0
Wednesday 29 Jun 2011 00:47

ایک بنیادی تبدیلی

ایک بنیادی تبدیلی
 تحریر:محمد علی نقوی
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں شروع ہونے والی عوامی تحریکوں کو اسلامی ممالک اور علاقے میں ایک بنیادی تبدیلی کا سر آغاز قرار دیا۔ سوڈان کے صدر ڈاکٹر عمر البشیر سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر ملکوں میں جاری اسلامی بیداری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے علاقے میں حالیہ عوامی تحریکوں کو امریکہ، مغرب اور صیہونیوں کے مفادات اور خواہشات کے بالکل برخلاف قرار دیا، آپ نے فرمایا کہ اسی لئے بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ان تحریکوں کو ان کے فطری راستے سے منحرف اور انہیں سبوتاژ نہ کر لیں۔
 قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کوتاہ مدت میں امریکہ اور مغرب کی کوئی بھی چال کامیاب نہیں ہو گی، تاہم علاقے میں عوامی تحریکوں کے ہر طرح کے انحراف اور اغواء کی طرف سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے علاقے کے حالیہ تغیرات میں مصر کے مسئلے کو انفرادی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت مصر میں امریکہ اور صیہونی حکومت کا مضبوط قلعہ مسمار ہو چکا ہے اور امریکہ اپنی پٹھو حکومتوں کے ساتھ یہ کوشش کر رہا ہے کہ دراز مدت میں حالات کو کسی اور رخ پر موڑ دے۔
 قائد انقلاب اسلامی نے لیبیا کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں لیبیا کے حالات کے سلسلے میں گہری تشویش ہے، کیونکہ عوامی تحریک ایک سنجیدہ اور حقیقی انقلاب ہے جبکہ مغرب والوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اس عوامی تحریک کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ آپ نے لیبیا میں مغرب کی فوجی مداخلت کو اسی سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لیبیا میں جو یورپ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے، وہ اسلامی طرز فکر کی حکومت تشکیل پانے کے تصور سے ہی خوفزدہ ہیں اور اس عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ لیبیا میں جنگ ایک حساس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ کیونکہ قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انقلابی مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے ہیں جبکہ قذافی تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ لیبیا کے ڈکٹیٹر کی عالمی سطح پر اب کوئي ساکھ نہیں رہ گئي ہے۔  لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ لیبیا کے ڈکٹیٹر کی سرنگونی کا وقت قریب آچکا ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ خطے کی صورتحال اب ڈکٹیٹر شپ سے میل نہیں کھاتی ہے۔ اب عرب ممالک میں ایسی عوامی تحریکیں جاری ہیں جن کی اس سے پہلے کوئي مثال نہیں ملتی۔ اب خطے میں ان حکمرانوں کے ستارے گردش میں ہیں جو کودتا یا سامراجی طاقتوں کے بل بوتے پر برسراقتدار آۓ ہیں اور برسہا برس سے طاقت کے سہارے اپنی عوام پر حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ معمر قذافی بھی ایسا ہی ڈکٹیٹر ہے جس نے چار عشروں سے زیادہ عرصے تک ڈنڈے کے زور پر عوام پر حکومت کی ہے۔ اور اب جبکہ عوامی تحریک کی وجہ سے لیبیا کا ماحول بدل چکا ہے، لیبیا کے حکام یکے بعد دیگرے اس ملک سے فرار ہو کر قذافی کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔  لیبیا میں قذافی کا اب کوئي بھی پشت پناہ نہیں رہ گيا ہے۔ اور اس کے یورپی دوستوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ جو حکمران داخلی اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ کھو چکا ہو وہ ایسی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے کہ طاقت کا مظاہرہ کرسکے۔
 بہت سے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تیونس کے زین العابدین بن علی، مصر کے حسنی مبارک اور یمن کے علی عبداللہ صالح کے بعد معمر قذافی ہی وہ چوتھا ڈکٹیٹر ہو گا جس کی حکومت عنقریب سرنگون ہو جاۓ گی۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ وہ کچھ عرصے سے روپوشی کی زندگي گزار رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر انیس سو تہتر کی بنیاد پر لیبیا کے امور میں کی جانے والی یورپی ممالک کی براہ راست مداخلت پر ماہرین اور سیاستدان تشویش میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی لیبیا کی موجودہ صورتحال کے بہانے اس ملک میں اپنے فوجی تعینات کرنا اور اس ملک کے قدرتی ذخائر پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لۓ کام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق لیبیا میں انقلابی تحریک شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈکٹیٹر قذافی نے مغربی طاقتوں کا کچہ نہيں بگاڑا تھا لیکن مغربی طاقتوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جب دخل در معقولات کرتے ہیں یا اپنی کٹھ پتلی حکومتوں سے کراتے ہيں، لہذا لیبیا پر مغربی ممالک نے اس لئے نہيں حملہ کیا ہے کہ قذافی نے ان کا کچہ بگاڑا تھا بلکہ انھوں نے یہ جارحیت اس لئے کی ہے کہ انھیں لیبیا کے عوام کی تحریک آزادی کو ہائي جیک کرنا تھا۔ اور شاید وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائيں، لیکن اس بیچ جو بات سب سے اہم اور قابل غور ہے، وہ یہ کہ لیبیا سمیت پورےخطہ عرب میں بیداری اور آزادی کی جو لہر پیدا ہوئی تھی اس میں امریکہ اور مغربی ممالک کا کردار پوری طرح مشکوک اور مجرمانہ رہا ہے، کیونکہ جہاں لیبیا میں انکے بقول، عوام کی حمایت میں آئے ہیں، چاہے پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج جائے او ردوسری جانب بحرین میں عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب کی فوجی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں، آخر امریکہ بہادر کا ایک ہی معاملے میں دہرا معیار کیوں ہے۔؟
ہمیں امریکہ کے دہرے معیاروں اور دوغلی پالیسیوں پر تعجب اس لئے بھی نہيں کہ ہم نے تاریخ کو کھلی آنکھوں سے پڑھاہے اور سعودی عرب سے لےکر عراق تک، فلسطین سے لے کر غاصب صیہونی حکومت تک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران اور صیہونی حکومت کے ایٹمی مسائل میں اس کے دہرے معیارات اور دوغلی پالیسیوں کو بخوبی دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہيں۔ تعجب تو مغرب کی پروپیگنڈہ مہم پر اعتبار کرنے والوں پر ہوتا ہے جو مغرب بالخصوص امریکہ کے جھوٹے نعروں پر یقین کرنے کی فاش غلطی کرتے ہيں۔ البتہ لیبیا کے سلسلے میں بھی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا پر حملہ عوام کی حمایت یا جمہوریت کے حق میں نہيں کیا ہے کیونکہ اگر عوام یا جمہوریت اسے اتنے عزیز ہوتے تو ملت عرب بالخصوص حجاز ویمن اور بحرین پر مسلط ظالم حکمرانوں کی وہ کھل کرحمایت نہ کرتا اور ان حکومتوں کو عوام کو کچلنے کی کھلی چھوٹ نہ دیتا۔
 اسی لئے تو رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے لیبیا میں مغرب کی فوجی مداخلت کو سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لیبیا میں جو یورپ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے وہ اسلامی طرز فکر کی حکومت تشکیل پانے کے تصور سے ہی خوفزدہ ہیں اور اس عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 81727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش