0
Saturday 21 Sep 2019 23:47

طورخم بارڈر، ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا گیا

طورخم بارڈر، ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا گیا
رپورٹ: ایس علی حیدر

تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستانی حکومت نے افغان حکومت اور عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرتے ہوئے طورخم بارڈر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے منصوبے کا افتتاح کر دیا، جس کے بعد اب دونوں برادر ممالک کے درمیان ہونے والی آمدورفت اور تجارت میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو منصوبے کا افتتاح کر دیا، طورخم ٹرمینل پورا ہفتہ 24 گھنٹے سہولت فراہم کرے گا، طورخم ٹرمینل کا قیام پاکستان کی طرف سے افغان عوام کیلئے تحفہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خطے میں تجارت کے فروغ کیلئے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے پاک افغان سرحد پر طورخم کراسنگ کا افتتاح کر دیا۔ یوں اب طورخم سرحد 24 گھنٹے کھلی رہے گی، جس سے وسط ایشیائی ریاستوں تک تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ طورخم ٹرمینل پر 16 ارب روپے کی لاگت آئی ہے اور ٹرمینل کا قیام پاکستان کی طرف سے افغان عوام کیلئے تحفہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انٹیگریٹڈ بارڈر منیجمنٹ سسٹم کا بھی افتتاح کیا، انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم منصوبہ 2022ء میں مکمل ہوگا، انٹی گریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم سے سرحد پر جدید طریقے سے اسکیننگ ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2 ارب 60 کروڑ ڈالر سالانہ کی باہمی تجارت ہوتی ہے۔

رواں سال جنوری میں وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ میں نے متعلقہ افسران کو احکامات جاری کر دیئے ہیں کہ 6 ماہ کے اندر طورخم بارڈر کو مکمل طور پر کھلا رکھنے کیلئے انتظامات مکمل کئے جائیں۔ اس ٹرمینل کو جدید بنانے کیلئے یہاں تعمیرات کا آغاز جون میں افغان صدر کے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم عمران خان سے سرحد پار تجارت میں نرمی کی درخواست کے بعد ہوا تھا، نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے کسٹمز، نادرا، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور فرنٹیر کورپس سمیت دیگر محکموں کیلئے کارگو اور سافروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے خصوصی انتظامات کئے ہیں۔ طورخم بارڈر کھلا رکھنے کے اس منصوبے کو ممکن بنانے میں خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ 30 جنوری کو دیکھا جانے والا خواب 18 ستمبر کو شرمندہ تعبیر ہوگیا ہے، اگر صوبائی حکومت ہنگامی بنیادوں پر اپنے حصے کا فنڈ ادا نہ کرتی تو اس منصوبہ میں کئی ماہ کی تاخیر ہوسکتی تھی۔ جہاں تک پاک افغان تجارت کا تعلق ہے تو نامساعد حالات اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ساتھ ساتھ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے فعال ہونے سے اس میں بتدریج کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

پاک افغان تجارت کا بڑا حصہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہے، اس سلسلے میں پہلا معاہدہ 1965ء میں ہوا تھا، جس کے 50 سال بعد اکتوبر 2010ء میں نیا معاہدہ ہوا، تاہم یہ معاہدہ زیادہ فعال ثابت نہیں ہو رہا اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاک افغان تجارت کا 70 فیصد سے زائد چاہ بہار منتقل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں طورخم بارڈر کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے فیصلے سے دونوں ملکوں کی تجارت پر یقیناََ مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پاک افغان باہمی تجارت 2.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر محض ایک ارب ڈالر رہ چکی ہیں، تاہم اب اس منصوبے سے ہی تجارت ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ مستقبل قریب میں اس کو 5 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ طورخم بارڈر پر 24/7 منصوبے کے افتتاح کے موقع پر گورنر شاہ فرمان، وزیراعلٰی محمود خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد، صوبائی وزراء تیمور سلیم جھگڑا اور عاطف خان، قبائلی رہنماء شاہ جی گل آفریدی، افغان سفیر، افغان صوبے ننگرہار کے گورنر اور دیگر اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔ اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ بارڈر کو رات ہی سے بند کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ٹرکوں اور ٹرالروں کی طویل قطاریں لگ گئی تھیں۔

بڑی تعداد میں پاک فوج اور ایف سی کے جوانوں کے ساتھ ساتھ لیویز اور خاصہ دار فورس کے جوان بھی تعینات کئے گئے، جبکہ مچنی چیک پوسٹ پر عام ٹریفک بند کر دی گئی تھی۔ صحافیوں اور تقریب میں شرکت کرنے والوں کیلئے خصوصی پاسز جاری کئے گئے، جن کے بغیر کسی کو بھی مچنی چیک پوسٹ سے آگے نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔ طورخم دورے کے موقع پر طورخم بارڈر کے دونوں اطراف آنا جانا بند رہا، تاہم لنڈی کوتل بازار کھلا رہا، جبکہ پاک افغان شاہراہ پر حمزه بابا چوک سے زیرو پوانٹ تک سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے اور مختلف پبلک مقامات اور سڑک کے دونوں طرف پر مقامی خاصہ دار اہلکار اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پشاور سے خصوصی کمانڈوز نے بھی بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ سکیورٹی کی ذمہ داری نبھائی۔ وزیراعظم کی آمد کیلئے طورخم کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا، جگہ جگہ خیر مقدمی بینرز لگائے گئے تھے، جن پر پاک افغان دوستی اور دوطرفہ تجارت کو وسعت دینے کے جملے درج تھے۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر سے سرحد کی فضائی نگرانی بھی کی گئی، جبکہ مچنی چیک پوسٹ سے طورخم تک عام لوگوں کیلئے شاہراہ بند کر دی گئی تھی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کسٹمز، مقامی ضلعی انتظامیہ، بی ڈی یو، سکیورٹی فورسز، پولیس کمانڈوز اور فائر بریگیڈ نے مشترکہ طور پر وزیراعظم عمران خان کے دورہ طورخم کیلئے خصوصی اقدامات کئے تھے اور اس دوران ٹریفک سے لے کر پبلک تک کوئی بدنظمی سامنے نہیں آئی۔ اس موقع پر افتتاح کے بعد وزیراعظم عمران خان نے پریس کانفرنس بھی کی، جس میں انہوں نے ملکی اور عالمی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں امن سے پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ طورخم بارڈر 24 گھنٹے کھلا رکھنے سے پشاور تجارت کا ہب بن جائے گا اور ماضی میں دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ کی معیشت کو ترقی و استحکام ملے گا۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی سلسلہ ٹوٹنا بدقسمتی ہے، اس لئے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرانے کیلئے پاکستان بھرپور کوشش کریگا، جس کیلئے 23 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھاوں گا، اپوزیشن نان ایشوز پر سیاست کر رہی ہے، لیکن یہ سن لے کہ انہیں نہ تو کوئی این آر او ملے گا، نہ ہی کوئی ڈیل ہوگی، نواز شریف اور زرداری نے جو کرپشن اور لوٹ مار کی ہے، انہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ پاک، افغان طورخم بارڈر کے 24 گھنٹے کھلنے سے تجارت میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاک افغان بارڈر کو 24 گھنے کھولنے سے سالانہ تجارت بڑھ کر 3.5 ارب ڈالر تک پہنچے گی، یہ آنے والے وقت میں بڑا قدم ہے، افغانستان میں امن ہوگا تو ہم سب ترقی کریں گے، وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے ساتھ تجارت چاہتے ہیں، جو افغانستان میں امن سے شروع ہوگی، کے پی میں تبدیلی آئے گی اور پشاور تجارتی مرکز بنے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کا کیس ایسے پیش کروں گا، جیسا کبھی کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ بھارت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت پر انتہا پسندوں نے قبضہ کر لیا ہے، کیونکہ ایسے ذہن کے لوگ ہی کسی علاقے کو اتنے دنوں تک بند کرسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت کی پالیسی آر ایس ایس کی پالیسی ہے جو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ہے، جبکہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر باور کروایا کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے والا آرٹیکل ختم نہیں کرتا تب تک اس سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم سے وعدہ کرکے جار ہا ہوں کہ میں اس طرح کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں پیش کروں گا، جو آج تک کسی نے نہیں کیا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر میں جا کر جہاد کرے گا تو وہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم کرے گا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو اسوقت کشمیر میں بہانہ چاہیئے، وہاں اس نے 9 لاکھ فوج جمع کی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسوقت پوری کشمیری قوم بھارت کے خلاف ہے، جو ان کے ساتھ تھے، اب وہ بھی بھارت کے خلاف ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ طالبان اور امریکہ مذاکرات سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم نے کیا، ان کی ملاقاتیں کروائیں، طالبان قیادت کو قطر پہنچایا، جس کا اعتراف خود امریکہ بھی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بات چیت کہاں تک پہنچی، کیونکہ پاکستان نے کبھی ان میں شرکت نہیں کی، اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ مسائل کہاں ہیں تو شاید پاکستان مزید اپنی کوشش کرتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات آگے نہ بڑھے تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا، تاہم نیویارک میں امریکی صدر سے ملاقات کے دوران انہیں بات چیت آگے بڑھانے پر آمادہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، تاہم ہم بات چیت کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے زور لگائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدے طے پانے والا تھا، جو نہیں ہوسکا اور منصوبے کے مطابق اس معاہدے کے بعد مجھے ان سے ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان امریکہ سے بات کرتے ہیں، لیکن اسوقت افغان حکومت سے بات چیت نہیں کرتے، تاہم معاہدے کے بعد ہماری کوشش ہوتی کہ طالبان اور افغان حکومت کو ایک ساتھ بٹھا کر ان کے درمیان مذاکرات کروائے جائیں۔ حقیقت ہے کہ طورخم سرحد کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے اقدام سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دینے کے علاوہ معیشت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں حکومت خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے اقدامات سے افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے طورخم سرحد کو 24 گھنٹے کیلئے کھولا گیا ہے، اس کے فوری اثرات ملنا شروع ہوگئے ہیں اور اب تک 2500 سے زاد کارگاڑیوں نے نائٹ شفٹ سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ نائٹ شفٹ جو بھرپور طریقے سے چل رہی ہے، اس سے نہ صرف گاڑیوں کے رش میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اس کی بدولت کارگو ٹریفک میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے اور روزانہ طورخم سرحد عبور کرنے والی گاڑیوں کی تعداد 586 سے بڑھ کر 917 ہوگئی ہے۔

اس سلسلے میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے عزم، وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان کی قیادت اور وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد کی کاوشوں سے طورخم سرحد کا 24 گھٹے کھلا رہنا ممکن ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے پورے ہفتے طورخم سرحد کو کھلا رکھنے کے اقدام کو ممکن بنانے کیلئے 70 ملین روپے دیئے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے وزیراعظم آفس لاجیسٹک سیل، فرنٹیئر کور، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجٹریشن اتھارٹی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیساتھ باہمی شراکت سے 6 ماہ کے اندر طورخم سرحد کو 24 گھٹ کھلا رکھنا ممکن بنایا۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ پاکستان، افغانستان اور دوسرے ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ طورخم سرحد کو 24 گھٹے کھلا رکھنے میں تمام اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہم اسی بنیاد پر افغانستان کے ساتھ دیگر کراسنگ پوانٹس کو کھولنے پر بھی کام کریں۔
خبر کا کوڈ : 817479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش