورہ شوریٰ کی آیت 23 جسے آیہ مودت کہتے ہیں، کی شان نزول میں ابن عباسؓ کی وہ مشہور روایت درج کی ہے، جو طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کی ہے، جس میں ہے کہ ابن عباس ؓکہتے ہیں: لما نزلت ’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘ قالو یارسول اللہ، ومن قرابتک ھولاء الذین وجبت علینا مودتھم؟ قال: علی و فاطمۃ و ابنا ھما۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا کہ وہ قرابت دار کون ہیں، جن سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادے ہیں۔(معجم کبیر، طبرانی، حدیث 2575)(ص26) اس طرح انہوں نے آیت تطہیر کی بھی شان نزول بیان کی ہے، وہ لکھتے ہیں: اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ، حضرت سیدۃ النساء فاطمہ زہراء، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی۔(ص27)
 
آیات کریمہ کے ذکر کے بعد انہوں نے احادیث سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ترمذی شریف کی ایک روایت لکھنے کے بعد اس کا ترجمہ یوں بیان کرتے ہیں: حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں دیکھا کہ آپ اپنی مبارک اونٹنی قصواء پر جلوہ گر ہیں اور خطاب فرما رہے ہیں، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! بیشک میں تم کو دو عظیم نعمتیں دے کر جا رہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے: وہ کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں۔(ترمذی شریف،ج2، ص 219،حدیث 3718)(ص30) پیر صاحب نے مختلف روایات اور واقعات کی مدد سے یہ بات واضح کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اہل بیت علیہم السلام سے بہت سے زیادہ محبت تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے حدیث اور تاریخ سے متعدد روایات اور واقعات نقل کیے ہیں۔

حضرت عمرؓ کے حوالے سے انھوں نے ایک سرخی یہ جمائی ہے:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حب علی رضی اللہ عنہ
اس کے تحت وہ لکھتے ہیں: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں قیام پذیر ہوئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دو مرتبہ فرمایا: تم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و پیارا اور بہتر ہوں؟ سب نے کہا:ہاں یا رسول اللہ۔ پھر آپ نے فرمایا: اللھم من کنت مولاہ فعلی ومولاہ اللھم و ال من والاہ وعادمن عاداہ۔ "اے اللہ! جس کا میں دوست ہوں، علی (رضی اللہ عنہ) بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! اس سے محبت رکھ جو علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھے۔" اس واقعہ کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ’’ھنیئا یا ابن ابی طالب اصبحت وامسیت مولی کل مومن ومومنۃ‘‘۔ اے ابن ابی طالب! تم صبح و شام خوش رہو اور تمھیں ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت کا مولیٰ ہونا مبارک ہو۔(مشکوۃ المصابیح بحوالہ احمد، 565)(ص41و42)
 
ہم پر یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ جب مقدمے میں نبی پاکؐ نے یہ فرمایا کہ کیا میں ہر مومن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و پیارا اور بہتر ہوں؟ تو پھر اگلی عبادت میں مولا کا معنی دوست کیسے ہوگیا؟ مولا کا معنی وہی رہے گا، جو مقدمے میں کیا گیا ہے، یعنی ہر مومن کے لیے اس کی جان سے زیادہ عزیز پیارا اور بہتر۔ اسی طرح پیر صاحب نے واضح کیا ہے کہ تابعین بھی اہل بیت  علیہم السلام سے محبت رکھتے تھے۔ اہل سنت کے بلند مرتبہ فقہاء کی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کے لیے بھی انھوں نے نقلی دلائل پیش کیے ہیں۔ امام شافعیؒ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر اہل بیت کی محبت و مودت کی وجہ سے ملائوں نے شیعہ اور رافضی ہونے کے فتوے اور تہمت لگائی۔ یاد رہے کہ چاروں آئمہ فقہ کی فطرت میں محبت اور مودت اہل بیت تھی، ان کے علم اور ایمان کا خمیر محبت اور مودت اہل بیت سے اٹھا تھا۔

امام شافعی نے اپنے دیوان میں ایک رباعی لکھی:
یا آل بیت رسول  اللّٰہ حبکم
فرض من اللّٰہ فی القرآن انزلہ
یکفیکم من عظیم الفخرانکم
من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ
اے اہل بیت رسول تمھاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کر دی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے۔
اے اہل بیت تمھاری عظمت اور تمھاری شان اور تمھاری مکانت کی بلندی کے لیے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔(ص50)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں؟ انہوں نے جو فتویٰ دیا آفاق عالم میں آج تک اس کی آواز گونجتی ہے فرمایا: میرے نزدیک یزید کافر ہے۔ (ص50و 51)
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
نوٹ: ہم نے کتاب سے منقول تمام عبارات اور ان کے ساتھ القاب وغیرہ اصل کتاب کے مطابق نقل کیے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 814124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
زبردست نقوی صاحب
ہماری پیشکش