1
Saturday 28 Sep 2019 14:19

خلیجی عرب ممالک سے ٹرمپ کی نئی بھتہ خوری

خلیجی عرب ممالک سے ٹرمپ کی نئی بھتہ خوری
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو اپنے اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے دشمنوں کو نصیحت کرنے کی عادت نہیں ہے بلکہ وہ عام طور پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں علامہ حسن کورانی کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی عادت کے برعکس دشمن کو نصیحت کی۔ سید حسن نصراللہ نے یمن کے خلاف جاری جارحیت میں سرگرم دو اصلی ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یمنیوں کے میزائل اور ڈرون حملوں سے بچنے کیلئے بہترین اور آسان ترین راستہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ راستہ یمن کے خلاف جارحیت روک دینے پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ امریکہ کی جانب سے مسلسل توہین کا نشانہ بننے سے کہیں زیادہ محترمانہ ہے۔ معلوم نہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام اس نصیحت پر کان دھریں گے یا نہیں لیکن سید حسن نصراللہ نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ مغربی سیاسی ماہرین کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کا انتقام لینے کی غرض سے کبھی بھی ایران کے خلاف فوجی اقدام نہیں کریں گے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے صرف ایک چیز اہم ہے اور وہ تمام خلیجی عرب ممالک سے بھتہ وصول کر کے ان کی تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی اربوں ڈالر کی آمدنی بٹورنا ہے۔ امریکی صدر یہ کام ایران کے خلاف ان کی مدد اور حفاظت کے بہانے انجام دے رہے ہیں۔ لیکن جب ان ممالک کو حقیقی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو امریکی صدر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ سعودی عرب نے جب اپنی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد امریکہ سے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کا مطالبہ کیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر متضاد پیغام بھیجنا شروع کر دیے۔ کبھی وہ لکھتے تھے کہ ایران کے مختلف مقامات ٹارگٹ کے طور پر چن لئے گئے ہیں اور کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کا پیغام آتا کہ ابھی تو وہ اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ سعودی تیل تنصیبات پر حملہ ور ہونے والے ڈرونز نے کہاں سے اڑان بھری تھی۔ حتی بحرین جیسا غریب اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ملک بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی بھتہ خوری سے محفوظ نہیں رہا۔ لیکن دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ امریکی صدر بحرین کو 12 ارب ڈالر مالیت کا پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم بیچنے پر مصر ہیں۔
 
امریکی صدر کا یہ اصرار ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب سعودی عرب میں یمنیوں کے ڈرون اور میزائل حملوں کے خلاف اس ایئر ڈیفنس سسٹم کی عدم افادیت ثابت ہو چکی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے اکثر اتحادی ممالک بھی پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے سے کترا رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے قریبی اتحادی ترکی نے امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے پر روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن بحرین جہاں امریکہ کا فوجی اڈہ بھی موجود ہے امریکہ کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ خلیج فارس میں اپنے ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کا انتقام نہیں لے سکا۔ اسی طرح اپنے انتہائی قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے آئل ٹینکر کو روکے جانے سے بھی نہیں بچا سکا۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران پر فوجی اقدام سے خائف ہے کیونکہ جوابی کاروائی کے طور پر ایران کی جانب سے قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت میں اپنے فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے جانے سے شدید خوفزدہ ہے۔
 
ہم بدستور اس موقف پر قائم ہیں کہ بقیق اور خریص میں واقع سعودی تیل تنصیبات پر حملہ ور ہونے والے ڈرون طیاروں نے یمن سے اڑان بھری تھی۔ ہمیں امید ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام اس معروف فوجی اصول پر توجہ دیں گے جو کہتا ہے: "جنگوں کو ختم کرنے کا بہترین راستہ فتح کا اعلان کر کے فورا جنگ روک دینا ہے تاکہ کم از کم نقصان برداشت کرنا پڑے۔" یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جارحیت کے نتائج سب پر واضح ہیں اور پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ ایک مشہور عربی ضرب المثل ہے جس میں کہا گیا ہے: "اگر سردیاں آنا ہوتیں تو آسمان پر بادل چھا جاتے۔" اسلامی مزاحمتی بلاک نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات کے خلاف شدید جنگ شروع کر دی ہے اور عین ممکن ہے بہت جلد متحدہ عرب امارات بھی اس جنگ کی زد میں آ جائے۔ انصاراللہ یمن نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کو خبردار بھی کر دیا ہے۔ یہ اقدامات ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت انجام پا رہے ہیں۔ اس کا مقصد یمن کے خلاف جارح قوتوں کو یمن کا محاصرہ اور جنگ ختم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔  
 
خبر کا کوڈ : 818869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش