QR CodeQR Code

پیغمبر اکرم (ص) کی امام حسین (ع) سے محبت

7 Sep 2019 21:37

اسلام ٹائمز: احادیث کے مطالعے اور علم کے بعد ہر انسان بالخصوص ہر مسلمان اپنے عقیدے کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک سکتا ہے۔ اپنا احتساب کرسکتا ہے۔ اپنا مقام تلاش کرسکتا ہے کہ وہ کس موڑ پر ہے؟ کیا وہ حسین کا ویسا ہی احترام کرتا ہے، جیسا نبی (ص) کا احترام کرتا ہے؟ کیا وہ حسین کو نبی (ص) میں سے مانتا ہے اور نبی (ص) کو حسین (ع) میں سے مانتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) سے محبت کو نبی (ص) سے محبت شمار کرتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) کو اذیت دینا دراصل نبی (ص) کو اذیت دینا قرار دیتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) سے اسی قدر محبت کرتا ہے، جس قدر اسکا نبی (ص) چاہتا ہے؟ کیا وہ ہر اس شخص کے ساتھ نبی (ص) کی طرح محبت رکھتا ہے، جو حسین (ع) کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور اسی طرح ہر اس شخص سے نفرت کرتا ہے، جو حسین  سے بغض رکھتا ہے۔؟ 


تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب شیعہ علماء کونسل پاکستان


کوئی انسان اس وقت تک مسلمان اور کوئی مسلمان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کاملاً اس کا عقیدہ یہ نہ ہو کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس وقت تک ایک لفظ کیا، ایک حرف بھی برآمد نہیں ہوتا، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کا نزول نہ ہوتا ہو۔ جس شخص کا قرآن کریم پر ایمان ہے، وہ اس قرآنی آیت پر بھی کامل و اکمل یقین رکھتا ہے، جس میں سید الانبیاء کے بارے میں فرما دیا گیا ہے کہ میرا نبی (ص) اس وقت تک نطق نہیں کرتا، یعنی بولتا ہی نہیں، بات ہی نہیں کرتا، جب تک اس پر اس کے اللہ کی طرف سے وحی کا نزول نہ ہو۔ اس عقیدے کی روشنی میں تمام اہل ایمان اور اہل اسلام کو قرآن کریم کے بعد اپنے پیارے نبی (ص) کی زبان سے نکلی ہر بات اور ہر حدیث پر بھی ویسا ہی یقین، ایمان اور اعتقاد رکھنا پڑتا ہے، جس طرح قرآن عظیم کی آیات پر۔

لامحالہ ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے عظیم نبی (ص) جو احکام بیان فرما دیں، انہیں من و عن تسلیم کرنا ہوگا۔ جن عبادات کی ادائیگی کا حکم دے دیں، انہیں ویسے ہی ادا کرنا ہوگا۔ جس چیز یا امر کو حلال فرما دیں، اسے ہی حلال ماننا ہوگا اور جسے حرام قرار دے دیں، اسے حرام ہی رکھنا ہوگا۔ اسی طرح یہی پیغمبر (ص) اگر کسی شخص کی فضیلت بیان فرما دیں تو اسے بغیر کسی تاویل کے تسلیم کرنا ہوگا اور اگر کسی شخص کو جھوٹا، پست یا فاسق وغیرہ فرما دیں تو اسے بھی بناء کسی تردد کے قبول کرنا ہوگا۔ قرآنی آیات اور سیرت نبوی (ص) کا دقت سے مطالعہ کیا جائے تو حضور اکرم (ص) نے بعض صحابہ کے بارے میں اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے، اسی محبت کو دلیل بنا کر اہل اسلام ان اصحاب سے محبت کرتے ہیں، لیکن قطعی تاریخی شواہد اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ ہمارے عظیم نبی (ص) نے جس طرح اپنے اہل خانہ یعنی اہل بیت کے ساتھ اپنی قربت، محبت اور فضیلت کا ذکر کیا ہے، ویسا کسی اور کے ساتھ نہیں کیا۔

ان میں مزید خصوصیت کے ساتھ اپنے بھائی حضرت علی علیہ السلام، اپنی بیٹی سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیھا اور اپنے نواسوں سیدنا امام حسن علیہ السلام اور سیدنا امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب اور ان کے مقام و مرتبے سے امت کو آگاہ کیا ہے۔ ان شخصیات کو اپنا لازمی حصہ اور نفس قرار دیا۔ بھائی کو اپنی طرح امت کا مولا و آقا قرار دیا، بیٹی کو کائنات کی عورتوں اور جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا اور نواسوں کو جوانان ِجنت کا سردار اور اپنے میں سے قرار دیا۔ ذیل کی احادیث کا ہم اپنے نبی کی وحی ترجمان زبان کے تناظر میں دیکھنے کے علاوہ خود نبی اکرم (ص) کی طرف سے معروف و مستند فرمان ’’حسین و منی وانا من الحسین‘‘  یعنی میرا نواسہ "حسین  مجھ سے اور میں حسین سے ہوں" کی روشنی میں دیکھیں گے، تاکہ مطلوبہ نتیجہ تک پہنچا جا سکے۔ 

حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالےٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور اکرم، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) کو اپنی پشت مبارک پر بٹھایا ہوا ہے اور آپ اپنے دونوں مبارک ہاتھوں اور دونوں مبارک گھٹنوں پر چل رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ  ’’نعم الجمل‘‘ سواری کتنی اچھی ہے۔ اس پر حضور اکرم (ص) نے فرمایا یہ کہو کہ سوار بھی تو کتنا اچھا ہے (کنزالعمال جلد ٨ صفحہ ١٠٨۔۔ البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ٣٦)۔ محبت کی انتہا ہے کہ کائنات کا مالک رسول (ص) اپنے ان نواسوں کی محبت میں تمام تر تکلفات اور منصب و مقام اور شخصیت کے معیار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سواری بننے کا ایسا انداز اختیار کئے ہوئے ہیں کہ جو آج کا کوئی اہل علم، اہل منبر، اہل مدرسہ اور اہل مسجد اختیار کرنے کو معیوب سمجھے۔

ایک اور مقام پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز ادا فرما رہے تھے کہ اتنے میں حسن (ع) و حسین (ع) تشریف لائے۔ اس وقت آپ سجدے میں تھے۔ آپ (حسنین) دونوں آپ (ص) کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ لوگوں نے چاہا کہ ان کو منع کریں، جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ نے فرمایا یہ میرے بیٹے ہیں، جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا۔(البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ٣٥) اسی حدیث کے تسلسل میں تاریخی کتب میں درج ہے کہ سجدے میں تاخیر کے سبب صحابہ نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ کہیں نبی اکرم (ص) کے ساتھ کوئی حادثہ یا مشکل تو پیش نہیں آگئی۔ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے ارادہ کر لیا کہ حسنین (ع) کو نبی (ص) کی پشت سے اتار دیں، لیکن ایسا نہ کرسکے۔ جب یہ دونوں شہزادے اپنی خواہش پوری کرکے مرضی سے اترے تو نبی اکرم (ص) نے سجدہ ختم کیا۔ نماز کے سجدے اور عبادت کو عموم سے ہٹ کر طول دیا، لیکن نماز نہیں توڑی اور نہ ہی نواسوں کو اتارا۔ یہ نبوی عمل اس بات کی دلیل ہے کہ حضور (ص) کے نزدیک ان شہزادوں کی کتنی شان اور کتنی اہمیت ہے کہ وہ واجب عبادت میں بھی خلل دے دیں تو ان کو روکنے کا سوچا تک نہیں جاتا۔

حضرت زید بن زیاد فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اکلوتی نواسی حضرت سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے کے پاس سے گذرے اور حضرت امام حسین کے رونے کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا بیٹی اس کو رونے نہ دیا کرو ’’الم تعلم ان بکائہ یوذینی‘‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف اور ایذا ہوتی ہے۔(تشریف البشر صفحہ ٢٥ / نور الابصار صفحہ ١٣) یہ حدیث امام حسین کے ساتھ حضور اکرم (ص) کی انتہائی حساس نوعیت کی قربت کی جہاں عکاسی کرتی ہے، وہاں باقی زندگی سے ہٹ کر امام عالی مقام کے غمزدہ ہونے پر نبی اکرم (ص) کے غم زدہ ہونے کو ثابت کرتی ہیں، حالانکہ یہ ایک عمومی، عادی اور فطری رویہ ہے کہ طفل سنی میں بچہ اکثر یا کبھی کبھار روتا ہے، کیا یہ بات نانا نبی (ص) کو معلوم نہیں؟ لیکن مقام ِ فکر یہ ہے کہ جو نبی (ص) اپنے حسین (ع) کا بچپن میں فقط رونا برداشت نہیں کرسکتا، وہ اپنے ہی اصحاب یا اصحاب کی اولادوں کے ذریعے اسی حسین (ع) کی شہادت کیسے برداشت کرسکتا ہے۔؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالےٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک روز دوپہر کے وقت خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور گرد آلود ہیں اور دست مبارک میں خون کی بھری ہوئی شیشی ہے۔ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا یہ حسین (ع) اور اس کے رفیقوں کا خون ہے، جسے آج صبح سے اٹھاتا رہا ہوں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت اور تاریخ کو یاد رکھا، جب خبر آئی تو معلوم ہوا کہ حضرت حسین اسی وقت شہید کئے گئے تھے۔(مشکوة شریف صفحہ ٥٨٢ / تہذیب التہذیب، جلد ٢ صفحہ ٣٥٥/ یہی روایت بیہقی، مسند احمد اور مسند حاکم میں بھی درج ہے)۔ دیگر مستند اور مسلم و صحیح روایات میں اسی طرح کی بات ام المومنین حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنھا کے ساتھ بھی بیان کی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے اپنی رحلت سے قبل اس واقعہ کے بارے میں واضح بتا دیا ہو اور واقعہ کے بعد اپنے غمزدہ ہونے کے بارے میں اپنی زوجہ اور پیارے صحابی کو آگاہ کر دیا ہو۔

حضرت انس رضی اللہ تعالےٰ سے روایت ہے کہ ''حضرت امام حسین (ع) اپنے نانا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ یہ بات متعدد اصحاب سے مروی ہے۔ امام حسین کا سراپا اپنے نانا رسول (ص) کے ساتھ مشابہہ تھا، نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد نبی (ص) کے ساتھ قلبی اور گہری وابستگی رکھنے والے اصحاب حضرت امام حسین (ع) کی زیارت اور دیدار کرنے اس نیت سے آتے تھے کہ نبی (ص) کا دیدار ہو جائے۔ میدان ِکربلا میں امام حسین (ع) جب اپنے نانا کا لباس اور دستار اور تلوار زیب تن فرما کر تشریف لائے تو لشکر ِ یزید کو لگا کہ کہیں سے خود رسول اکرم (ص) آگئے ہیں۔ اپنے خطبات میں امام عالی مقام نے اپنے نانا کی احادیث بھی یاد کرائیں اور اپنے حلیہ مبارک کا ذکر بھی کیا، لیکن یزیدی لشکر کے دلوں پر جہنم کی مہر لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے سراپا رسول (ص) دیکھنے کے باوجود بھی لحاظ نہیں کیا، ایک اور مقام پر خاتم المرسلین (ص) کا فرمان ِ ذیشان ہے کہ یہ دونوں (یعنی حسن اور حسین) میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں (ع) سے محبت فرما اور ان سے بھی محبت فرما، جو ان دونوں سے محبت کریں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت محمد (ص) نے فرمایا، جس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں (حسن اور حسین) سے محبت کرے۔(معجم الکبیر الطبرانی جلد٣ صفحہ ٤٧) حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد (ص) سے سنا، وہ حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) کے بارے میں فرما رہے تھے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے، اسے چاہیئے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔(المسند لابن یعلیٰ جلد ١ صفحہ ٣٢٧) جلیل القدر صحابی اور نبی اکرم کی زبان وحی ترجمان کے مطابق مفسر قرآن کا لقب پانے والے حضرت عبداللہ بن عباس نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد (ص) نے فرمایا، حسن (ع) اور حسین (ع) جوانانِ جنت کے سردار ہیں، جس نے ان دونوں سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔(تاریخ دمشق 'لابن عساکر جلد ١٤ صفحہ ١٣٢ طبع دارلفکر)

ان چاروں احادیث کے مطالعے اور علم کے بعد ہر انسان بالخصوص ہر مسلمان اپنے عقیدے کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک سکتا ہے۔ اپنا احتساب کرسکتا ہے۔ اپنا مقام تلاش کرسکتا ہے کہ وہ کس موڑ پر ہے؟ کیا وہ حسین کا ویسا ہی احترام کرتا ہے، جیسا نبی (ص) کا احترام کرتا ہے؟ کیا وہ حسین  کو نبی (ص) میں سے مانتا ہے اور نبی (ص) کو حسین (ع) میں سے مانتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) سے محبت کو نبی (ص) سے محبت شمار کرتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) کو اذیت دینا دراصل نبی (ص) کو اذیت دینا قرار دیتا ہے؟ کیا وہ حسین (ع) سے اسی قدر محبت کرتا ہے، جس قدر اس کا نبی (ص) چاہتا ہے؟ کیا وہ ہر اس شخص کے ساتھ نبی (ص) کی طرح محبت رکھتا ہے، جو حسین (ع) کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور اسی طرح ہر اس شخص سے نفرت کرتا ہے، جو حسین  سے بغض رکھتا ہے۔؟ 

بس انہی چند احادیث کو پیمانہ بنایئے اور دیکھتے جایئے کہ آپ اپنے نبی (ص) کے ساتھ ہیں؟ اپنے نبی (ص) کے نواسے حسین (ع) کے ساتھ ہیں یا دانستہ و نادانستہ اس گروہ کے ساتھ ہیں، جو حسین (ع) سے نہ صرف اختلاف اور بغض رکھتا ہے بلکہ حسین (ع) کا قاتل ہے اور حسین (ع) کے قاتلوں سے محبت کرتا اور ان کا دفاع کرتا ہے؟ اللہ تعالےٰ ہر مسلمان کو امام حسین (ع) سے صرف اسی محبت اور تعلق میں رکھے، جو مسلمانوں کا نبی (ص) چاہتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 815070

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/815070/پیغمبر-اکرم-ص-کی-امام-حسین-ع-سے-محبت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org