QR CodeQR Code

عمران کا دورہ امریکہ۔۔۔ میر کیا سادہ ہیں

24 Sep 2019 10:14

اسلام ٹائمز: یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ وہ ہیجڑا ہے، جس سے ہم یہ توقع لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ ہمیں بیٹا پیدا کرکے دیگا۔ کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کیلئے ہمیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمارے تمام مسائل کیوجہ امریکہ ہے، امریکہ ہی وہ عطار ہے کہ جسکے لونڈوں ٹرمپوں کی وجہ سے پاکستان بیمار ہوا ہے اور ہم اتنے سادہ ہیں کہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا کا اصول ہے کہ کمزوروں کا کوئی رشتہ دار یا مددگار نہیں ہوتا، البتہ طاقتور کے سارے رشتہ دار بن جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔ ہمیں اپنی قوت بڑھانا ہوگی، جس دن ہم ایک مضبوط قوم بن گئے، امریکی اس دن ہمارے رشتہ دار بن جائینگے، فی الحال انہیں انڈیا سے یارانہ نبھا لینے دیں۔ ابھی وہ ہمارا نہیں بنے گا۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

عمران خان امریکہ کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے وہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کرنا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی۔ عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات سے قبل مودی نے ٹرمپ سے ملاقات کی اور ٹرمپ نے مودی کے جلسے میں بھی شرکت کرکے مودی کی کھلے لفظوں میں حمایت کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی انڈیا و امریکہ بہترین اور گہرے دوست ہیں۔ ٹرمپ نے یقیناً کہا ہوگا کہ ہماری (انڈیا اور امریکہ کی) دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان اپنی روایتی اعتماد کیساتھ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں، جبکہ مودی کی باڈی لینگوئج بتا رہی ہے کہ وہ کچھ نروس سے ہیں۔ ظاہر ہے دل میں میل ہو تو چہرے پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی میں وہ اعتماد دکھائی نہیں دے رہا، جو عمران خان کی شخصیت میں نظر آرہا ہے۔

ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات میں ٹرمپ نے بڑی نپی تُلی گفتگو کی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ جہاں عمران خان کو خوش کرنا چاہتا ہے، وہیں وہ مودی کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت معاملات میں متوازن گفتگو کی اور منتخب الفاظ استعمال کئے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’میں مدد کرنے کیلئے تیار ہوں، اب یہ ان دونوں رہنماوں پر منحصر ہے کہ کیا وہ ثالثی چاہتے ہیں، یہ مسئلہ (کشمیر) کافی گہرا ہے، جو ایک لمبے عرصے سے چل رہا ہے، لیکن میں تیار ہوں کہ اس معاملے میں مدد کروں۔‘‘ ٹرمپ نے مزید کہا کہ میں اس شریف آدمی (عمران خان) پر اعتماد کرتا ہوں اور مجھے پاکستان پر بھی اعتماد ہے، کیونکہ بہت سے پاکستانی یہاں نیو یارک میں میرے اچھے دوست ہیں، وہ بہت ذہین ہیں اور اچھے مذاکرات کار بھی ہیں۔ یہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گفتگو متوازی کرنے کیلئے فوراً کہا ’’میرے انڈیا سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور اگر وہ (ہمارا) پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میرے خیال میں مجھے اُن کی مدد کرنی چاہیئے۔‘‘

ٹرمپ کی اس گفتگو کا کھلا مطلب یہ ہے کہ انڈین میرے دوست ہیں، اگر وہ کہیں تو ان کے کہنے پر ہی میں مدد کرسکتا ہوں، اگر انڈین نہ کہیں تو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ انڈیا کشمیر میں قتل عام کر رہا ہے، عزتوں کی پامالی کر رہا ہے، نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال رہا ہے، بچوں اور شوہروں کے سامنے ان کی مائیں اور بیویوں کی عزتیں تار کر رہا ہے، پیلٹ گنوں کا استعمال کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، دنیا کی تاریخ کا طویل ترین کوفیو لگا رکھا ہے، سکول بند ہیں، ہسپتالوں تک شہریوں کو رسائی حاصل نہیں، کاروبار ٹھپ ہیں، پھلوں کے باغات بھارتی فورسز تباہ کر رہی ہیں، امریکہ کو ان معاملات سے کوئی غرض نہیں۔ جب ٹرمپ سے یہی سوال کیا گیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں تو امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’چاہتا ہوں دنیا میں ہر کسی سے اچھا سلوک ہو اور یہ دونوں بڑے ملک ہیں۔‘‘

ٹرمپ کی اس سوچ کو سلام کہ انسانی حقوق کی پامالی کے سوال پر یہ جواب دے رہا ہے۔ ٹرمپ کی جگہ کوئی بھی امریکی صدر ہوتا تو اس کا جواب یہی ہونا تھا۔ امریکی بہت سوچ بچار کے بعد اپنا صدر منتخب کرتے ہیں، امریکی واحد قوم ہیں جو دنیا میں کسی پر اعتماد نہیں کرتے، مگر ہم وہ ’’مومن‘‘ ہیں، جو ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو ’’مومن‘‘ اور ایاک نعبدو و ایاک نستعین کہتے نہیں تھکتے۔ ایک بات طے ہے، یہ فطری اصول ہے کہ امریکہ، انڈیا اور اسرائیل، ہمارے کبھی بھی دوست نہیں بن سکتے۔ فطرت اپنے اصول نہیں بدلا کرتی، مگر ہم ہر بار ان شاطروں کے جھانسے میں آجاتے ہیں، بش سے کلنٹن، ہیری ٹرومین سے ایزن ہاور، ایزن ہاور سے جان ایف کینڈی، جان ایف کینڈی سے لینڈن جانسن، لینڈن جانسن سے رچرڈ نکسن، رچرڈ نکسن سے گیرلڈ فورڈ، گیرلڈ فورڈ سے جمی کارٹر، جمی کارٹر سے رونالڈ ریگن، رونالڈ ریکن سے جارج بش، بش سے کلنٹن، کلنٹن سے جارج ڈبلیو بش، بش سے اوباما اور اوباما سے ٹرمپ تک، یہ سارے مسلسل ہمیں استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ہی ٹول بنایا ہے، کبھی پاکستان کیلئے ٹول نہیں بنے۔

اب پھر عمران خان کشمیر کے ایشو پر ثالثی کیلئے ٹرمپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ نے انتہائی مکاری کیساتھ عمران خان کو شیشے میں اُتارنے کی کوشش کی ہے، عمران خان کو جنٹلمین، اچھا کھلاڑی، بہترین شخصیت، اچھا دوست جیسے الفاظ کا ایسا مکھن لگایا ہے کہ عمران خان بھی ٹرمپ سے متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار مسئلہ کشمیر کیلئے ٹرمپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ وہ ہیجڑا ہے، جس سے ہم یہ توقع لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ ہمیں بیٹا پیدا کرکے دے گا۔ کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کیلئے ہمیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمارے تمام مسائل کی وجہ امریکہ ہے، امریکہ ہی وہ عطار ہے کہ جس کے لونڈوں ٹرمپوں کی وجہ سے پاکستان بیمار ہوا ہے اور ہم اتنے سادہ ہیں کہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا کا اصول ہے کہ کمزوروں کا کوئی رشتہ دار یا مددگار نہیں ہوتا، البتہ طاقتور کے سارے رشتہ دار بن جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔ ہمیں اپنی قوت بڑھانا ہوگی، جس دن ہم ایک مضبوط قوم بن گئے امریکی اس دن ہمارے رشتہ دار بن جائیں گے، فی الحال انہیں انڈیا سے یارانہ نبھا لینے دیں۔ ابھی وہ ہمارا نہیں بنے گا۔


خبر کا کوڈ: 817982

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/817982/عمران-کا-دورہ-امریکہ-میر-کیا-سادہ-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org