2
Monday 23 Sep 2019 12:38

شاہراہ قراقرم پر خونین حادثات اور ارباب اقتدار کی ذمہ داری

شاہراہ قراقرم پر خونین حادثات اور ارباب اقتدار کی ذمہ داری
تحریر: محمد علی جوہری

شاہراہ قراقرم پر یکے بعد دیگرے خونین حادثات کا پیش آنا جہاں ہماری کم نصیبی ہے  وہیں ہمارے ارباب اقتدار کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افسوس کہ شاہراہ قراقرم پر ٹریفک حادثات اس تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں بھی ہم نے مجموعی طور پر معمولات زندگی کا حصہ مان لیا ہے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ جان لیوا ٹریفک حادثات پر کچھ دن تو لوگ کف افسوس ملتے ہیں پھر انہیں فراموشی کے بستے میں ڈالا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ متاثرہ گھرانوں میں ہی غم و الم اپنا ڈیرا ڈالتا ہے۔ حد یہ ہے کہ سڑک حادثوں  کے تسلسل پر ہمارے ارباب اقتدار، صرف روایتا  اظہار تاسف پر اکتفاء کرکے اپنا گریباں چھڑاتے ہیں، جبکہ کہیں بھی ایسا لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش نہیں کی جاتی، جس سے روڈ ایکسیڈنٹ اگر سرے سے ختم  نہ بھی تو کم از کم انکی تعداد میں کمی تو واقع ہو۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ موت اور زندگی کے فیصلوں کو کاتب تقدیر کے علاوہ کوئی ٹال نہیں سکتا، مگر بلاناغہ شاہراہ قراقرم پر پیش آنے والے خونین حادثات کو  قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرنا بھی ایک مضحکہ خیز سوچ ہے۔ چنانچہ حقیقی امر یہ ہے کہ بے قابو سڑک حادثات پر عام لوگ، یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ٹریفک حکام فی الفور ان کے پس پردہ اسباب اور محرکات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کرتے؟ وہ یہ طے کیوں نہیں کرتے کہ ایسے جگر سوز سانحات میں شاہراہ پر چلنے والی فرسودہ گاڑیوں اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیھٹنے والے افراد کی کوتاہیوں کا کتنا عمل دخل ہے؟ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارا ٹریفک نظام ان دل دہلانے والے حادثات کے باوجود بھی لکیر کا فقیر بنا ہوا ہے؟ انہیں یہ کیوں نہیں سوجھتا کہ وہ کونسے تیر بہدف اقدامات ہیں، جن کی مدد سے سڑک حادثات پر جتنا بھی ممکن ہو قابو پایا جاسکتا ہے؟ یہ بات عیاں ہے کہ اکثر و بیشتر، تیز رفتار ڈرایئونگ نیز بہتر ٹریفک پلاننگ کے فقدان سمیت سڑکوں کی تنگی جیسے اسباب و محرکات ایک جگہ جمع ہوں تو سڑک حادثات کا پیش آنا کوئی حیران کن بات  نہیں رہتی، چنانچہ اس سچویشن کے پیش نظر  یہ کہنا درست ہوگا کہ شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان  کی  دیگر سڑکیں عوام الناس کیلئے موت کا ہول سیل پھندا بن چکی ہیں۔

اسی تناظر میں شیخ مہدی حسنی، شیخ قاسم رجائی اور وطن عزیز کے دفاع کیلئے جان بکف پاک آرمی کے جوانوں کی قیمتوں جانوں کے ضیاع کو آئے روز ہم دیکھتے آ رہے ہیں، یہ کتنی اندوہناک حقیقت ہے کہ شاہرائے قراقرم میں ماضی سے لیکر حال تک جو خوفناک حادثات متواتر پیش آتے  رہے ہیں، ان کو یاد کرکے ہر انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے، اس سے بڑھ کر ہماری حرمان نصیبی کیا ہوگی کہ روز روز سڑک حادثات کے باوصف ہمارے ارباب اقتدار اپنی ذمہ داری کا احساس کیوں نہیں کرتے؟ چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے  میں انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، جبکہ برسہا برس سے سڑکوں کی خستہ حالی سمیت ناقص ٹریفک نظام، انسانی جان و مال کیلئے وبال جان بنتا جارہا ہے۔ اگر اس سلسلے کو بدلنے کی خواہش ارباب حل و عقد  کے دل  کے کسی کونے میں پنہاں ہے تو اس کیلئے ارباب اقتدار کو گہری نیند سے جگانا وقت کی اہم پکار ہے، چنانچہ ایک عام انسان بھی اس بات کو تسلیم کریگا کہ کسی بھی اصلاح طلب نظام کو صحیح خطوط پر چلانے کیلئے اعلٰی ترین سطح پر کتنی ہی جاندار اور  انقلابی اصلاحات دی جائیں یا زمینی حالات کا نقشہ بدلنے کیلئے کیسی ہھی حکمت عملی  وضع کی جائے، لیکن میدان عمل میں  یہ ایک کاغذی کاروائی ثابت ہو، تو اسے صرف خیالی جنت کہا جاسکتا ہے جو حقیقت سے عاری ہے۔

بے شک  سڑک حادثات  کے بڑھتے ہوئے سلسلے کی روشنی میں ہر کوئی مانتا ہے کہ گلگت بلتستان کے ٹریفک نظام میں تبدیلی کے حوالے سے دوبارہ جائزہ  لیا جانا ایک ناقابل التواء ضرورت ہے، یہ بہتری، نیک تمناؤں یا کاغذی ہدایات کے جاری کرنے سے آنے والی نہیں ہے، جب تک ارباب اقتدار مسئلے کی  گہرائیوں اور گیرائیوں میں اتر کر ٹریفک نظام میں موجود نقائص اور کوتاہیوں کا پیشورانہ بنیادوں پر خاتمہ کرنے کا بیڑہ نہیں اٹھاتے، چنانچہ اس سلسلے میں ارباب اقتدار اس وقت تک برِی الذمہ قرار نہیں پا سکتے، جب تک اس مسئلے کی تمام جوانب کو  مدنظر رکھتے ٹھوس قدم  نہیں  اٹھاتے، اگر اس سلسلے میں ہمارے ارباب اقتدار نے  سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلی بخش اقدام نہیں کیا اور اس مسئلے کو یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا، تو مستقبل میں بھی خون کے آنسو  رلانے والے سڑک حادثات  کا سلسلہ    کبھی نہیں  رکے گا، جس میں   شیخ مہدی حسنی اور شیخ قاسم رجائی جیسی مزید قیمتی جانوں کے ضیاع  کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ  کرتے  رہینگے۔
 
خبر کا کوڈ : 817947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش