QR CodeQR Code

مصر میں دوبارہ سیاسی ہلچل کا آغاز

23 Sep 2019 23:52

اسلام ٹائمز: درست ہے کہ مصر میں حالیہ عوامی احتجاج محمد علی کی کال پر شروع ہوا ہے لیکن ملک پر حکمفرما غربت اور شدید اقتصادی مشکلات، اعلی سطحی سیاسی اور فوجی حکام میں کرپشن کا رواج اور ڈکٹیٹرشپ وہ حقیقی اسباب ہیں جن کے باعث عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں


تحریر: سید نعمت اللہ

تقریبا دو سال پہلے جرمنی کی صدر اینگلا مرکل نے مصر کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے مصر کو ایک "علاقائی طاقت" اور "استحکام کا باعث ملک" قرار دیا تھا۔ ان کے اس پیغام پر جرمنی میں تنقید کی گئی۔ مثال کے طور پر گرین پارٹی کی رکن فرنسیسکا برینٹنر نے کہا تھا کہ اینگلا مرکل مصر میں طاقت کے زور پر قبرستان والی خاموشی کو استحکام نہ سمجھیں۔ اب چند دن سے قبرستان کی یہ خاموشی ٹوٹ چکی ہے اور اینگلا مرکل کو نظر آنے والا استحکام مصر کے چند شہروں میں ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ تحریر اسکوائر پر عوامی احتجاج کو روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے لیکن جمعہ کے روز بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا ہے اور مظاہرین تحریر اسکوائر تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ مصر کے موجود صدر عبدالفتاح السیسی کے خلاف پہلا عوامی احتجاج ہے۔ وہ 2014ء میں برسراقتدار آئے تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروہ قرار دے کر اس کے حامیوں کے خلاف شدید کاروائی کی ہے۔ اب تک صحرائے سینا میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے علاوہ مصر میں ان کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
 
عبدالفتاح السیسی کافی حد تک ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے لہذا اینگلا مرکل نے اسی صورتحال کے پیش نظر مصر میں استحکام کی بات کی تھی۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بھی تھا جو فوجی طاقت کے نتیجے میں اخوان المسلمین کے حامیوں کی خاموشی پر مشتمل تھا۔ اسی رخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے برینٹنر نے اینگلا مرکل کو خبردار کیا تھا کہ وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور اس مردوں والی خاموشی پر بھی توجہ دیں۔ ان کی یہ وارننگ درست تھی اور اس کا حقیقت پر مبنی ہونے کی دلیل حالیہ چند دنوں میں مصر کے گلی کوچوں میں قابل مشاہدہ ہے۔ لیکن اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ مردوں والی یہ خاموشی ٹوٹ تو گئی ہے لیکن کب تک اس کا ٹوٹنا جاری رہے گا؟ اور یہ کہ آیا اس کا نتیجہ مصر میں دوسری عرب اسپرنگ اور نتیجتا السیسی کی حکومت کی سرنگونی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں؟ 2011ء میں جب مصر میں عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا تو اس میں نہ تو سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار تھا اور نہ ہی ابتدا میں اس کی نوعیت سیاسی تھی بلکہ محض عوامی احتجاج کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔
 
مصر میں شروع ہونے والا حالیہ عوامی احتجاج اس لحاظ سے پہلی عرب اسپرنگ سے مشابہت رکھتا ہے۔ پہلی عرب اسپرنگ میں عوامی احتجاج زور پکڑنے کے بعد سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہوئیں اور اتفاق سے اخوان المسلمین سب سے آخر میں اس عوامی احتجاج میں شامل ہونے والی جماعت تھی۔ حالیہ مظاہرے بھی کسی سیاسی جماعت کی ایماء پر نہیں کئے جا رہے بلکہ خالص طور پر عوامی نوعیت کے ہیں۔ یہ مظاہرے ایک حکومت مخالف سماجی کارکن محمد علی کی کال پر شروع ہوئے ہیں جو اسپین میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر عبدالفتاح السیسی اور بعض دیگر فوجی کمانڈرز کی کرپشن سے پردہ اٹھایا ہے اور عوام سے حکومت کی تبدیلی کیلئے سڑکوں پر آنے کا مطالبہ کیا ہے۔
 
درست ہے کہ مصر میں حالیہ عوامی احتجاج محمد علی کی کال پر شروع ہوا ہے لیکن ملک پر حکمفرما غربت اور شدید اقتصادی مشکلات، اعلی سطحی سیاسی اور فوجی حکام میں کرپشن کا رواج اور ڈکٹیٹرشپ وہ حقیقی اسباب ہیں جن کے باعث عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور محمد علی کی کال نے صرف جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس بار سکیورٹی فورسز نے عوام کے خلاف شدید رویہ نہیں اپنایا بلکہ بعض ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض مقامات پر سکیورٹی فورسز بھی عوام میں شامل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح عوامی احتجاج اور مظاہروں کا تیزی سے ملک بھر میں پھیل جانا بھی 8 برس پہلے شروع ہونے والی عرب اسپرنگ سے مشابہت کا ایک اور عنصر ہے۔ اس وقت حسنی مبارک کی حکومت ایک ماہ کے اندر اندر سرنگون ہو گئی تھی لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ السیسی کی حکومت گرانے کیلئے زیادہ وقت درکار ہو گا۔ السیسی حکومت کی جانب سے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ اگرچہ السیسی نے کئی بار قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مزید اقتدار میں باقی نہیں رہیں گے لیکن ان کے اس وعدے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لہذا اس بار مصر میں پیدا ہونے والی عوامی احتجاج کی لہر 2011ء کی نسبت زیادہ متلاطم اور شدید ہو گی۔
 


خبر کا کوڈ: 817940

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/817940/مصر-میں-دوبارہ-سیاسی-ہلچل-کا-آغاز

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org