QR CodeQR Code

مقبوضہ کشمیر کے 13 ہزار جوان کہاں ہیں؟؟

26 Sep 2019 09:30

اسلام ٹائمز: مسلم ویمنز فورم کی سعیدہ حمید نے کہا کہ ہم سب کشمیر سے انتہائی دل گرفتہ ہوکر واپس انڈیا لوٹی ہیں۔ کشمیر کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پورا شہر خاموش ہے، دکانیں کھلتی نہیں، فصلیں برباد ہوگئی ہیں، سیب کی فصل بھی تباہ کر دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دس سے بارہ اور 22 سے 24 سال کے 13 ہزار لڑکے غائب ہوگئے ہیں۔ ان بچوں کے گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟ اور فوجی ان کے بچوں کو کہاں لے گئے ہیں۔؟ اس چشم کشا انکشاف کے بعد میرے خیال میں مودی سرکار کے موقف کی حمایت کرنیوالی عالمی برادری کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

کشمیر میں بھارتی مظالم اب ڈھکے چھپے  نہیں رہے۔ گزشتہ 52 روز سے جاری دنیا کے طویل ترین کرفیو نے جہاں کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنائی ہے وہیں مودی کی ہٹلرانہ چہرے سے نقاب بھی اُلٹ دی ہے۔ مودی نے انٹرنیٹ سروس، ٹی وی، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کر کے یہ سمجھا کہ کشمیریوں کی مظلومیت آشکار نہیں ہو پائے گی مگر اسے غلط فہمی تھی کہ وہ کشمیر میں اپنے مظالم چھپا لے گا۔ دنیا نے مودی کا صل چہرہ دیکھ لیا ہے۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں کی رہنماوں نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے لاک ڈاﺅن کے بعد سے اب تک 13 ہزار مسلمان نوجوانوں کو اغوا کیا ہے۔ مسلم ویمنز فورم کی ڈاکٹر سعیدہ حمید، مہیلا سمیتی تنظیم کی پونم کوشک، عینی راجا، کول جیت کور اور پنکھڑی ظہیر نے نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کے فورم سے مقبوضہ جموں کو کشمیر کا 17 سے 21 ستمبر تک دورہ کیا تھا، دورے کے دوران انہوں نے حالات کو قریب سے دیکھنے کے بعد فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے  مطابق دہلی پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پانچوں خواتین رہنماﺅں نے 51 دن سے مقبوضہ وادی میں جاری کرفیو کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کیے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے دورے کے دوران انہوں نے 17 دیہاتوں اور 13 مختلف ریجنز کا دورہ کیا اور وہاں تعینات سرکاری اہلکاروں سے گفتگو کی۔ عینی راجا اور سعیدہ حمید نے بتایا کہ ہم نے تمام طرح کے لوگوں سے بات چیت کی، مختلف اداروں کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے کشمیر کے حالات دیکھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم سرینگر، باندی پورہ، شوپیاں اور پلوامہ کے اضلاع میں گئے، جب ہم وہاں گھوم رہی تھیں تو ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم تناﺅ کے بادل پر چل رہے ہیں۔ خواتین رہنماﺅں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ انہوں نے مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز نے 51 روز کے لاک ڈاﺅن کے دوران 13 ہزار نوجوانوں کو اُٹھایا ہے۔

مسلم ویمنز فورم کی سعیدہ حمید نے کہا کہ ہم سب کشمیر سے انتہائی دل گرفتہ ہوکر واپس انڈیا لوٹی ہیں۔ کشمیر کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پورا شہر خاموش ہے، دکانیں کھلتی نہیں، فصلیں برباد ہوگئی ہیں، سیب کی فصل بھی تباہ کر دی  گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دس سے بارہ اور 22 سے 24 سال کے 13 ہزار لڑکے غائب ہوگئے ہیں۔ ان بچوں کے گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟ اور فوجی ان کے بچوں کو کہاں لے گئے ہیں۔؟ اس چشم کشا انکشاف کے بعد میرے خیال میں مودی سرکار کے موقف کی حمایت کرنیوالی عالمی برادری کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ یہ وہ سچ ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کشمیر میں اس وقت قیامت کا سماں ہے۔ 52 روز سے کشمیری دنیا کے طویل ترین کرفیو کا شکار ہیں۔ جمع کیا گیا راشن ختم ہو چکا ہے۔ فاقوں سے بچوں کی کفیت ایتھوپیا کے جیسی ہو چکی ہے۔ فورسز کے محاصرے میں سہمے ہوئے کشمیری کیسی غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کیلئے سب سے اہم اور فعال ترین کردار پاکستان کا بنتا ہے، پاکستان اس حوالے سے اپنے تئیں جو ہو سکتا ہے کر رہا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں جہاد جہاد کی صدا لگا رہی ہیں، مگر ریاست نے جہاد کا اعلان کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

عمران خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان سے جا کر مقبوضہ کشمیر میں جہاد کرنا بذاب خود کشمیری بھائیوں کے کاز کیلئے نقصان دہ ہے۔ اس اقدام سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصان ہوگا۔ عالمی سطح پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس اس حوالے سے "خدائی مدد" ثابت ہوا ہے کہ جہاں عمران خان کو کشمیر کا ایشو اُٹھانے کا بہترین موقع ملا ہے۔ کشمیر میں بھارتی فورسز جو کچھ کر رہی ہیں یہ بہت تشویشناک ہے، مزید تاخیر مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت پر دباو بڑھایا جائے کہ وہ کرفیو ختم کرے۔ کرفیو ختم ہوتے ہی وادی میں جذبات کا لاوا اُبل پڑے گا۔ یہ بھارتی سرکار بھی جانتی ہے کہ کرفیو ہٹانے سے جو صورتحال ہونی ہے اسے سنبھالنا انڈین فورسز کے بس میں نہیں ہوگا۔ پھر کشمیریوں کا ایک سیلاب نکلے گا اور بھارت فورسز سمیت تمام مودی سرکار کے انتظامات ملیا میٹ ہو جائیں گے۔  اور مودی کو یہی خوف کرفیو ہٹانے نہیں دے رہا۔ مگر دنیا یہ یاد رکھے کہ مشکلات جتنی زیادہ ہوں گی ردعمل اتنا ہی شدید آئے گا اور وہ وقت دُور نہیں جب کشمیر آزاد ہوگا۔

حالیہ کرفیو کشمیریوں کیلئے آزادی کی نوید ہے۔ کیوں کہ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، بہتا ہے تو جم جاتا ہے

کشمیریوں کا ناحق بہنے والا خون اب جم چکا ہے، خون کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اور اب یہ تاثیر آزادی کی شکل میں کشمیریوں کو ایک عظیم تحفہ دے گی، ان شاء اللہ۔ کشمیری بہت جلد پاکستان کی آزاد فضاوں میں سانس لیں گے۔ اس موقع پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کی توجہ آزاد کشمیر میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کی جانب مبذول کروانا ضروری ہے۔ آزادی کشمیر میں یہ فضا بنائی جا رہی ہے کہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کو ملا کر ایک نیا ملک بنا دیا جائے۔ اس حوالے سے آزاد کشمیر میں برطانیہ میں مقیم کشمیری فنڈنگ بھی کر رہے ہیں اور رائے عامہ کو بھی گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس حساس معاملے پر توجہ لازمی دینا ہوگی اور رائے عامہ کو گمراہ کرنیوالوں کا محاسبہ کرنا ہوگا کیونکہ بلوچستان میں ناکامی کے بعد را کا فوکس آزاد کشمیر پر ہی لگتا ہے اور اس میں وہ برطانیہ میں بیٹھ کر اچھے انداز میں کھیل رہے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 818426

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/818426/مقبوضہ-کشمیر-کے-13-ہزار-جوان-کہاں-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org