0
Wednesday 4 Sep 2019 08:38

ایران اور خطے کی سیاست

ایران اور خطے کی سیاست
اداریہ
اسلامی انقلاب سے پہلے اور موجودہ علاقائی صورتحال کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے ایران پر مسلط رضا شاہ پہلوی مکمل طور پر امریکہ کے اشاروں پر چلتا تھا۔ 1979ء سے پہلے کا ایران سامراجی طاقتوں کا نمائندہ تھا اور شاہ ایران کو علاقے میں امریکہ کا پولیس مین قرار دیا جاتا تھا۔ خطے میں آنے والی تمام تبدیلیوں میں امریکہ کی نیابت میں ایران کا بھرپور کردار ہوتا اور ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں میں تبدیلیاں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ تہران سے مربوط ہوتی تھیں, ایران کے بعض ہمسایہ ممالک کی ایسی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں کہ وزیراعظم بننے سے پہلے "بردکھاوے" کے طور پر متعلقہ اور ممکنہ حکمران کو ایران بھیجا جاتا۔ ایران کا یہ کردار جہاں امریکہ کا مرہون منت تھا، وہاں خلیج فارس کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی امریکی اشاروں پر شاہ ایران کا ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوتا تھا، جس کو امریکہ دو ستونوں پر مشتمل پالیسی سے تعبیر کرتا تھا۔

خطے میں امریکہ کے دو ستون ایران اور سعودی عرب تھے اور امریکہ ان کے ذریعے خطے میں جو چاہتا کرتا۔ امریکہ نے ان دو ممالک کے ذریعے کیمونیسم یا سوویت یونین کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔  1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں صورتحال یکسر برعکس ہوگئی اور ایران کے اسلامی انقلاب کا سب سے معروف نعرہ "مرگ بر امریکہ" ٹھہرا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو ایران سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا اور امریکہ کی دو ستونوں پر مشتمل مشرق وسطیٰ کی پالیسی ایک ستوں سے محروم ہوگئی اور امریکہ کا مکمل دارومدار سعودی عرب پر ہوگیا۔ آج سعودی عرب امریکہ کا پولیس مین بھی ہے اور خزانے کا کنجی بردار بھی، لیکن دوسری طرف ایران استقامتی بلاک کی سربراہی کرتے ہوئے خطے میں امریکہ سمیت تمام سرامراجی طاقتوں کے اہداف کو چیلنج کر رہا ہے۔ آج استقامتی بلاک کا حدود اربعہ شام، یمن، لبنان، عراق، بحرین سے عبور کرتا ہوا پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کا لواہا منوا چکا ہے۔

آج خطے کی ہر تبدیلی میں استقامتی و مزاحمتی بلاک کا کردار نمایاں ہے۔ ایران کو نظرانداز کرکے خطے مین کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کا مستقبل اور اسرائیل میں آنے والی سیاسی و حکومتی تبدیلیاں بھی اسلامی جمہوریہ ایران اور استقامتی بلاک سے بالواسط یا بلاواسطہ جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے انتخابات میں نیتن یاہو کی کامیابی اور ناکامی کو بھی استقامتی بلاک کے ارادوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو اسرائیلی عوام سے ووٹ لینے کے لیے یہ دعوے کر رہا ہے کہ صرف وہ ہی اسرائیلی عوام کو ایران اور استقامتی بلاک کے خطرے سے نجات دلا سکتا ہے۔ ادھر حزب اللہ نے یکم محرم کو اینٹی ٹینک میزائل پھینک کر نیتن یاہو کی انتخابی مہم کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر وہ جوابی حملہ کرکے جنگ میں وسعت پیدا کرتا ہے، تب بھی مرتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس کی سیاسی موت یقینی ہے۔
خبر کا کوڈ : 814402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش