0
Saturday 14 Sep 2019 15:02

لائن آف کنٹرول کب جانا ہے؟

لائن آف کنٹرول کب جانا ہے؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

بھارتی جارحیت آشکارا ہوچکی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنی متعصب طبیعت سے مجبور ہو کر مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کو اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ کر دیا تھا، جس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔ مذکورہ آرٹیکل کیا ہے؟ اور اس کے خاتمے کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایک طویل بحث طلب مسئلہ ہے۔ البتہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے، کے خاتمے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا، جسے 40 روز سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے یہ اقدام انتہائی سنگین اور خطرناک ہے۔ اگر بھارت صرف ایک دن کے لیے کرفیو اٹھا لے تو خود دیکھ لے گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ اصل میں متوقع شدید ترین احتجاج سے بچنے کے لیے کرفیو لگا کر حریت پسند کشمیریوں کو ذہنی و بدنی اذیتوں سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جتنی دیر کرفیو لگا رہے گا، یہ بھارت کے مفاد میں ہے اور مقبوجہ کشمیر کے باسیوں کی قوت مزاحمت کمزور ہوگی۔ یہ ایک ڈرامائی خیال ہے، جو خود اب بھارت کے گلے پڑ چکا ہے۔ دنیا کے عدل پسند اب اپنی اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دنیا کے فیصلہ ساز ممالک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی کہا کہ روس، امریکہ اور چین کے صدور مل کر مسئلہ کشمیر حل کروا سکتے ہیں۔

اس امر میں کلام نہیں کہ دنیا کی بقا امن اور امن کے قیام کی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ بہ صورتِ دگر پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔ اگر خدانخواستہ بھارت کشمیر میں کیے جانے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کسی "مختصر ایڈوانچر" کا سوچتا ہے تو یہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کے لیے خطرناک ترین ایڈوانچر بن جائے گا، جس کا نتیجہ کسی کے حق میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے خلاف جائے گا۔ بھارت اب بھی لائن آف کنٹرول پر یکطرفہ جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے جاری سلسلے اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ بھارتی اقدام کے بعد ایل او سی پر بھارتی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارتی فوج ایل او سی پر جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے جبکہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے بھی نشانہ بنایا تھا۔ گذشتہ 2 برس میں بھارت نے ایک ہزار 9 سو 70 مرتبہ سے زائد ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزری کی۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ کشمیر کا مسئلہ عسکری طاقت کے مظاہر کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر جارحانہ سفارت کاری سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ اگر سفارتی محاذ پر بھارت زیادہ سرگرمی دکھاتا ہے تو مسئلہ کشمیر پہلے سے زیادہ سنگین اور خطرناک صورت اختیار کر لے گا، جس سے نہ صرف کشمیریوں کی نسل کشی بلکہ پاک بھارت جنگ کے خطرات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ دنیا جنگوں کے نتائج اور خطرات سے بخوبی آگاہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کی صورت میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی جنگی روایت کے پیش نظر، یہ جنگ روایتی کے بجائے غیر روایتی جنگ ہوگی۔ اسی لیے بار بار دنیا بھر کے اہلِ فکر و دانش کشمیریوں کی نسل کشی پر دل گرفتہ بھی ہیں اور مودی حکومت کے فیصلوں سے دلبرداشتہ بھی۔ امریکا کے نمایاں سینیٹرز اور اراکین کانگریس مسئلہ کشمیر اور پاکستان و بھارت کے مابین دیگر تنازعوں کے حل کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تعمیری کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو ارسال کردہ خط میں سینیٹر کرس وین ہولین، ٹوڈ ینگ، بین کارڈین اور لنزے گراہم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے الحاق کے بعد گرفتار افراد کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق خط میں انہوں نے لکھا کہ "ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ وزیراعظم نریندر مودی سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد گرفتار کی گئی کشمیری قیادت کی رہائی، ٹیلی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کی مکمل بحالی، محاصرہ اور کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔" دریں اثناء گذشتہ دنوں قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ "پاکستان کی کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا اور مودی کی غلطی سے کشمیر کے لوگوں کو آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا ہے" جبکہ اپنے جلسہ مظفرآباد میں پاکستانی وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ "میں آپ کو بتاؤں گا کہ لائن آف کنٹرول کب جانا ہے، پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دیں اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے دیں۔ مجھے اقوام متحدہ جانے دیں، دنیا کے رہنماؤں کو بتانے دیں، کشمیر کا مقدمہ لڑنے دیں اور انہیں بتانے دیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو اس کا اثر ساری دنیا پر پڑے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ کشمیر انٹرنیشنلائزڈ ہوگیا ہے، 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوئی۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پہلی مرتبہ یورپی یونین نے کہا کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیئے، جس کا مطلب ہے کہ کشمیریوں کو ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا۔" میری رائے میں ہمیں جذباتیت اور پرائیویٹ پریکٹس کرنے کے بجائے ریاستی سطح پر کشمیر کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں کی توثیق اور ان کا انتظار کرنا چاہیئے۔ پاکستان اور پاکستانی عوام ہمیشہ کشمیر کاز کے لیے آواز اٹھاتے آئے ہیں اور ان شاء اللہ اب اس مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک بھی لے جائیں گے۔ ہمیں اچھائی کی امید کے ساتھ، داخلی سیاسی اختلافات بھلا کر کشمیر کاز کے لیے ریاستی پالیسی کا قوت بازو بننا چاہیئے، لیکن ان افراد سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہیئے جو عشروں کشمیر کمیٹی کے ممبر رہے کہ انہوں نے دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے دنیا کو کیسے اور کس طرح متوجہ کیا۔؟
خبر کا کوڈ : 816197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش