0
Friday 27 Sep 2019 13:59
فرقہ واریت اور مذہب کی بنیاد پہ انتشار کیخلاف ہیں

مولانا کا آزادی مارچ، مسلکی قوت کا اظہار؟

سرینگر میں پرچم لہرانے کے بجائے مظفرآباد بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں
مولانا کا آزادی مارچ، مسلکی قوت کا اظہار؟
رپورٹ: عمران خان

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عمران خان دنیا کے سامنے پاکستان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں، کبھی پاک فوج اور کبھی آئی ایس آئی پر الزام لگاتے ہیں کہ القاعدہ کو تربیت دی ہے اور اسی سے اندازہ لگائیں کہ یہ کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ انوار العلوم مہران ٹاؤن کورنگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری، سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ راشد محمود سومرو، مولانا محمد صالح الحداد، مولانا عبدالقیوم، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اسلم غوری، مولانا تاج محمد ناہیوں، حاجی عبدالمالک تالپور، انجینئر عبدالرزق عابد لاکھو، مولانا عبداللہ سومرو، قاری محمد عثمان، سندھ کے سیکرٹری مالیات مولانا محمد غیاث، سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد سمیع الحق سواتی، مولانا ناصر محمود سومرو، شرف الدین سندھڑ، ضلع کورنگی کے امیر مفتی عبدالحق عثمانی و دیگر بھی موجود تھے۔

جامعہ انوار العلوم مہران ٹاؤن کورنگی میں ہی مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں جمعیت علماء اسلام کے سندھ سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور ضلعی مجالس شوریٰ کے خصوصی اجلاس ہوئے، جس میں آزادی مارچ کی تیاریوں اور حکمت عملی کے حوالے سے غور کیا گیا اور آئندہ کے لئے ہدایت دی گئی۔ اس موقع پہ گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ساری قوم جانتی ہے کشمیر کو بیچا گیا ہے۔ مودی کے انتخابی منشور میں مقبوضہ کشمیر حیثیت کی تبدیلی حصہ تھی، اس کے باوجود کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی بلکہ مودی کی کامیابی کے لئے ان کی انتخابی مہم میں مدد کی گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان اور مودی کے ساتھ کس طرح کے رویئے کا اظہار ہو رہا ہے، اس کا مشاہدہ ساری دنیا کر رہی ہے۔ وہاں پر ثالثی کی باتیں قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا خطہ ہمارے ہاتھ سے چلا گیا ہے اور اب سری نگر میں پرچم لہرانے کی بجائے مظفرآباد کو بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب صورت حال اس حد تک جا چکی ہے کہ کشمیر کے حصول کے بجائے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے باتیں ہو رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ قوم اسی سے اندازہ لگائے کہ کشمیر کے حوالے سے ہم کس حد تک جا چکے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں سے ہمارا رابطہ ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ 25 جولائی 2018ء کو ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے، تاہم موجودہ حکمرانوں کے حق حکمرانی کے حوالے سے اپنی اپنی رائے ہے۔ موجودہ حکمران اخلاقی جواز کھو چکے ہیں اور انہوں نے ایک سال میں اپنے آپ کو نااہل ثابت کیا ہے۔ عوام اور خواص سب پریشان ہیں اور سب کا یہ خیال ہے کہ اب اس حکومت کو جانا چاہیئے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ لاک ڈاؤن موخر کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے، حتمی تاریخ کا اعلان نون لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپوزیشن کی کمیٹی سے رابطہ کیا ہے اور امید ہے کہ 3 سے 4 روز میں اہم پیش رفت ہوگی۔ آزادی مارچ کہاں سے شروع ہوگا، اس حوالے سے تمام صوبائی قیادت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تیاریوں سے آگاہ کریں اور اس کی روشنی میں حتمی فیصلہ ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت سب کا بیانیہ یہی ہے کہ دوبارہ عام انتخابات کرائے جائیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے ہوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ لیکر آنے والے سید مراد علی شاہ کی گرفتاری ہوسکتی ہے تو جعلی مینڈیٹ لیکر وزیراعظم بننے والے عمران خان کی کیوں نہیں؟ مقدمات ان کے خلاف بھی ہیں۔ گرفتاریوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہ ہم گرفتاریوں سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی یہ سیلاب رکے گا۔ اگر قیادت کو گرفتار کیا گیا تو پھر سیلاب اپنا راستہ خود متعین کرے گا۔ ہم نے 15 تاریخی ملین مارچ کئے اور ثابت کر دیا ہے کہ ہم قانون و آئین پر یقین رکھتے ہیں اور پرامن لوگ ہیں، اب بھی ہم ضمانت دیتے ہیں کہ کسی صورت قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ہم کوئی تصادم نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی ادارے سے ہمارا کوئی جھگڑا ہے۔ ہمارا کارکن سیاسی اور جمہوری سوچ کا حامل ہے اور اسی پر یقین رکھتا ہے۔ دھرنے یا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کسی غیر جمہوری مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب سیاسی جماعتیں یہ طے کر لیں کہ جمہوری نظام کے سوا کسی دوسرے نظام کو قبول نہیں کرنا تو پھر کوئی اور نظام نہیں آسکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ہم احتساب کے خلاف نہیں لیکن انتقام کو انصاف بھی قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ ہم یکساں احتساب پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس وقت احتساب ہو رہا ہے تو پشاور میٹرو (بی آر ٹی) اور خیبر پختونخوا کے دیگر ایشو کے حوالے سے گرفتاریاں کیوں نہیں ہو رہی ہیں۔ جہاں اپنے بنائے ہوئے احتساب کمیشن کو ختم کیا گیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر نیب کی حراست کے دوران مبینہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب لوگ آمریت کے سائے میں اقتدار میں آتے ہیں، تو ان کا بنیادی مقصد عوامی سیاسی قوتوں کو بے توقیر کرنا ہے۔ کیا ایسے حالات سے گزرنے کے بعد یا ان حالات میں کوئی شریف النفس شخص وزیراعظم بننے کے لئے تیار ہوگا۔ مقتدر قوتوں کے ضمن میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ اب سوچنا چاہیئے کہ اس طرح نظام کب تک چلے گا اور اپنی غلطیاں ٹھیک کرنی چاہیئں، آخر عوام کے حق نمائندگی میں ڈاکہ کیوں ڈالتے ہیں، یہ باتیں قابل غور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پیچھے عوامی قوت ہے۔

اسلام آباد آزادی مارچ میں جماعت اسلامی کے تعاون کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے جماعت اسلامی کو دعاؤں کے لئے رکھا ہے۔ اس سوال پر کہ آپ ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں اور اب اگر آپ اقتدار میں ہوتے تو تو کیا کرتے کے جواب میں کہا کہ جب ہم اقتدار میں تھے تو اس وقت کسی کو اتنی جرآت نہیں ہوئی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرے اور نہ ایسا کرنے دیتے۔  عمران خان دنیا کے سامنے پاکستان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں، کبھی پاک فوج اور کبھی آئی ایس آئی پر الزام لگاتے ہیں کہ القاعدہ کو تربیت دی ہے، اسی سے اندازہ لگائیں کہ یہ کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے گھوٹکی میں حالیہ مذہبی واقعات کے بارے میں کہا کہ ہماری جماعت کی صوبائی قیادت نے وہان پر اہم کردار ادا کیا ہے، ہم فرقہ واریت اور مذہب کی بنیاد پر انتشار کے خلاف ہیں۔ اقلیت کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیئے اور انہیں تحفظ کا احساس ہماری جماعت نے دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی موجودہ پریس کانفرنس اور اس سے قبل مختلف مواقع پہ کی گئی ان کی گفتگو کا لب لباب یہی ہے کہ موجودہ حکومت خائن ہے، موجودہ سیاسی حکومت نے کشمیر پہ مفاہمت کی ہے، امریکہ اور بھارت پاکستان کے دشمن ہیں اور پی ٹی آئی حکومت ان کی رفیق کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ مولانا دبے لفظوں ایک طرف وزیراعظم کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور دوسری جانب سابق وزرائے اعظم کی گرفتاری کو جمہوری اقدار کے منافی بھی قرار دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان وزیراعظم کو یہودی ایجنٹ قرار دینے پہ بھی مصر ہیں اور مدت پوری کئے بغیر حکومت گرانے کی خواہش بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جن کی لیڈرشپ کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات میں اس وقت جیل میں بند ہے، وہ بھی مولانا کا ساتھ دینے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہیں اور تاحال ان کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں کر پائی۔

واضح رہے کہ مولانا اس حکومت کا بھی حصہ رہے کہ جس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا، جس نے افغانستان پہ حملے کیلئے پاکستان کی زمین اور افرادی قوت پیش کی۔ اس حکومت کے بھی ساتھ رہے کہ جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باقاعدہ سمری تیاری کی۔ مولانا اس حکومت کے بھی ساتھی رہے کہ جس نے دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی آن دی ریکارڈ کوشش کی، حالانکہ ان دہشتگرد گروہوں سے متعلق باقاعدہ انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ انہیں بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی شیطانی مثلث کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ مولانا ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا حصہ بھی رہے اور مالی و انتظامی لحاظ سے ان حکومتوں سے مستفید بھی ہوئے۔

القصہ مختصر کہ مولانا فضل الرحمان موجودہ حکومت پہ جتنے بھی الزام عائد کر رہے ہیں، اس سے بالاتر کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ۔؟ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان تمام الزامات کا سامنا ماضی کی وہ تمام حکومتیں کرچکی ہیں کہ مولانا جن حکومتوں کا حصہ رہے۔ پی ٹی آئی حکومت اس لحاظ سے منفرد ضرور ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس دور حکومت میں شریک اقتدار نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا شریک اقتدار نہ ہونا کسی بھی حکومت کیلئے اتنا سنگین جرم ہے کہ اسے وقت سے پہلے گھر بھیج دیا جائے، مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے نام پہ حکومت کیخلاف دھرنا دینے کیلئے اسلام آباد کا رخ کرنے لگے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے اسی قسم کے دھرنے کو جمہوری و آئینی اقدار کے منافی قرار دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان مخصوص مسلک سے متعلق مدارس کی طلباء قوت کو سڑکوں پہ لاکر اپنی سیاسی و افرادی قوت کا اظہار کرنے جا رہے ہیں۔ مسلکی طاقت کا یہ اظہار پاکستان اور پاکستان کے عوام کو کس امتحان سے دوچار کرے گا، اہل دانش کو اس بارے سوچنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 818548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش