QR CodeQR Code

تل ابیب شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں

20 Sep 2019 16:47

اسلام ٹائمز: اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں دوبارہ مڈٹرم الیکشن منعقد کروانے پڑے ہیں۔ اسرائیل مسلسل الیکشن کے انعقاد کے ذریعے اس سیاسی بحران سے باہر نکلنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے جس میں وہ شدید انداز میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن اب تک یہ کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔


تحریر: علی احمدی

اگرچہ ابھی تک اسرائیل میں منعقدہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کا سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا لیکن 96 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں لیکوڈ پارٹی اور بنی گانٹس کی سربراہی میں بلو اینڈ وائٹ پارٹی سرفہرست ہیں جبکہ دونوں میں سے کسی کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ المیادین نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق بلو اینڈ وائٹ پارٹی کو 32 سیٹیں جبکہ لیکوڈ پارٹی کو 31 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ ایمن عودہ کی سربراہی میں عرب جماعتوں کے سیاسی اتحاد نے بھی مجموعی طور پر 13 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ اسی طرح سابق اسرائیلی وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین کی سربراہی میں اسرائیل ہمارا گھر پارٹی کو 9 سیٹیں ملی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کینیسٹ کی کل 120 سیٹیں ہیں اور حکومت تشکیل دینے کیلئے سادہ اکثریت یعنی 61 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسرائیل میں کوئی بھی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائی اور مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ اب تک کوئی بھی مخلوط حکومت اپنی چار سالہ قانونی مدت پوری نہیں کر پائی ہے۔
 
روسی نیوز چینل رشیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بلو اینڈ وائٹ پارٹی کے سربراہ بنی کانٹس نے غیرسرکاری نتائج سامنے آنے کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہم سرکاری نتائج کے اعلان کا انتظار کریں گے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ہیں اور آپ لوگوں کے کرم سے وائٹ اینڈ بلو پارٹی اسرائیل کی ایک سیاسی طاقت کے طور پر باقی رہے گی۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم نے ایک طویل اور مشکل راستہ طے کیا ہے۔ ہمارا مشن بہت مشکل تھا اور موجودہ نتائج کی روشنی میں نیتن یاہو اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا نظریہ درست ثابت ہوا ہے۔" برطانوی نیوز چینل اسکائی نیوز کے مطابق منگل کے دن منعقد ہونے والے ان انتخابات میں سیکولر طبقہ پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں شریک ہوا ہے۔ اس بارے میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح اس الیکشن میں مقبوضہ فلسطینی کے عرب باشندوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی ہے۔ بعض غیرسرکاری رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ انتخابات کی نسبت حالیہ پارلیمانی الیکشن میں عوام کی کم تعداد نے حصہ لیا ہے۔
 
اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں دوبارہ مڈٹرم الیکشن منعقد کروانے پڑے ہیں۔ اسرائیل مسلسل الیکشن کے انعقاد کے ذریعے اس سیاسی بحران سے باہر نکلنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے جس میں وہ شدید انداز میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن اب تک یہ کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ اپریل 2019 میں گذشتہ انتخابات منعقد ہوئے تھے جس میں لیکوڈ پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں لیکن وہ مخلوط حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہی اور پارلیمنٹ کو توڑ دیا گیا۔ اب بھی چونکہ بنجمن نیتن یاہو اور دیگر حریف جماعتیں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائیں لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل میں سیاسی بحران بدستور جاری رہے گا۔ بنی گانٹس اور نیتن یاہو کے آپس میں شدید سیاسی اختلافات ہیں جس کے باعث وہ آپس میں مل کر مخلوط کابینہ تشکیل نہیں دیں گے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے بنجمن نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج انتہائی وسیع ہو چکا ہے۔ اگر اس بار بھی اسرائیل کی سیاسی پارٹیاں مخلوط حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہیں تو مجبورا دوبارہ الیکشن کروانا پڑیں گے۔
 
الیوم السابع اخبار کی رپورٹ کے مطابق عرب جماعتوں کے اتحاد کے سربراہ ایمن عودہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ بنجمن نیتن یاہو کو دوبارہ حکومت بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا: "اہم مسئلہ یہ ہے کہ عرب عوام نیتن یاہو کی مخالف ہے۔ انہوں نے بنجمن نیتن یاہو کی مخالف جماعتوں کو ووٹ دے کر انہیں ناکام بنا دیا اور پارلیمنٹ میں تیسرے نمبر کی طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔" دوسری طرف گذشتہ 10 برس سے برسراقتدار بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں باقی رہنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اقتدار ہاتھ سے جاتے ہی ان کے کرپشن کیسز کھل جائیں گے اور ان کے خلاف عدالتی کاروائی کا آغاز ہو جائے گا۔ حالیہ نتائج نے بنجمن نیتن یاہو کو انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ مخلوط حکومت تشکیل دینے کیلئے اتحادی جماعتوں کی شرطیں ماننے پر مجبور ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل پانے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت تمام نگاہیں اویگڈور لیبرمین پر جمی ہوئی ہیں کہ کیا وہ دائیں بازو کی جماعتوں سے اتحاد کریں گے یا بائیں بازو کی جماعتوں سے۔
 


خبر کا کوڈ: 817317

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/817317/تل-ابیب-شدید-سیاسی-بحران-کی-لپیٹ-میں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org